سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 26 دسمبر 2021
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

صرف صبح۔۔۔ دوپہر ۔۔۔ شام۔۔۔!
سوئی گیس ہے یا کوئی دوا

خانہ پُری ر۔ط۔م

بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ہمارے ہاں شاید صرف ایک سوئی گیس ہی باقی بچی تھی، جو ہمہ وقت ہمارے گھروں میں دست یاب رہتی تھی۔۔۔ شاذونادر ہی یا کسی غیرمعمولی صورت حال میں ہی اس کی فراہمی میں تعطل یا کمی آتی تھی۔۔۔ ہمارے چولھے نہ صرف اس کے وسیلے سے جلتے تھے، بلکہ بجلی کی آنکھ مچولیوں کے زمانے میں پرانے وقت کے گھروں میں لازماً ایک دو گیس کی لالٹین بھی نصب ہوتی تھیں، جو بجلی کی عدم موجودگی میں خوب روشنی دیا کرتی تھیں۔۔۔

پھر چارج ہونے والی برقی بتّیوں، بیٹری اور جنریٹر کا چلن بڑھتا گیا، تو گھروں میں بلند جگہوں پر نصب یہ لالٹین قصۂ پارینہ بن گئیں۔۔۔ لیکن 12، 13 برس پہلے یہ انکشاف ہوا کہ ہمارے ملک میں سوئی گیس کم ہو رہی ہے، اس لیے گاڑیوں میں گیس (سی این جی) کا استعمال بے جا ہے، ورنہ پہلے تو ’سی این جی‘ ماحول دوست کہہ کر خوب فروخت کی گئی، لوگوں نے مہنگے بھائو درآمدی سی ’این جی کٹس‘ خرید کر اپنی گاڑیوں میں لگوائیں، بچت کی بچت اور آلودگی میں کمی کا اطمینان اس کے سوا۔۔۔ لیکن کہتے ہیں کہ وہ بھی دراصل باہر سے منگوائی گئی۔

سی این جی کٹس‘ بیچنے کا ایک ’جگاڑ‘ تھا، بہرحال چند برسوں میں ہی نوبت یہ آگئی کہ گوشت کی طرح ’سی این جی‘ کا بھی باقاعدہ ناغہ شروع ہوگیا۔۔۔ اور صحیح معنوں میں اسی وقت ہی یہ بھیانک حقیقت سامنے آئی کہ مسافر بسوں میں بھی اب ڈیزل اور پیٹرول کے بہ جائے ’سی این جی‘ کا بے دریغ استعمال ہو رہا تھا۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اندر خانہ بڑی گاڑیاں اور بسیں بھی کس قدر ’سی این جی‘ پھونکے لگی ہیں۔۔۔ اب جب ’سی این جی‘ بند ہونے سے ’عوامی ٹرانسپورٹ‘ غائب ہوئی، تو یہ حقیقت اپنے آپ کھل گئی۔

اُس وقت پیٹرول اور ڈیزل کے بھائو عوام سے کرایے وصول کرنے والے ٹرانسپورٹرز کس قدر دھڑلے سے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈال رہے تھے کہ اپنے روایتی ایندھن سے کہیں سستی، اگر ہم غلطی نہیں کر رہے تو اُس وقت نصف قیمت پر دست یاب گیس استعمال کر رہے تھے اور کرایے مہنگے پیٹرول اور ڈیزل کے اینٹھ رہے تھے، اور کس کی مجال تھی کہ ان سے بازپرس کرتا۔۔۔
خیر، بس عوام کے لیے ایک آمدورفت میں ہی تعطل آیا، باقی گھروں میں تو گیس دست یاب تھی، لیکن اب گذشتہ کئی ماہ سے کراچی کے مختلف علاقوں میں غیر اعلانیہ طور پر گھروں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی۔۔۔ ناظم آباد وغیرہ سمیت کچھ علاقوں میں تو دنوں تک گیس غائب۔۔۔ کسی سے پوچھو تو کوئی خبر نہیں۔۔۔ متعلقہ ادارے ’سوئی سدرن گیس‘ کمپنی کا موقف دیکھیے، تو وہ ایسی کسی بھی ’لوڈشیڈنگ‘ سے ہی انکاری، الّا یہ کہ وہ کوئی باقاعدہ گیس بندش کے اوقات جاری کرتی۔۔۔ پھر ایک دن حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا کہ ’عزیز ہم وطنو! تیار ہوجائو، سردیوں میں گیس غائب ہوگی۔۔۔! اور غضب خدا کا یہ حکومتی وعدہ تو ایسا نکلا کہ پورا ہو کر رہا، یعنی اِدھر سردی آئی ہی تھی اُدھر گیس اُڑن چھو ہوگئی۔۔۔! اب دن میں کسی کسی وقت ہلکی یا غائب ہونے والی گیس باقاعدہ طویل دورانیے کے لیے ’لاپتا‘ ہونے لگی۔۔۔
کیا زمانہ آگیا، کراچی کو بجلی دو

، کراچی کو پانی دو کی ہاہاکار ختم نہ ہوئی تھی کہ سوئی گیس کے لالے پڑنے لگے۔۔۔ ظاہر ہے ہماری حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو کم سے کم سہولتیں دی جائیں تاکہ بقول شخصے ’عادتیں نہ بگڑیں‘ ویسے مشہور زمانہ ہمارے فواد چوہدری گذشتہ دنوں کچھ ایسی ہی بات کہہ گئے ہیں کہ شہر میں رہنے والے 28 فی صد عوام سستی گیس استعمال کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔۔۔۔! حکومت کے ہردَم عزیز وزیر اطلاعات نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ عوام کو ’جگانے‘ کی پوری کوشش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’آئندہ چند برسوں میں ملک میں گیس نہیں رہے گی۔۔۔!‘ کیسا زمانہ آگیا ہے صاحب!

بھئی ہمارا کیا ہے کل کو آپ سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دیجیے، لیکن خدا کا واسطہ ہے، پہلے اپنے شہریوں کی آمدن بڑھانے کے راستے بھی بنا دیجیے، ورنہ قوم ’خطِ غربت‘ سے کہیں نیچے گرتی چلی جا رہی ہے۔۔۔

اور تو اور گیس کا بحران قومی اسمبلی میں بھی ’سنائی‘ دیا۔۔۔ ہمارے وزیر توانائی حماد اظہر صاحب نے ایک معزز رکن کو ناشتے کے لیے انڈے کے تلے جانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ ’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ نہ۔۔۔، ہفتے میں تین مرتبہ گیس دینے کی خبر یک سر غلط ہے۔۔۔ ہم تو اس سال دن میں تین وقت گیس دے رہے ہیں۔۔۔!‘

ارے بھیّا باپ رے۔۔۔ دن میں تین مرتبہ کا مطلب صبح، دوپہر شام۔۔۔ جیسے کسی معالج کی دوا۔۔۔ اور ہم جیسے ناشکرے حساب لگائیں، تو وزیر موصوف کو فرمانا چاہیے تھا کہ صاحب ہم ہفتے میں تین نہیں پورے 21 بار گیس فراہم کر رہے ہیں۔۔۔! (باقی حماد اظہر کے ’اس سال‘ کے لفظوں کی تشریح ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں)

کیا بات ہے موجودہ حکومت کی کہ برسہا برس سے کسی جمہوری، فوجی، ’آمری وامری‘ کسی قسم کی حکومت کو یہ ’’اعزاز‘‘ نہیں ملا، جو موجودہ ’تبدیلی سرکار‘ کے حصے میں آیا۔۔۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ کسی ایک حکومت نے شاید ایک آدھ بار ہی گیس فراہم کی ہوگی، اس کے بعد گیس آتی ہی چلی گئی، لیکن موجودہ سرکار کا کارنامہ ہے کہ وہ ہفتے میں 21 بار گیس فراہم کر رہی ہے۔۔۔ اور نہیں تو۔۔۔، کتنی ناقدری کرتے ہیں ناں ہم۔۔۔!

رہی بات ماضی کی ایسی خبروں کی کہ سوئی (بلوچستان) سے دریافت شدہ گیس کے ذخیرے سے کہیں بڑا ذخیرہ صوبۂ سندھ میں دریافت ہوا ہے، تو فی الحال ہمارا حکومت کو ’’برادرانہ‘‘ مشورہ ہے کہ کہہ دے کہ اپنے پاس اور بھی کام پڑے ہوئے ہیں، فی الحال ہم اس ذخیرے کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔۔۔ یا پھر کہہ دے کہ جیسے امریکا اپنے تیل کے ذخائر دبا کر شاید عرب دنیا کے تیل ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے، ایسے ہی اپن لوگ بھی سندھ والی گیس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، پھر خیر سے جب فواد چوہدری کے بقول (خام بدہن) ’سوئی گیس‘ عنقا ہو جائے گی، بلکہ دنیا میں بھی کہیں نہیں ملے گی، تب ہم سندھ کے ذخیرے کو چھیڑیں گے اور دنیا کو بتا دیں گے کہ دیکھو ہمارے پاس کتنی گیس ہے۔۔۔ پھر اگر آج سندھ کی گیس کو استعمال کر لیا، تو حکومت سے دن میں تین بار اور ہفتے میں پورے 21 بار گیس فراہم کرنے کا اعزاز بھی تو چھینا جائے گا ناں۔۔۔

اچھا ہے ناں، عوام بھی گیس کے آگے پانی اور بجلی کو رونے سے باز تو آئے۔۔۔ بھئی جب گھر کا چولھا گیس نہ ہونے کے سبب ٹھنڈا ہوگا، تو صاحب کیسی بجلی اور کہاں کا پانی۔۔۔ تین وقت گیس دینے والے وزیر کو شاید خبر نہیں ہوگی کہ وقت بے وقت بھی چولھا جلانا پڑتا ہے، جیسے کسی بچے کے لیے دودھ یا دلیہ وغیرہ گرم کرنا، کسی بیمار یا بزرگ کے کھانے ہاتھ منہ دھونے یا صفائی کو گرم پانی۔۔۔ لیکن یہاں پروا کسے ہے۔۔۔! جیسے کسی مشکل کو چھوٹا کرنے کے لیے اس سے بڑی مصیبت چھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔

بعینہٖ ’گیس فارمولے‘ نے بھی کیا ہے۔۔۔ خیر سے گندگی کے ڈھیر، غلط مردم شماری، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پچھلی صدی کی کھٹارا بسیں اور تجاوزات کے نام پر ٹوٹتے ہوئے گھر وغیرہ جیسے آلام کو بھول کر اہل کراچی ’گیس گیس‘ پکارے جا رہے ہیں اور اسلام آبادی حکومت کے لارے لپے سن رہے ہیں، باقی ’’ہر طرف سکون ہی سکون ہے۔۔۔‘‘ یعنی حکومت چل رہی ہے اور عوام رُل رہے ہیں۔۔۔ کیوں کہ حکومتوں کو چلنا ہوتا ہے اور ایسے ہی خیر سے عوام کورُلنا ہوتا ہے، اب قسمت کے لکھے کو ہمارے لفظ کیا بدلیں گے۔۔۔ رہے نام اللہ کا !

اچھا انسان اتنا بے بس کیوں؟
حبا رحمٰن، کراچی
صدیوں سے ایک ہی روایت دیکھتے آرہے ہیں ہم کہ اچھا اور صاف دل انسان پستا اور استعمال ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان دوسرے کا سوچتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔۔۔؟ اس میں لڑائی یہ ہے کہ اس کی اچھّائی سے سب لطف تو اٹھالیتے ہیں، مگر اس انسان کو نہ کبھی سراہتے ہیں اور نہ کبھی اچھائی کے بدلے اچھائی دیتے ہیں اس کی ایک مثال تو ہمیں روز دکھائی دیتی ہوگی۔۔۔ سڑک پر ہی جو انسان ہلکی رفتار میں گاڑی، بائیک یا سائیکل چلا رہا ہوگا۔

سب اس کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں کہ ’ٹہلنے نکلا ہے کیا۔۔۔‘ ’دوسروں کو تو جانے دے۔۔۔‘ وغیرہ وغیرہ جب کہ وہ آہستہ سواری چلانے والا شخص یہ سوچ کر چلا رہا ہوتا ہے کہ بھائی میری حلال کی کمائی سے خریدی گئی اس سواری کو کچھ نہ ہو اور نہ کسی اور کا اس سے نقصان ہو پھر ایک مثال ہے یہ کہ دوستوں میں زیادہ تر ایک انسان ایسا ہوتا ہے، جو سب دوستوں کے لیے اچھا سوچتا ہے ان کا ہر کام بغیر کسی نخرے کے کرتا ہے اور احسان بھی نہیں جتاتا، مگر پھر فائدہ بھی سب اسی کا اٹھاتے ہیں برائی بھی اسی کی کرتے ہیں کیوں کہ اچھائی کی قدر تو شاید 90 فی صد لوگ کرنا ہی بھول گئے ہیں اسی وجہ سے دنیا میں اچھائی اور اچھے لوگ ہی آہستہ آہستہ کم ہوتے جارہے ہیں۔

لوگوں کے اوپر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے اگر کبھی کوئی آج کے زمانے میں کسی مشکل وقت میں مدد کرنے آجائے تو دو منٹ کے لیے مشکل میں کھڑا انسان سوچ میں پڑجاتا ہے کہ آخر یہ مدد کیوں کرنے آیا ہے اس میں اس کا کیا فائدہ کیوں کہ زمانہ ہی ایسا آچکا ہے کہ ہر انسان بس اپنا مطلب دیکھتا ہے اور جو سب کے بارے میں سوچے اس کا جینا حرام۔ ظاہر سی بات ہے جب ایک دل کا اچھا آدمی یہ دیکھے گا کہ اس کی اچھائی کی کوئی قدر نہیں ہے سب اس کو استعمال کر رہے ہیں، تو وہ بھی اپنی اچھائی پر ’فل اسٹاپ‘ لگانے لگتا ہے اور یہاں سے برائی کی جیت ہونے لگتی ہے جو کہ سب کے لیے ایک پریشانی کی بات ہے اور اس چیز کو ختم کرنا ہوگا۔ اچھائی کا جواب مطلب سے نہیں اچھائی سے ہی دینا ہوتا تب جاکے کچھ دنیا میں بہتری آسکتی ہے۔

لمحہِ موجود
فرزانہ خورشید، کراچی

زندگی ایک سی بالکل نہیں ہے، سب کی اپنی اپنی پسند، ترجیحات اور ضروریات ہیں، اور الگ تجربات، وسائل و حالات ہیں لہٰذا اس کا موازنہ اوروں سے ہرگز نہ کریں، اپنے حالات، واقعات کے پیش نظر ہر انسان مختلف صورت حال سے دوچار ہے۔

کوئی کسی تپیش میں جلتا ہے تو کوئی الگ گھٹن میں گھل رہا ہے، کسی کے لیے زندگی ایک سوال ہے تو کسی کی زندگی ایک حسین خواب ہے، ہر شخص کو الگ الگ رکاوٹوں اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ کسی کو مال بڑھانے کا غم کھائے جارہا ہے تو کوئی فکرمند اس لیے ہے کہ مال سنبھالے کیسے؟ کوئی شہرت کا دل دادہ اس کی جستجو وجہد میں دن رات محو ہے تو کوئی شہرت سے پریشان چھپتا پھر رہا ہے۔ عرض یہ ہے کہ دنیائے فانی میں کسی کی بھی زندگی الجھنوں اور رکاوٹوں سے مبرا نہیں ہے۔ حالات، غم، مسائل اور طرح طرح کی فکریں سب کو الجھائے ستائے اور بے چین رکھتی ہیں، زندگی جہدِ مسلسل ہے، ہر منزل کے آگے ایک اور منزل ہے، یہاں خواہشیں کبھی پوری نہ ہوں گی۔

ادھوری زندگی کی کبھی تکمیل نہ ہوگی، موازنہ اگر کرنا ہے تو خود اپنے آپ سے کریں، اپنی پرانی عادات، نظریات، خیالات، حالات واعمال سے کریں، آپ کل کیا تھے اور آج کہاں ہیں؟ آج بھرپور جینے کی آپ کی کوششیں کیا ہیں؟ یقیناً حال، ماضی سے بہتر ہی ہوگا، اور حال اگر بہتر ہے تو ان شاء اللہ مستقبل بھی خوش آئند ہی ہوگا، لیکن اگر ماضی تلخ تھا تو بہترین مستقبل کے خواب و یاد میں لمحہِ موجود کو برباد نہ کریں، ہر گزرتے دن سے اپنے آج کو بہترین کریں، بس زندگی اسی کوشش میں یوں ہی پوری کریں۔

اچھا تو وہ آپ ہیں؟
کمال الدین احمد
ایک مرتبہ وادی بولان کے صحافیوں کی ایک جماعت سوئی گیس کے معائنے کے لیے گئی۔ ان میں یہ صحافی شامل تھے۔ خلیل الرحمان صدیقی، اعظم علی ، معظم علی ، مولانا عبداﷲ بابائے صحافت ، محمد حسن نظامی، ریڈیو کے مسٹر انصاری اور انفارمیشن آفیسر سید اختر شاہ۔ ان دنوں سوئی تھانہ کے انچارج راجہ گلزار تھے۔ ان سے صحافیوں کا تعارف کراتے کراتے ریڈیو پاکستان کے نمائندے کی باری آئی تو تعارف کنندہ نے کہا۔
’’ اور خدا آپ کا بھلا کرے۔ یہ ہیں پاکستان کے ایڈیٹر کا ریڈیو‘‘ یہ سن کر تحصیل دار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو وہ آپ ہیں۔‘‘
اس پر زور کا قہقہہ بلند ہوا۔
واہ صاحب کمال ہے!
یہاں کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ اس لیے وہ اردو اخبارات سے نفرت کرتے تھے۔ وہ اکثر جناح روڈ پر بک اسٹال میں چلے جاتے اور وہاں انگریزی اخبارات پڑھتے۔ ایک دن وہ ایک اخبار لے کر دکان کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر اسے پڑھنے میں منہمک ہوگئے۔ ایک بجے کے قریب دکان دار دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے دکان بند کرکے تالا لگاکر گھر چلاگیا اور اخبار پڑھنے میں منہمک صحافی دکان میں بند ہوگئے۔ چار بجے بک اسٹال والے نے آکر دکان کھولی تو صحافی کو دکان کے اندر دیکھ کر حیران اور پریشان ہوا۔ مگر صحافی یہ کہتے ہوئے ’’واہ صاحب کمال ہے۔‘‘ دکان سے باہر نکل گئے۔
(صحافت وادی بولان میں، سے اقتباس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔