نیا سال… پرانی سوچیں!

شیریں حیدر  اتوار 2 جنوری 2022
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نیا سال آغاز ہوتا ہے، ایک دن پہلے سے ہی لوگوں نے مبارکبادیں دینا شروع کر دی تھیں کہ وہ سب سے پہلے یہ کام کر لیں۔ نئے سال کے حوالے سے سیکڑوں پیغامات موصول ہوتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پیغامات تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دسیوں لوگوں کی طرف سے آ رہے ہوتے ہیں۔ جلدی میں کوئی ان پیغامات کو پڑھتا تک نہیں اور آگے بھیج دیتا ہے۔

اسی طرح کا ایک پیغام مجھے اپنی سہیلی شہلا کی طرف سے ملا، ’’ نئے سال میں تم کلیوں اور پھولوں کی طرح مسکراؤ، جگ جگ جیو! تمہارا چچا، امیر علی‘‘ کئی ایسے پیغامات ہوتے ہیں جن میںکوئی غلطی ہوتی ہے اور وہ غلطی بھی اسی طرح کئی لوگوں تک چلی جاتی ہے۔ ’’ نیا اسلامی سال مبارک ہو! ‘‘ یہ پیغام بھی مجھے دو تین لوگوں سے موصول ہوا۔

نیا سال کیا ہے؟ اس میں کیا نیا ہے؟ ہم ہر نئے سال سے پہلے اپنے دل میں اس سال کے حوالے سے کئی سوچیں سوچتے ہیں، نئے سال میں یہ کریں گے، وہ کریں گے… مگر ہماری اپنی بنائی ہوئی  resolutions سیاستدانوں کے وعدوں کی طرح، ہمارے خود سے کیے گئے وہ وعدے ہوتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ ’’ آج ہم ایک سال کے لیے سوئیں گے!! ‘‘ ایک چھوٹا بچہ کہتا ہے تو ہمیں ایک پل میں ہمارے ماضی میں لے جاتا ہے۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سالوں سے سو رہے ہیں، جنھیں کوئی ہنگامہ جگاتا ہے نہ کوئی شور۔ کچھ کے دماغ سو رہے ہیں، کچھ کے ضمیر، کچھ سونے میںراہ فرار ڈھونڈتے ہیں، کچھ خواب دیکھنے کو سوتے ہیں اور کچھ خیالات کی یلغار سے بچنے کے لیے سوتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی، نئے سال کی resolutions  کی۔ میری اپنی نئے سال کی resolution ، گزشتہ دس سالوں سے میرے فون کے نوٹس میں لکھی ہوئی ہے، میںنے دس برس پہلے اس میں بیس چیزیں لکھی تھیں کہ میں نئے برس میںکیا کیا کرنا چاہتی ہوں۔ تب سے اب تک، میں سال کے آخری دن اس نوٹ کے اوپر، سال کا ہندسہ تبدیل کرلیتی ہوں، بیس میں سے ابھی تک کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا، جسے میںنے اپنی فہرست میں سے خارج کر دیاہو۔ ان میں سے چنداہم نکات یہ ہیں۔

… ہر ماہ ایک قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھنا ہے۔

… ہر ماہ کم از کم ایک رشتہ دار کے ہاں ایک ویک اینڈ پر قیام کرنے کے لیے جانا ہے۔

… اپنا وزن کم کرنا ہے۔

… ہر روز صبح کی سیر کرنا ہے۔

… سال میں کم از کم دس درخت لگانے ہیں۔

… اپنی الماری میں سے اپنے آدھے ملبوسات کم کرنا ہیں ۔

… خاندان کے ساتھ مل کر کوئی ایک فلاحی منصوبہ سال بھر میں ختم کرنا ہے۔

… ہر ماہ کم از کم ایک نئی کتاب پڑھنی ہے۔

… ملک کے کسی ایک تفریحی علاقے کی سیر کو جانا ہے ۔

… جو چیز گھر میں تین ماہ تک استعمال نہ ہو، اسے گھر سے فارغ کر دینا ہے، کسی ضرورت مند کو دینی ہے یا اسے بیچ دینا ہے۔

… ہر اتوار کو خاندا ن کے سب بزرگوں کو فون کال کر کے ان کی خیریت دریافت کرنا ہے۔

ہراتوار اپنے ساتھ مصروفیات کے نئے انبار لے کر آتا ہے، صبح سے لے کر شام تک کپڑے دھونے اور استری کرنے میں اتوار گزر جاتا ہے اور کسی کو ایک کال تک نہیں ہو پاتی۔

قرآن مجید پڑھنے میں ایک دن غفلت ہو جائے تو دوبارہ ٹمپو بننے میں تین چار دن اور نکل جاتے ہیں ۔ اسی طرح کتابیں شیلفوں پر رکھی، گرد میں اٹی جاتی ہیں اور ہر نیا دن گرد کی اس تہہ میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے، کھول کر دیکھنے کا وقت نہیں ملتا۔

جو چیز تین ماہ تک استعمال نہ ہو، کسی کو دینے کا ارادہ کرو تو اسی دن اس چیزکی ضرورت پڑ جاتی ہے، بیچنے کا قصد کرو تو جو قیمت ملتی ہے اس قیمت میں ایک وقت کی سبزی بھی نہیں ملتی۔ پھر بندہ سوچتا ہے کہ کیا نقصان کر رہی ہے یہ چیز ہمارے گھر میں پڑے پڑے، اب اس قیمت میں تو یہ ملنے سے رہی، سو وہ چیز واپس وہیں چلی جاتی ہے۔

اسی طرح جس الماری کو کھولو کہ اس میں سے کچھ نکال کر اس کا بوجھ ہلکا کیا جائے، انھی چیزوں سے محبت امڈ امڈ کر آتی ہے۔ فلاں چیز ابا جان نے دی تھی، فلاں امی جان نے۔ فلاں میرے بیٹے یا بیٹی کی طرف سے تحفے میں ملی تھی اور فلاں شوہر کی طرف سے ۔

اپنے ملک کے کسی ایک علاقے کی سیر کو جانا تو بہت دور کی بات… اڑوس پڑوس تک میں جانے کا وقت نہیں ملتا۔ کسی دن جو سویرے یہ سوچ لو کہ سر میں تیل لگانا ہے تو سارا دن تیل کی بوتل کچن کے کاؤنٹر پر دھری رہتی ہے، اسے لگانے کا وقت نہیں ملتا۔ بال اسے کاؤنٹر پر پڑے دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔

خاندان کے ساتھ مل کر کوئی فلاحی منصوبہ تو دور کی بات، ایک پکنک تک ترتیب دینا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔

جس دن صبح کی سیر کا قصد کرو توبارش شروع ہو جاتی ہے اور سیر کرنے کا ارادہ ملتوی ہوجاتا ہے ۔ درخت لگانا تو بڑی بات ہے، دھنیہ تک نہیں لگایا جاتا۔

جس رشتہ دار کے ہاں جانے کا قصد کرو، وہ اس سے پہلے ہمارے گھر رہنے کے لیے آجاتا ہے اور ہم اگلے ماہ کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ کسی کا آنا یا کسی کے ہاںجانا، کون سا مفت کے کام ہیں۔

سب سے اہم نکتہ جو ہر سال فہرست میں اب سے اہم ہوتا ہے، اس میں تبدیلی اس طرح آئی ہے کہ دس سال پہلے لکھا تھا کہ سال بھر میں دو کلو وزن کم کرنا ہے… دو دوکلو کر کے بڑھتے بڑھتے، اس سال میںنے لکھا ہے، سال بھر میں بیس کلو وزن کم کرنا ہے ۔

یہ چند نکات ہیں جو میری سالانہ خواہشات کی فہرست میں سال ہا سال سے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں ہیں، جن کا ذکر غیر ضروری ہے۔ اس فہرست میں سے زیادہ تر کام آسان ترین کام ہیں اور انھیں کرنے کے لیے کوئی مشقت لگتی ہے نہ رقم، مگر یہ سب کچھ پہلے ڈائریوں اور اب فون کے نوٹس میں لکھا رہ جاتا ہے۔ کیا نیا سال اور کیا نئے کام ۔

کام اسی طرح کیا جا سکتا ہے جب انسان خود سے وعدہ کرے، اپنے ساتھ کیے گئے وعدے کی پاسداری کو اہم سمجھے۔ لکھ لینے سے کام ہوتے تو دنیا میں کاغذ کی ایجاد کے بعد کسی اور ایجاد کی ضرورت ہی نہ تھی۔ میری فہرست ہی کو چیک کر لیں تو بتائیں کہ ان میں سے کتنے کاموں کو کرنے کے لیے ارادے کے علاوہ کسی بھی اور چیز کی ضرورت ہے؟ ہم سب کی فہرستیں کچھ اسی نوعیت کی ہوتی ہیں، ہر شخص کی عمر کے حساب سے اس کی خواہشات کا تعین ہوتا ہے، کسی کو تعلیم، کسی کو ملازمت، کسی کو اپنی شادی اور کسی کو بچوں کے بارے میں منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے اور وہ اسی لحاظ سے اپنی فہرستیں بناتے ہیں، لیکن اپنی فہرست پر عمل درآمد کے لیے ، نئے سال کا انتظار چہ معنی دارد۔ جس وقت سوچیں کہ کچھ کرنا ہے، بس کر ڈالیں، خواہ اس روز اپریل کی کوئی تاریخ ہو، جون کی یا اکتوبر کی۔

آپ سب کو نیاسال اور نئے سال کی resolution مبارک ہوں۔ دعاؤں کی طالب

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔