اے قائداعظم! کوئی تجھ سا کہاں

محمد مشتاق ایم اے  ہفتہ 25 دسمبر 2021
قائداعظم ایک کرشماتی اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ (فوٹو: فائل)

قائداعظم ایک کرشماتی اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ (فوٹو: فائل)

انگریزی کیلنڈر کے 365 دنوں میں سے چند یادگار اور ہمیشہ امر ہوجانے والے دنوں میں سے ایک دن 25 دسمبر بھی ہے۔ سال کے ہر اہم اور یادگار دن کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جن میں مذہبی، لسانی، ملکی، صوبائی اور علاقائی حالات و واقعات شامل ہیں لیکن آج ہم جس 25 دسمبر کی بات کر رہے ہیں اس کو دوام ملا سال 1876 کے 25 دسمبر کو، جس دن ہمارے محبوب رہنما، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جنم لیا۔

ہمارے قائداعظم نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کے نام کا ڈنکا چار دانگ عالم بج رہا ہے۔ ان کے کردار، گفتار، ہمت، صاف گوئی اور دلیری کی داستانوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ان کی ذاتی خوبیوں کی فہرست میں ایک ایسا کارنامہ رقم ہے جس کی بدولت وہ رہتی دنیا تک پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رہیں گے اور وہ کارنامہ ہے قیام پاکستان۔

1940 میں قرارداد لاہور کی منظوری سے پہلے تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ پاکستان کا قیام کیسے اور کب عمل میں آئے گا۔ لیکن دنیا کی ازل سے اب تک کی تاریخ میں شاید ہی ایسا معجزہ تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا ہو کہ محض سات سال کی جدوجہد کے نتیجے میں کوئی ملک دنیا کے نقشے پر اس طرح ابھرا ہو جیسے ہمارا پاکستان۔

اس جدوجہد میں بلاشبہ اَن گنت لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس سارے قافلے کے روح رواں اور سالار قائداعظم محمد علی جناح تھے، جن کو نہ کوئی ہرا سکا، نہ کوئی خرید سکا، نہ ڈرا سکا اور نہ ہی کوئی ان کو اپنے نظریات سے ہٹا سکا۔ وہ ایک کرشماتی اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ قیام پاکستان کےلیے وہ انگریزوں، ہندوؤں، سکھوں اور اپنی صفوں میں موجود کچھ غداروں سے بیک وقت چومکھی لڑائی لڑے، جس میں ان کو مسلمانوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور بالآخر انہوں نے وہ ملک حاصل کرلیا جسے ہمارے دشمن ایک دیوانے کا خواب کہتے اور سمجھتے تھے۔

قائداعظم یوں ہی ایک عالم کے لیڈر نہیں بنے بلکہ ان کے اندر موجود خوبیوں اور ان کے کردار نے ان کو ایک ایسے سانچے میں ڈھالا کہ پھر پاکستان کی تاریخ میں ان کے بعد ہمیں ان جیسا کوئی دوسرا نہ ملا۔ پاکستان کی سیاسی اور حکومتی تاریخ میں ان کے بعد ان کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی کوئی رہنما ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں، مگر ناکام لوٹ آئیں کہ ’’ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘۔ ایسی ہی لاجواب شخصیت کے انتظار میں نرگس ہزاروں سال روتی رہی تب جاکر اس چمن کو دیدہ ور نصیب ہوا۔

ہم یہاں صرف ان کی چند ان خوبیوں کا حوالہ دیتے ہیں جن کی بدولت وہ محمد علی جناح سے قائداعظم بنے۔ آج بھی اگر ہم ان کے افکار کے مطابق طریقہ کار اپنا لیں تو شاید ہم بھی کسی گنتی میں شمار ہونے کے قابل ہوسکیں۔ ان کے بعد اقتدار میں آنے والے کسی ایسی خاصیت کے حامل نہیں رہے جو قائداعظم میں بدرجہ اتم کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ یہاں بعد میں آنے والوں نے اپنے نام کو ان کے نام کے ساتھ نتھی کرنے کی بڑی کوششیں کیں مگر ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق سب ناکام رہے۔

قائداعظم اپنے نظریات پر مکمل عمل پیرا رہے۔ عوام کے سامنے انہوں نے جھوٹ نہیں بولا اور جب وہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے تب بھی سارے لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے تھے۔ پوچھنے پر کہ آپ کو تو سمجھ ہی نہیں آرہی تو جواب ملتا سمجھ تو نہیں آرہی مگر یہ معلوم ہے کہ قائداعظم جو کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔

ایمان، اتحاد، نظم کے الفاظ ان کے زندگی کا عملی نمونہ رہے، کیونکہ نہ ان کا ایمان ڈگمگایا اور نہ اتحاد اور نظم پر انہوں نے کوئی سمجھوتہ کیا۔ صاف گوئی ان کے کردار کی ایک الگ خوبی رہی۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے قرآن و سنت موجود ہے، ہمیں کسی اور آئین کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ میرٹ پر کاربند رہنے والے شخص تھے۔ انہوں نے اپنی خدمت کے عوض بھی کسی کی سفارش کبھی نہیں کی۔ ملک کے گورنر جنرل بن جانے کے بعد ملکی خزانے سے اپنے یا اپنے خاندان پر ایک روپیہ تک لگانے کے روادار نہ تھے۔ وقت کی پابندی ساری زندگی ان کا خاصا رہی۔ حاضردماغ اور حاضر جواب ایسے کہ بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے۔ قانون پسند ایسے کہ کبھی کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملا۔ الغرض ان کی ایک ایک خوبی کے لاتعداد واقعات سے کتابوں کی کتابیں مزین ہیں جن کو یہاں بیان کرنا سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔

ان کے حوالے سے ایک سب سے خاص بات کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے ٹی بی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے لیکن انہوں نے اس کی ہوا بھی کسی کو نہ لگنے دی اور اپنے ڈاکٹر کو بھی منع کردیا کہ وہ کسی کو نہ بتائیں کہ کہیں قیام پاکستان کی تحریک اور جدوجہد کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ گویا انہوں نے اپنی جان بھی اس ملک خداداد کی خاطر قربان کردی اور ہمیشہ کےلیے امر ہوگئے۔

کیا آج کے اور آئندہ آنے والے حکمران ان کی زندگی کی کتاب سے کوئی سبق اپنے پلے باندھ سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ کیوں کہ یہ تو ابھی بھی خود کو شاید قائداعظم کی سطح کا لیڈر سمجھتے ہیں اور جب کسی شخص کے مرض کی تشخیص ہی درست نہ ہو تو اس کا علاج کیسے ممکن ہے۔ کوئی لیڈر اگر ان کی صفات کا ایک فیصد حصہ بھی رکھتا تو ہم آج ایسے حالات کا سامنا نہ کررہے ہوتے اور دنیا میں ایک ممتاز مقام کے حامل ہوتے۔

ہم اس مختصر سی تحریر کے ذریعے اس مردِ جری کو اپنا سلام پیش کرتے ہیں اور ان کے بلند درجات کےلیے دعاگو ہیں۔ اب ان جیسا دیدہ ور پیدا کرنے کےلیے نہ جانے نرگس کو کتنے ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونا پڑے گا اور وہ بھی کہے گی کہ اے قائداعظم کوئی تجھ سا کہاں۔

اللہ ہمارے ملک کی حفاظت کرے اور اس کو ہر ناگہانی مصیبت سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)۔ پاکستان زندہ باد۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔