اقتصادی و سیاسی صورتحال

ایڈیٹوریل  ہفتہ 1 جنوری 2022
بنیادی مغالطہ حکومتی اقتصادی بے سمتی ہے، حکومت عوام کو ناسٹیلجیا اور یاد ماضی کے دھندلکوں  میں دلچسپی رکھتی ہے۔ فوٹو: فائل

بنیادی مغالطہ حکومتی اقتصادی بے سمتی ہے، حکومت عوام کو ناسٹیلجیا اور یاد ماضی کے دھندلکوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ سالوں سے غریب عوام کو خواب دکھائے جا رہے ہیں، اب ایک شخص آیا ہے جو ریاست مدینہ پر یقین رکھتا ہے۔

اسلام آباد میں کامیاب پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ہمارے غریب عوام کے لیے آج ایک بہت بڑا دن ہے، 74 سال میں بھی غریب عوام کو گھر، روٹی پانی اور کپڑے کے خواب ہی دکھائے جا رہے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ معیشت ترقی کرے گی اور آپ کو اس کا ثمر ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے غریب عوام نے خوابوں میں ہی اپنی زندگیاں گزار دیں، لیکن اتنے سالوں میں یہ ’’ ثمر ‘‘ نہیں ملا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت انھیں جو وظیفہ دیتی ہے وہ بھی ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے، کہ یہ آج  ہے کل نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ ادارے ہیں جو چھوٹے قرضے دے سکتے ہیں اور بہت سے لوگ کئی سالوں سے اس طرح کے قرضے دے رہے ہیں، اس لیے ہم نے یہ اسکیم بنائی کہ ان اداروں کو بڑے بینک پیسے دیں گے اور یہ آگے عوام کو قرضے دیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ہر فصل کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے دیے جائیں گے، یعنی سال کی دونوں فصلوں کے لیے 3 لاکھ روپے جب کہ زراعت کے ساز و سامان کے لیے 2 لاکھ روپے کے قرضے دیے جائیں گے۔

انھوں نے تقریب کے شرکا کوکہا کہ جب آپ کو قرضہ ملے تو پہلے پاکستان اور پھر عمران خان کے لیے دعا کریں، میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ جب تک میں وزیر خزانہ ہوں میں عمران خان کا یہ خواب پورا کرتا رہوں گا۔ خدا کرے عوام کو مشیر خزانہ کے وعدہ پر یقین آجائے، کیونکہ وعدوں کے انبار میں کسے یاد ہے کہ کون سا وعدہ یا دعویٰ کس نے کب کیا تھا ، وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ قرضے میرٹ کی بنیاد پر منصفانہ انداز میں دیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف منی بجٹ کا منظر نامہ دیکھیے، وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ضمنی مالیاتی بل2021کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مِنی بجٹ میں دالیں، ادویات، ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال، سلائی مشین، درآمدی مسالہ جات، ملٹی میڈیا، بیکری کا سامان، زرعی شعبے میں استعمال ہونیوالے مختلف نوعیت کے پلانٹس و مشینری، سولر پینل، سولر آلات، آٹا، ویجیٹیبل گھی، دودھ، دہی، مکھن، پنیر، لسی، موبائل فون، اسٹیشنری اور پیک فوڈ آئٹمز، انڈے، پولٹری، گوشت، جانوروں کی خوراک کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، گاڑیاں، ٹریکٹر سمیت ایک سو چالیس سے زائد اشیاء مہنگی ہونے کے امکانات، ان اشیاء پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک کے خلاف نیب اور ایف آئی اے تحقیقات کرسکیں گے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کرکے اسے پانچ سال تک بڑھا دیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کو مزید پانچ سال کے لیے توسیع دیے جانے کی شق بھی بل کا حصہ ہے جب کہ پالیسی کوآرڈینیشن بورڈ کو تحلیل کر دیا جائے گا، وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ترمیمی فنانس بل سے عوام پر بوجھ کی باتیں بے بنیاد ہیں، مہنگائی بڑھنے کی افواہیں پھیلائی گئیں، ترمیمی فنانس بل میں343 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ پر نظرثانی کی گئی ہے۔

عام آدمی پر2 ارب کے ٹیکس لگنے ہیں، صرف2 ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم ہونے سے کونسا طوفان آجائے گا۔ مہنگائی ساڑھے گیارہ فیصد ہے، مہنگائی امپورٹڈ اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے ہورہی ہے، اگر میں فیل ہوگیا توکیا امریکا، جرمنی اور باقی ملکوں میں بھی مہنگائی بڑھنے سے سب فیل ہوگئے ہیں، عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، پٹرولیم مصنوعات، کوئلہ، اسٹیل، خوردنی تیل کی قیمتوں کا اختیار میرے پاس نہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے سب پر سیلز ٹیکس لگائیں، ہم نے کہا جو ٹیکس دیتا ہے۔

اس پر مزید ٹیکس نہیں لگائیں گے،70ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ میں لگژری اشیا شامل ہیں، مشینری پر 112 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی، فارما سیوٹیکلز پر 160ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے، ایوان میں اتنا واویلا مچایا گیا، آئی ایم ایف کے ساتھ بڑی لڑائی ہوئی، گندم، دالوں، پولٹری، ٹریکٹر، کھاد پر ٹیکس نہیں لگنے دیا، جب کہ فش، بیکری آئٹمز، چاکلیٹ، سنیکس اور پرانے کپڑوں پر ٹیکس لگے گا۔ انھوں نے کہا منی بجٹ کا مقصد پیسہ بڑھانا نہیں بلکہ ریونیو اکٹھا کرنا ہے، ہم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس پر غریب آدمی پر بوجھ پڑے ، ہم ملکی خود مختاری یا سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کررہے۔ یہ ابہام دور کرلیں کہ ہم نے اسٹیٹ بینک کو بیچ دیا ہے، بل سے انتظامی طور پرا سٹیٹ بینک کو آزادی ملے گی۔

اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو بورڈ کا تقرر حکومت کرے گی، اسٹیٹ بینک کے فیصلے نان ایگزیکٹو بورڈ کرے گا، اسٹیٹ بینک کے بورڈ کی منظوری صدر دیں گے، اسٹیٹ بینک اب پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھی جوابدہ ہوگا، ہم نے تو پارلیمنٹ کو خود مختاری دی ہے، پی ٹی آئی کے منشور میں شامل ہے کہ اداروں کو خود مختاری دی جائے۔

جن ملکوں میں مرکزی بینک خود مختار نہیں وہاں کا حال دیکھ لیں، طیب اردوان نے مرکزی بینک کو خود مختاری نہیں دی تو وہاں کا حال دیکھ لیں۔ لیکن اہل پاکستان نے طیب اردوان ترقی کو ایک محرک کی حیثیت دی، ہم نے چین سے غربت ختم کرنے کے رہنما اصول لینے کا قوم کو یقین دلایا تھا وہ خواب وخیال کہاں گئے، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے ان کو رول ماڈل بنایا تھا، ترکی کی فلم ناظرین دیکھ رہے ہیں۔

ارطغرل اور کورولوس عثمان کی تاریخی کردار نگاری کو ہماری نئی نسل تلواروں کی جھنکار میں کافروں سے ستیزہ کار دیکھ کر اپنے ماضی کو یاد کرتی ہے، مگر سوال یہ ہے یہ سب کچھ آج کے پاکستان کے عوام کے لیے ایک اقتصادی، معاشی، اور سیاسی بیک تھرو کا کام دے سکتا ہے، وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک عرصہ سے قوم کو روٹی کپڑا مکان کے خواب دکھائے گئے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ عوام کو روٹی ،کپڑا، مکان کبھی نہیں ملے گا۔

بنیادی مغالطہ حکومتی اقتصادی بے سمتی ہے، حکومت عوام کو ناسٹیلجیا اور یاد ماضی کے دھندلکوں  میں دلچسپی رکھتی ہے، مشیر خزانہ کا یہ کہنا کہ اقتصادی ثمرات عوام کو روٹی ،کپڑا، مکان کی صورت کبھی نہیں ملے، لیکن یہ تاریخ اور سیاسی ادوارکے ساتھ ایک ناانصافی ہوگی کہ اگر سیاست کو آصف زرداری، بھٹو، نواز شریف اور بینظیر بھٹو دشمنی میں پیش کیا جاتا رہے گا۔

سیاسی تاریخ مرکزیت میں موجود رہے گی۔ حکومت لاکھ معاشی حقائق کو اپنے پچھلے چار سالہ سیاسی تاریخ اور گزرے دورانیے سے الگ کرلے لیکن اقتصادی اور معاشی نظام کو اس ملک کی اشرافیہ، رئیسیت، ملوکیت اور غیر جمہوری معاشی مسیحاؤں کی ناکامیوں سے الگ نہیں کرسکے گی۔

اگر روٹی،کپڑا اور مکان کا ثمر کسی کو نہیں ملا تو موجودہ حکومت نے عوام کو کون سے جمہوری ثمرات دیے ہیں، وہ بھی گنوائیے، عوام کوکتنی اقتصادی اور معاشی آسودگی ملی ہے؟ عوام تو آج مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، انھیں کون سے نئے خواب دکھائے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم گزشتہ چار سال سے نچلے طبقات کو اوپر لانے کا اعادہ کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں افتادگان خاک مسلسل نیچے ہی جارہے ہیں۔

انھیں دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی، غریب مزدور صبح سے شام تک پھاؤڑے، کدالیں اور دیگر تعمیراتی سامان، نظروں کے سامنے رکھے کسی کے منتظر نظر آتے ہیں، لیکن انھیں وہ منصفانہ اقتصادی و معاشی نظام کہیں سے آتا نظر نہیں آتا، جو ملک کے اقتصادی اور مالیاتی معاملات کو درستی کی طرف لے جائے، ملکی اقتصادیات کی بدقسمتی یہ ہے کہ ریاستی و حکومتی سطح پرکوئی لیڈر ایسا نہیں ملا جو پاکستان کے عوام کو ایک ثمر بار معاشی پالیسی دیتا، جو لیڈر شپ آئی اس کے لبوں پر یہی شکایت تھی کہ اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، کوئی فری پالیسی نہیں ملی۔

دور نہ جائیں، موجودہ حکومت کے دور میں اقتصادی الٹ پلٹ، امن وامان کے ذمے داروں کے عہدوں کی تبدیلی اور مالیاتی معاملات کے سدھار کے لیے جو بلائے گئے ان ماہرین کو کن ناکامیوں پر عہدوں سے ہٹایا گیا۔ ملک کو جو اقتصادی بے سمتی میسر ہوئی ہے اس نے کسی شعبے میں بریک تھروکی ابتدا نہیں کی، حکومتی معاشی مسیحا درحقیقت ان دنوں مابعد الطبیعاتی علاج کی تلاش میں ہیں،کوشش کی جارہی ہے کہ دوا سے نہیں تو شاید دعا سے یہ مریض ’’سیاست و معیشت‘‘ ٹھیک ہوجائے، لیکن اب بھی ضرورت بعض سیاسی بصیرت رکھنے والے دور اندیشوں کی ہے، حکمرانوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ عارضی معاشی اقدامات سے لاعلاجی بڑھ سکتی ہے، عوام کو ایک ایسا اقتصادی اور معاشی نظام چاہیے جو ان کے مصائب اور دکھوں کا مداوا کرسکے۔

مگر ارباب اختیار یہ بھی فیصلہ نہیں کرسکے کہ علاج کس کے پاس ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں۔ مگر یہاں تو ہر دیدہ ور معاشی معالج دوسرے کو ناکام اور اناڑی کہہ کر یا آئی ایم ایف کو قصور وار قرار دے کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے، تاہم پاکستانی معیشت غربت و مہنگائی اور بیروزگاری کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے، پاکستان کے کروڑوں انسانوں میں قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ کوئی ملک سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری ختم کرنے کے لیے کوئی نظریہ، فلسفہ، خیال اور حکمت عملی قوم کو سامنے رکھنے کی ہمت نہیں کرتا، بقول شخصے ملک میں ہزاروں سیاست دان ہیں لیکن ایک بھی اہل سیاست نہیں۔

کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔