مشتری ہوشیار باش

محمد مشتاق ایم اے  جمعرات 30 دسمبر 2021
اپوزیشن بھی موجودہ حکومت کی طرح عوام کو سہانے خواب دکھا رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

اپوزیشن بھی موجودہ حکومت کی طرح عوام کو سہانے خواب دکھا رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سیانے کہتے ہیں کہ کوئی کام کرنا ہو تو دیوار سے بھی مشورہ کرلینا چاہیے تاکہ اس کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا جاسکے۔ ہمارے مذہب میں تو اچھے مشورے کو صدقے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ بات الگ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنی فیلڈ کے حساب سے مشورے کی فیس طلب کرتے ہیں، جسے مشورہ مانگنے والا خوشی خوشی ادا کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کےلیے ڈاکٹر کی مثال لے لیجئے کہ جب کسی کو صحت کے حوالے سے مشورہ کرنا ہو تو ظاہر ہے ایک ڈاکٹر سے کرے گا اور ڈاکٹر اپنے مشورے کی ایک فیس وصول کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی کو کورٹ کچہری کا کوئی کام آن پڑے تو وہ اپنا کیس لڑنے کےلیے ایک اچھے وکیل کا بندوبست کرے گا، جس کے مشورے کی فیس بھی کافی اچھی اور تگڑی ہوگی۔

الغرض ان سب باتوں سے یہ پتہ چلا کہ مشورہ ایک قیمتی شے ہے۔ ایسے میں اگر مشورہ مفت بھی ہو اور صائب بھی ہو تو پھر کسی کو اور کیا چاہیے؟ جی ہاں ہم جس مفت مشورے کی بات کر رہے ہیں وہ کسی اور کو نہیں بلکہ ہم اپنے ملک عزیز کی موجودہ اپوزیشن کو دینا چاہتے ہیں، تاکہ یہ کل نہ کہہ سکے کہ کسی نے بتایا نہیں تھا، کسی نے مشورہ نہیں دیا تھا۔

ہماری نظر میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی اب تک کی ناکامی کی بنیادی وجہ اپوزیشن کی بہادری یا لیاقت نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی نالائقی ہے، جس کو اس کا ہر مخالف کیش کرانے کے چکر میں ہے۔ حکومت کی اس نااہلی اور نالائقی پر اپوزیشن اس طرح اچھل کود کر رہی ہے جیسے حکومت کی ناکامی کا کارہائے نمایاں اسی کے ہاتھوں سرانجام پایا ہے، حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کی ناکامی پر اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا ہے جس کےلیے وہ ابھی سے کمر کس کر میدان میں اتر چکی ہے۔

اپوزیشن جماعت میں شامل ہر جماعت کے بلند بانگ دعوؤں اور بڑھکوں نے سیاسی میدان کو اگلے عام انتخابات سے پہلے ہی گرما دیا ہے اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد نے اس گرما گرمی میں مزید کئی رنگ بھر دیے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت اپنی ناکامی کی وجوہ اور دلائل عوام کو پیش کر رہی ہے، جب کہ اپوزیشن اس حکومت کی ناکامی کو ہر زاویے سے عوام پر آشکار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، لیکن آج تک اس حکومت کو گرانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام اپوزیشن نہیں اٹھا سکی اور بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ موجودہ حکومت اگلے انتخابات تک کھینچ تان کر اپنی حکومتی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ حکومت کو اس کی پوری مدت کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ کل وہ سیاسی شہید نہ بن سکے اور اپنی ناکامی پر عوام کو تاویلیں پیش نہ کرسکے۔

اپوزیشن کو ہمارا مفت صائب مشورہ ہے کہ بے شک وہ بلدیاتی اور اگلے عام انتخابات کی تیاری ضرور کریں لیکن اپنے دعوؤں، وعدوں اور بڑھکوں میں تھوڑا میٹھا کم رکھیں، کیوں کہ میدان سے باہر بیٹھ کر مشورے دینا اور کھیلنے والے کھلاڑی پر تنقید بڑا آسان کام ہوتا ہے لیکن جب بندہ خود کریز پر جا کر کھڑا ہوتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتی کہ بال آ کہاں سے رہی ہے اور جا کہاں رہی ہے اور کبھی کبھی بال ہیلمٹ کے باوجود سر میں جا لگتی ہے۔ اس لیے اپوزیشن عوام سے ایسے وعدے نہ کرے جو کل پورے کرنے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوں گے۔ یہ نہ ہو آج حکومتی ناکامی کے جو بہانے یہ حکومت پیش کرہی ہے وہی کل آپ کو نہ پیش کرنے پڑ جائیں۔

اگلے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کےلیے عوام کی بہتری کےلیے ٹھوس اقدامات کرنا کچھ ایسا آسان نہیں ہوگا۔ ویسے بھی موجودہ حکومت تمام مالیاتی اداروں سے جو معاہدے کر رہی ہے وہ اگلی حکومت کو بھی ہر صورت میں پورے کرنے ہوں گے۔ اگلی حکومت تک ہمارا اسٹیٹ بینک بھی خودمختار بن چکا ہوگا اور حکومتی اشاروں پر چلنے کے قابل نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے مہنگائی کو جس سطح پر پہنچا دیا ہے (اس کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں) اس کو نیچے لانا اگلی حکومت کےلیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ بلکہ عوام تو اس بات پر بھی تالیاں بجائیں گے کہ اگر مہنگائی کی موجودہ سطح کو کم نہیں تو برقرار بھی رکھا جاسکے۔

اسی طرح موجودہ حکومت نے اندرونی اور بیرونی سطح پر جو قرضے لیے ہیں ان کی واپسی بھی اگلی حکومت کے ذمے ایک بھاری بوجھ ہوگا جس کو سر سے اتارنا ’’مشن امپاسیبل‘‘ ہوگا۔ اگلے الیکشن کے بعد نئی اپوزیشن کے جلسے جلوس، احتجاج، دھرنے نئی حکومت کی سردردی بڑھانے میں سونے پہ سہاگا کا کام کریں گے۔ نئی حکومت کو اپنے اتحادیوں کے نخرے اسی طرح اٹھانے پڑیں گے جیسا اب موجودہ حکومت اٹھانے پر مجبور ہے اور ان سب حالات کے پیش نظر نئی حکومت بھی اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے اور عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف نہ دینے پر ایسے ہی دلائل تراش رہی ہوگی جیسے موجودہ حکومت رات دن کوشش کر رہی ہے اور نئی حکومت کےلیے ہنی مون پیریڈ گزرنے کے بعد ہمارے عوام آج کی طرح گزشتہ حکومت اور حکمرانوں کو یاد کررہے ہوں گے۔

اس لیے ہم اگلی حکومت کے امیدواروں کو ہوشیار کر رہے ہیں کہ آپ عوام سے پورے نہ ہونے والے ایسے وعدے نہ کریں، نہ ہی آسمان سے تارے توڑ لانے کے خواب دکھائیں اور نہ دودھ کی نہریں جاری کرنے کی بڑھکیں ماریں۔ نہ ہی غیر جانبدار احتساب کا نعرہ لگائیں اور نہ ہی ملک کو حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کریں۔ کیونکہ ایسا کچھ بھی نہی ہونے والا ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی ہم عوام کو بھی خبردار کررہے ہیں کہ موجودہ اپوزیشن کے ہر وعدے پر اعتبار اپنی ذمے داری پر کریں اور الیکشن کے دنوں میں زیادہ اچھل کود سے بھی پرہیز کریں اور اپوزیشن کے وعدوں کو ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ اہمیت نہ دیں، تاکہ کل آپ کو نئی حکومت کا سامنا کرتے ہوئے مشکل پیش نہ آئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔