قائد اعظم ؒ کی سالگرہ اور ایوانِ قائد اعظم

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 24 دسمبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کل بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا 145واں یومِ ولادت ہے۔ ہم اپنے بابائے قوم کے یومِ پیدائش پر ہمیشہ کی طرح خوش ہیں ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم بھی اُس عظیم اور بے مثال شخص کی دُنیا میںآمد کے دن کا مسرت سے استقبال کرے جس کی مساعی جمیلہ اور انتھک کوششوں سے آج ہم ایک خود مختار اور خوبصورت ملک کے باشندے اور شہری ہیں ۔

25دسمبر کا سارا دن قائد اعظم کی یاد میں بسر کرنے کا دن ہے ۔ یہ یاد کرنے کا دن کہ ہمارے اس بے مثل اور مثالی جمہوریت پسند لیڈر نے کن آدرشوں کی تلاش اور حصول کے لیے یہ مملکتِ خداداد کا تحفہ ہمیں عطا کیا ۔قائد اعظم ڈے در حقیقت یہ یاد رکھنے کا یومِ مسعود  ہے کہ آزادی بھی بمشکل ہی ملتی ہے اور آزادی دلوانے والا بھی ایک بار ہی میسر آتا ہے ۔ پھر اُس کی یادیں اور شخصیت کے نقوش ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یادیں اور نقوش بھی مدہم پڑ کر دھندلا جاتے ہیں۔ اور یوں رفتہ رفتہ منزل اور آدرش بھی آنکھوں سے اوجھل اور دُور ہوتے جاتے ہیں ۔ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کو بھولنا دراصل اپنے وجود اور نظریہ پاکستان کو فراموش کرنے کے مترادف ہے ۔

مَیں نے گزشتہ روز قائد اعظم کو یاد کرنے ، اُن کی باتیں سُننے ، سنانے اور انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی نیت سے دن کا کچھ حصہ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان اور ایوانِ قائد اعظم میں گزارا ۔ اوّل الذکر کا دفتر اَپر مال روڈ لاہور پر واقع ہے اورثانی الذکر ، ایوانِ قائد اعظم، کی عمارت مال روڈ سے خاصی دُور، پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے تقریباً متصل، رائے ونڈ روڈ پر ہے ۔ اب یہ علاقہ جدید لاہور کا دروازہ ہے ۔

اس علاقے میں جدید تعلیمی اداروں اور خوابناک رہائشی عمارتوں کی دُنیا آباد ہو چکی ہے۔ موٹروے سے نیچے اُترتے ہی سُرخ اینٹوں کی بنی ایوانِ قائد اعظم کی پُر شکوہ اور دلکش عمارت ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ ایوانِ قائد اعظم کی بلند قامت پیشانی ہمارے پُر شکوہ اور دراز قامت قائد اعظم کی دلکشا یاد دلاتی ہے ۔

قائد اعظم کے یومِ ولادت کے موقع پر ایوانِ قائد اعظم کا وزٹ کرنا ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی زیر نگرانی تقریباً48کنال پر پھیلا یہ پُر شکوہ ایوان حقیقتاً بانیِ پاکستان کے افکار، نظریات اور تعلیمات کو پھیلانے اور ان سب کی ترویج و اشاعت میں مرکزی اور بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے معرضِ عمل میں لایا گیا ہے ۔

یہاں فنی اور تعلیمی نمائشوں کے لیے وسیع مواقع ہر آن میسر ہیں ۔ پارکنگ بھی شاندار ہے اور یہاں کی لائبریری بھی وسعت پذیر ہے۔ ہزاروں، لاکھوں کتابوں کی گنجائش رکھنے والی۔ اگرچہ لائبریری کے وزٹرز کی ابھی کمی محسوس ہوتی ہے لیکن کتاب کے شائقین اور عشاق کی تسکین کے لیے یہاں بے پناہ لمحات میسر ہیں۔ سکون اور خاموشی اس کا منفرد طرئہ امتیاز ہے ۔ مجھے اس کی لائبریری دیکھ کر احساس ہُوا کہ وقت کی گزران کے ساتھ ساتھ یہ بڑھتی اور پھیلتی ہی چلی جائے گی۔ ایوانِ قائد اعظم میں آنے والوں کے لیے یہاں کا کیفے ٹیریا بھی عجب کشش رکھتا ہے ۔

ایوانِ قائد اعظم کا آڈیٹوریم شاید لاہور کا سب سے بڑا اور نادر آڈیٹوریم کہلانے کا اعزاز رکھتا ہے۔ بیک وقت یہاں سیکڑوں افراد بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ سکتے ہیں ، ڈرامہ کر سکتے ہیں ، فلم دیکھ سکتے ہیں ، جلسہ کر سکتے ہیں ، کانفرنس کر سکتے ہیں، ڈاکیومنٹری ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ اس کی عظیم الجثہ اسکرین قابلِ دید ہے۔ اور اس کا اُٹھا اسٹیج رومن تھیٹر کی یاد دلاتا ہے ۔ بس اس کی عظمتوں اور شکوہ سے مستفید ہونے والے آگے تو آئیں ۔

آگے تو بڑھیں۔تعاون کے لیے پھیلائی گئی اس کی بانہوں میں آئیں تو سہی ۔ مختلف اسٹیجزمیں استوار اس کے کئی ہالز بیک وقت سیکڑوں طلبا و طالبات کو امتحانات میں بیٹھنے کی گنجائش اور سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایوانِ قائد اعظم کے بعض ہالز نجی تعلیمی اداروں کے لیے بطورِ ایگزامینیشن سینٹرز بروئے کار بھی لائے جا رہے ہیں اور اس کے لیے متعلقہ اداروں سے مناسب فیس بھی وصول کی جارہی ہے۔ مجھے ایوانِ قائد اعظم کے سیکریٹری، جناب شاہد رشید، نے بتایا کہ پچھلے سال ہم نے کرایوں کی اِسی مَد سے96لاکھ روپے وصول کیے۔ اس رقم سے ایوانِ قائد اعظم کے کئی اخراجات بھی پورے ہو رہے ہیں اور یہاں مزید ڈویلپمنٹ کے مواقع بھی بڑھ رہے ہیں ۔

انھوں نے ملاقات کے دوران مجھے بتایا: ’’ایوانِ قائد اعظم کی لائبریری میں ابھی مزید اضافے کیے جا رہے ہیں۔یہاں بیٹھنے کے اوقات بھی بڑھائے جا رہے ہیں۔ کئی مخیر اور علم دوست افراد اور خاندان ہمیں اپنی نجی لائبریریاں بھی عطیہ کرتے ہیں۔ ہم کئی افراد سے قیمتی کتابیں خرید بھی رہے ہیں۔ جو لوگ ہمیں کتابوں کا عطیہ کرنا چاہتے ہوں، انھیں ہم خوش آمدید کہیں گے اور اُن کا تہِ دل سے شکریہ بھی ادا کریں گے ۔‘‘ مجھے اُن کئی کتاب دوست افراد کے نام بھی بتائے گئے جنھوں نے حال ہی میں اپنی کتابوں کا ذخیرہ ایوانِ قائد اعظم کے نام کیا ہے۔

اس عظیم ایوان کی تعمیر و تشکیل میں کن کن سیاسی و سماجی اور مخیر ہستیوں نے لازوال کردار ادا کیا، ان شخصیات میں اصل اور اساسی کردار پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ جناب غلام حیدر وائیں مرحوم کا ہے۔ پنجاب کی جس دوسری بڑی سیاسی شخصیت نے بڑھ چڑھ کر قائد اعظم سے منسوب اس عظیم الشان پراجیکٹ میں زبردست بنیادی مالی کردار ادا کیا، وہ جناب میاں شہباز شریف ہیں ۔

ایوانِ قائد اعظم کی وزٹ کے دوران مجھے بتایا گیا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر ایوانِ قائد اعظم میں قائد اعظم اوپن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جائے،  مَیں نے ایوانِ قائد اعظم سے وابستہ نعیم احمد، محمد سیف اللہ اور ناہید عمران گل کی موجودگی میں گزارش کی کہ اگر قائد اعظم کی شخصیت ، جدوجہد اور سیاسی نظریات سے گہری واقفیت رکھنے والی کسی محقق اور علمی شخصیت کے یہاں باقاعدہ لیکچرز کروائے جائیں اور ان کے سامعین اگر ہماری نوجوان نسل ہو تو یہ اقدام خوب رہے گا۔ سُن کر بولے: ’’ ہماری بھی یہی خواہش ہے۔

ہم نے اسی غرض سے قائد اعظم کے ممتاز مورخ اور مصنف جناب منیر احمد منیر کی خدمت میں ایسی ہی مستقل درخواست دے رکھی ہے ۔ دیکھیے اب وہ ہماری درخواست کو کب شرفِ قبولیت بخشتے ہیں۔‘‘پھر کہنے لگے :’’ ہم چاہتے ہیں کہ منیر احمد منیر صاحب باقاعدہ ایوانِ قائد اعظم میں تشریف لا کر ڈیرہ جمائیں، قائد اعظم پر اپنی نگرانی میں نئے اسکالرز تیار کریں ، ہم ان کی مقدور بھر خدمت بھی بجا لائیں گے ۔‘‘ خواہشیں تو کئی ہیں۔ ایک خواہش یہ بھی ہے کہ ایوانِ قائد اعظم کو بانی پاکستان پر ایک شاندار اور مبسوط فلم بھی بنانی چاہیے، لیکن ویسی نہیں جیسے ایک صاحب نے قائد اعظم کی شخصیت پر فلم بنانے کی کوشش میں قائد اعظم کی شخصیت اور ذات کو سخت نقصان پہنچایا ۔ اس بارے میں ہمیں سخت احتیاط برتنی چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔