لوگ ڈان کہوٹے کیوں بنتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 31 دسمبر 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہم چاہیں کسی بھی نام سے پکاریں جا رہے ہوں لیکن اصل میں سب ڈان کہوٹے (Don Quixote)ہیں۔ آئیں! اس معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہیں ۔ عالمی ادب میں ایک ناول ایسا بھی ہے کہ چار صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس کی شہرت ، مقبولیت اور پسندیدگی کا گراف وہ ہی ہے جو چار صدیاں پہلے تھا۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو ۔ جدید ناول ہونے کا شرف بھی اسے حاصل ہے پہلے ناول کا سہرا بھی اسی کے سر پر سجا ہوا ہے۔

اس ناول کا نام ڈان کہوٹے ہے اسپینش زبان کا مشہور شاعر، ڈرامہ نویس سر وانیٹز اس کا مصنف ہے دوستو یفسکی کا ناول the Idiot سروانیٹز کے اثر سے نہ بچ سکا۔ مشہور مصور پکاسو نے ڈان کہوٹے کے دو لافانی کرداروں ڈان کہوٹے اور سانچو پانزا پر تصویروں کی ایک سیریز بنائی۔

سر واینٹز نے یہ ناول لکھنے کا منصوبہ جیل میں بنایا اور بقول اس کے ’’ خیال یہ تھا کہ اس کا ہر فرد ڈان کہوٹے بن جائے لیکن اگر اس میں ڈان کہوٹے نہ ہو پھر بھی یہ دنیا پل میں ختم ہوجائے ‘‘ سروانیٹز نے یہ ناول لکھنے کا منصوبہ جیل میں بنایا اور بقول اس کے ’’ خیال یہ تھا کہ اسپین کے لوگوں کی حقیقی زندگی اور ان کی عادات و خصائل کو اس ناول میں روز مرہ کی زبان میں پیش کیا جائے اور ناول نگاری کے اس اسلوب اور انداز کی پیروڈی پیش کی جائے جو ایک صدی سے اسپین میں رائج ہے۔‘‘

سروانیٹز نے ڈان کہوٹے کی تشکیل میں بہت مہارت سے کام لیا ہے وہ اسے ایک معصوم اور ایسا کردار سمجھتا ہے جس میں نیکی اور اچھائی موجود ہے وہ دنیا سے برائیوں کا خاتمہ چاہتا ہے وہ ایک پختہ عمر کا نہایت معصوم آدمی ہے جو کوئی کام نہیں کرتا ۔ بس گھر میں بیٹھا شجاعت، بہادری اور جنگ و جدل کے رومانوی ناول پڑھتا رہتا ہے ۔

گاؤں میں اس نے بہت سے لوگوں کا قرض ادا کرنا ہے وہ کتابوں کے سحر میں اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ اس کا حقیقی دنیا سے کوئی رشتہ نہیں رہا وہ خیالات میں ڈوبا رہتا ہے اور سوچتا رہتا ہے کہ کیوں نہ وہ بھی کسی ملک پر حملہ کرکے بادشاہ بن جائے چنانچہ وہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ وہ کسی مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوگا۔ پھر ناول خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے ۔

مشہور نقاد Calos Fuentes کو یہ کہنا پڑا ’’ سرواینٹز لوگوں کے سامنے کتاب کے صفحات کھول کر رکھ دیتا ہے اور اس میں پڑھنے والے اپنے آپ کو دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘ اب آپ ہی اپنے خیالات ، احساسات ، ماحول ، حالات اور واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے خود ہی بتائیں کہ کیا آپ ڈان کہوٹے نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں۔

ہم سب اپنے اپنے خیالات میں ڈوب کر اپنی اپنی دنیا بنا کر اپنے حالات ، واقعات اور ماحول کی تیزابیت سے بچنے کی کو شش نہیں کر رہے ہیں ہم اگر ایسا نہ کرتے تو پاگل نہیں ہوجاتے ہم جس ماحول ، حالات اور واقعات میں زندہ ہیں کوئی اگر جانور بھی اس ماحول ، حالات اور واقعات میں زندہ ہوتا اور اسے احساس ہوتا تو وہ بھی پاگل ہو جاتا۔

وہ بھی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے ہیگل کہتا ہے ’’ چیزوں اور واقعات کا الگ الگ مطالعہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک نظام کے بہت سے عناصر باہم متعلق ہیں اور واقعات یا چیزوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً اگر ہم کسی شخص کے نفسیاتی نظریات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اس کے فلسفیانہ ، معاشی اور سیاسی نظریات اور اس ملک کے مخصوص دور کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی حالات کا مطالعہ بھی کریں اس شخص کے نظریات کو ان سب اثرات سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا ‘‘ ہیگل کے الفاظ میں ہمیں ’’ کل ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ علیحدہ علیحدہ عناصر کا۔آئیں ! اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ڈان کہوٹے کیوں بنا دیا گیا ہے۔

19ویں صدی کے وسط میں جابرانہ حکومتوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ صرف جبراً حکومت قائم رکھنا ان کے لیے بہت مشکل اور گراں ہے بندوق اور توپ کے ساتھ ساتھ انھیں کچھ اور طریقے استعمال کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی جن کے ذریعے وہ اپنا تسلط قائم رکھتے۔ چونکہ 19ویں صدی کے وسط میں سائنس ایک نئے مذہب کی شکل اختیار کر چکی تھی اس لیے مختلف قسم کے نظریات کو سائنسی لبادہ پہنایا گیا یہ کام علم نفسیات کے ایک اہم شعبے نفسیاتی پیمائش نے سرانجام دیا پھر جوں جوں سرمایہ دار نظام ترقی کرتا گیا اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت بڑھتی گئی۔

20 ویں صدی کے شروع میں نفسیات کی انسانوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت عیاں ہوچکی تھی۔ اس لیے نفسیات کو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جانے لگا۔ نفسیات کے استعمال کے پھیلنے میں پہلی جنگ عظیم نے اہم کردار ادا کیا۔ جنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نفسیات کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ، ہم اگر اور پیچھے جائیں تو ہمیں معلوم چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ایک ہزار سال پہلے ہندوستان میں پدرانہ طبقاتی گلہ بانی کا نظام قائم تھا۔

حکمران طبقوں نے لوگوں میں یہ نظریہ پھیلایا کہ جسمانی محنت ادنیٰ ہے اور ذہنی محنت اعلیٰ تر۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ ذہنی صلاحیتیں ورثے میں ملتی ہیں جس طرح دولت ورثے میں ملتی ہے اور اس طرح حکمران طبقے کے ورثا ہی حکومت کرسکتے ہیں کیونکہ حکومت کرنے کی صلاحیتیں ان ہی کو ملتی ہیں حکمران طبقے کو اس قسم کے نظریات پھیلانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ محنت کرتی تھی لیکن حکمران طبقے کے افراد پیداوار کا بہت زیادہ حصہ خود رکھ لیتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔