سال 2021ء میں خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کیلیے متعدد اقدامات اٹھائے گئے

آصف محمود  بدھ 29 دسمبر 2021
خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ، تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں اور جائیداد سے وراثت اور ووٹ سمیت کئی حقوق دیئے گئے - تصاویر:ایکسپریس نیوز

خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ، تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں اور جائیداد سے وراثت اور ووٹ سمیت کئی حقوق دیئے گئے - تصاویر:ایکسپریس نیوز

 لاہور: پاکستان میں سال 2021ء کے دوران خواجہ سراؤں کو ان کی الگ پہچان اور حقوق کی فراہمی کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم پنجاب میں ابھی تک ٹرانس جینڈررائٹس ایکٹ ابھی تک منظورنہیں ہوسکا ہے۔ ادھرمحکمہ انسانی حقوق پنجاب نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی این جی او کی معاونت سے خواجہ سراؤں پر تشدد، امتیازی سلوک اور شکایات کے فوری اندارج کے لئے موبائل فون ایپ متعارف کروادی ہے۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کے حصول، تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں اورجائیداد سے وراثت اورووٹ سمیت کئی حقوق دیئے گئے ہیں تاہم ان پرابھی تک عمل درآمدنہ ہونے کے برابرہے جس کی بڑی وجہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ان حقوق اورقوانین بارے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔

ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی غیرسرکاری تنظیم کی نمائندہ گل مہرسید نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا 2021 میں مرکزی اورصوبائی حکومتوں نے خواجہ سراؤں کے کئی ایک مسائل پرتوجہ دی ہے اوران کے لئے قانون سازی کی گئی ہے تاہم کئی ایک کام ابھی بھی ہوناباقی ہیں۔ انہوں نے الیکشن کے دوران خواجہ سراؤں کے لئے الگ لائنیں بنانے اورالگ پولنگ بوتھ بنانے کاقانون توبنادیاگیا ہے لیکن ان کی الگ سے ووٹرلسٹیں نہیں بنائی گئی ہیں اسی طرح خواجہ سراؤں کو ہیلتھ کارڈ، نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں لون کے لئے کوٹہ دیا گیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں ان کے لئے دوفیصد کوٹہ رکھا گیا ہے۔

خواجہ سرا ماہم نے بتایا ہمارے معاشرے اور خاندانوں کے رویوں میں تبدیلی آرہی ہے، ابھی ٹرانس جینڈرکمیونٹی کے لئے اٹھائے جانیوالے اقدامات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں گوکہ ان کی رفتار بہت سست ہے لیکن کچھ ہونا شروع تو ہوا ہے، ہمارے خاندان اور معاشرہ جو ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اب ان کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے ہمارے لئے قبولیت بڑھنے لگی ہے، اس کی وجہ تعلیم اورآگاہی ہے، جیسے جیسے لوگوں کوشعور ملا ہے ہمارے لئے ان کی سوچ بدل رہی ہے۔

ماہم کہتی ہیں خواجہ سراؤں کی اکثریت ان پڑھ ہے، 85 فیصد خواجہ سرایسے ہیں جو بالکل ان پڑھ ہیں، ان کے لئے ان کے خاندانوں اورمعاشرے میں آج بھی مشکلات ہیں، ہمیں اس طبقے کی قبولیت اوراسے بااختیاربنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کو وراثتی جائیداد میں حصے کے حوالے سے خواجہ سراؤں کوالگ سے توکوئی حق نہیں دیا گیا ہے تاہم یہ طے ہوا ہے کہ جس خواجہ سرامیں مردانہ رحجان زیادہ ہوگا اسے مردوں جبکہ جن میں خواتین کا رحجان ہوگاانہیں خواتین کے حق وراثت کے تحت حق دیا جائیگا۔

ایک اور خواجہ سرا ہیرعلوی جوکہ فیشن ڈیزائنرہیں وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں جنسی اورجسمانی تشدد،ان کے ساتھ جنس کی بنیادپرہونیوالے امتیازی سلوک سے متعلق شکایات کا حصول سب سے اہم مسئلہ ہے، تھانے میں اکثران مقدمات کی رپورٹنگ ہی نہیں ہوتی ہے۔ اب فیسزآف پاکستان اورمحکمہ انسانی حقوق نے ایک موبائل ایپ تیارکی ہے،اس ایپ کے ذریعے ٹرانس جینڈر کے ساتھ ہونیوالی کسی بھی قسم کی زیادتی سے متعلق فورارپورٹنگ کی جاسکے گی جس سے متعلقہ ادارے کارروائی کریں گے۔

ہیرعلوی کہتی ہیں ملک بھرمیں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی این جی اوز تو اس کمیونٹی کے ساتھ ہونیوالے تشدد اورغیرانسانی واقعات کاڈیٹارکھتی تھیں تاہم سرکاری سطح پر بیک وقت مختلف محکموں کوایسے واقعات بارے آگاہ کیاجاسکے گا۔موبائل ایپ اوررپورٹنگ کے طریقہ کارکے حوالے سے خواجہ سرابرادری کے نمائندوں کوٹریننگ اورموبائل فون دیئے گئے ہیں۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں کی درست آبادی سے متعلق بھی حکومت اوراین جی اوزکے درمیان اختلاف ہے۔2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10,418 ہے جبکہ پنجاب میں 6709 خواجہ سرا ہیں تاہم ماہرین کے مطابق خواجہ سراؤں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، نادرا کے ریکارڈ میں صرف 5626 افراد نے بطور خواجہ سرا اپنا اندراج کرایا ہے۔

پنجاب کے وزیربرائے انسانی حقوق اعجازعالم آگسٹن نے بتایا حکومت خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کے لیے اقدامات یقنی بنا رہی ہے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کابل 2018 ابھی صوبائی کابینہ نے منظورنہیں کیاہے،اسے جلدہی منظوری کے لئے پیش کیاجائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین پرتشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کے لئے ہم نے موبائل ایپ تیارکی ہے،آئندہ چندروزمیں یہ ایپ گوگل پلے سٹورسے ڈاؤن لوڈکی جاسکے گی۔ انہوں نے کہا سال دوہزاربائیس خواجہ سراؤں کے لئے نئی خوشیاں،امیدیں اورکامیابیاں لیکرآئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔