نون لیگی صفوں میں نیا جوش: چہ معنی دارد؟

تنویر قیصر شاہد  پير 3 جنوری 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

خواجہ سعد رفیق صاحب یوں نجیب الطرفین سیاستدان ہیں کہ اُن کے والد صاحب بھی لاہور کی مشہور سیاسی شخصیت رہے اور والدہ محترمہ بھی۔ خواجہ سعد کے والدین جنت مکانی ہو چکے ہیں۔ اُن کے خیالات اور سیاسی جدوجہد نے خواجہ سعد اور اُن کے برادرِ خورد، خواجہ سلمان رفیق صاحب، پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

دونوں صاحبزادگان نے زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق کے والد گرامی (خواجہ محمد رفیق)زیڈ اے بھٹو صاحب کے دَورِ حکومت کے آخری برسوں کے دوران، ایک زبردست عوامی تحریک کے ہنگاموں میں، لاہور میں شہید کر دیے گئے تھے ۔

ایک پُر اسرار بگولے کی  مانند اُٹھنے والی بھٹو مخالف تحریک ( پاکستان قومی اتحاد) نے خواجہ محمد رفیق کی شہادت کو بھٹو حکومت کے کھاتے میں ڈالا۔ خواجہ رفیق شہید کی موت کو مگر اُن کی جواں ہمت اہلیہ محترمہ، بیگم فرحت رفیق، نے رزقِ خاک نہ ہونے دیا۔ وہ پوری قوت و طاقت سے اُٹھیں اور لاہور کی مشکل سیاسی فضا اپنے حق میں ہموار کر لی ۔ بڑانام پیدا کیا اور رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہُوئیں : قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلَم ، اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔

خواجہ سعد رفیق اِنہی والدین کے جواں ہمت بیٹے ہیں۔ لاہور کے ایم اے او کالج سے ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ قومی سیاست کا حصہ بنتے چلے گئے۔ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے اور وفاقی وزارت کا لطف بھی اُٹھایا ۔

اس لطف کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور اپنے لیڈر ، میاں محمد نواز شریف، کا ساتھ کبھی نہ چھوڑا۔ جنرل صدر پرویز مشرف کے دَورِ آمریت میں بھی جیلیں کاٹیں اور جناب عمران خان کے دَورِ اقتدار میں بھی حوالہ زنداں کیے گئے۔ نواز شریف کا دامن مگر چھوڑا نہ نون لیگ سے دغاکیا۔ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ( کہ وہ رکن صوبائی اسمبلی بھی رہے ہیں اور صوبائی وزیر بھی ) قیدو قفس کی سزائیں مسکرا کر کاٹیں اور مخالفین کو حیران کر ڈالا۔

یہ نجیب الطرفین اور ہمہ وقت جواں ہمت نون لیگی سیاستدان ، خواجہ سعد رفیق، ہر سال ماہِ دسمبر کے آخری ایام میں اپنے شہید والدِ گرامی کی یاد میں ایک بڑا جلسہ نما اجتماع کرتے ہیں۔ یہ اجتماع چنگا بھلا سیاسی اکھاڑہ بن جاتا ہے۔

اِس بار بھی انھوں نے لاہور میں یہ سیاسی میلہ سجایا۔ وہاں کئی سیاستدانوں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے رنگ میں خواجہ محمد رفیق شہید کو یاد بھی کیا اور موجودہ سیاسی منظر نامے کو اپنی اپنی نظر سے دیکھا۔ برسی کے اس اجتماع میں خواجہ سعد رفیق کا خطاب نہایت جوشیلا بھی تھا اور للکارتا ہُوا بھی ۔ برسی کے اس اجتماع سے نون لیگ کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، میاں محمد شہباز شریف، نے بھی خطاب فرمایا مگر اُن کا خطاب حسبِ معمول ٹھنڈا ماٹھا تھا۔ دسمبر کے یخ بستہ اور دھند زدہ ایام کی مانند۔ اصل خطاب تو نون لیگ کے تاحیات قائد جناب نواز شریف کا تھا جنھیں ہماری ایک عدالت تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے ۔

نواز شریف سات سمندر پار بوجوہ بیٹھے بھی لاہوریوں کے دل گرما رہے تھے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف کا سیاسی کردار رفت گزشت ہو چکا ہے۔ ایک وفاقی وزیر تواتر سے دعوے کرتے سنائی دیتے ہیں کہ نوازشریف کے مقدر میں اب لندن کے فلیٹوں میں مستقل رہنا لکھ دیا گیا ہے۔ وہ کبھی پاکستان نہیں آئیں گے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر طاقت و حکومت کا لطف اُٹھانے والوں کی زبردست خواہش ہے کہ خدا کرے سزا یافتہ نواز شریف ابھی لندن سے واپس پاکستان نہ ہی آئے ۔ جونہی کوئی نون لیگی لیڈر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نواز شریف جلد ہی پاکستان میں قدم رکھنے والے ہیں، حکومتی صفوں میں ہلچل مچ جاتی ہے ۔

مثال کے طور پر: خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی کے تازہ موقع پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی ( اور مشہور نون لیگی سیاستدان) جناب ایاز صادق نے اپنی تقریر میں جونہی یہ الفاظ ادا کیے کہ ’’ لندن میں نواز شریف سے میری ملاقاتیں ہُوئی ہیں اور وہ واپس آنے کے لیے تیاری پکڑ رہے ہیں، میرا مطمئن چہرہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں‘‘ تو یہ الفاظ حکومتی حلقوں میں پریشانی کی لہر دوڑا گئے۔ اسلام آباد کے اقتداری ایوانوں میں چہ میگوئیاں بلند آہنگی سے سنائی دینے لگیں۔ ساتھ ہی مگر نون لیگی قائد کے یہ الفاظ نون لیگی حلقوں اور کارکنوں میں برق رفتاری سے ایک نیا جوش بھر گئے ہیں۔

اور جب خواجہ محمد رفیق شہید کی برسی کے اجتماع میں جونہی نواز شریف نے اپنے خطاب میں یہ الفاظ ادا کیے :’’ انشاء اللہ جَلد ہی آپ لوگوں سے پاکستان میں ملاقات ہوگی ‘‘ تو یہ الفاظ نون لیگی صفوں میں ایک نئے ولولے کا باعث بن گئے ۔ ملک بھر کے نون لیگیوں نے ان الفاظ سے ایک نئی توانائی اور طاقت کشیدکی ہے ۔

دوسری جانب نواز شریف کی واپسی کا عندیہ لیے یہ الفاظ حکومتی حلقوں پر بجلی کے کڑکے کی طرح برسے ہیں ۔ ہر اقتداری فرد سُن گن لیتا پھر رہا ہے کہ نواز شریف واقعی واپسی کا رختِ سفر باندھ رہے ہیں؟ کیا اُن کی سزاکالعدم ہونے جا رہی ہے ؟ کیا نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بن جائیں گے ؟ یہ سرگوشیاں بلند سے بلند تر ہو کر سنائی دے رہی ہیں۔ نواز شریف کی مبینہ واپسی کی خبر سے  ایوانِ وزیر اعظم اور جناب عمران خان کے لہجے میں بھی ہلچل دیکھی گئی ہے ۔ کئی حکومتی ترجمان بھی بیک زبان پھر بولے ہیں کہ ’’نون لیگ نواز شریف کی واپسی کے خواب دیکھنا بند کر دے۔‘‘

اگر یہ مبینہ الفاظ حقیقت پر مبنی ہیں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی کن لوگوں، گروہوں اور پارٹیوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے؟ دیکھا جائے تو نواز شریف کا لندن میں طُول پکڑتا قیام اُن کی سیاست کے لیے سخت نقصان دِہ ثابت ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ملکی حالات ایسی نہج پر جا چکے ہیں کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی نون لیگ اور خود نواز شریف کی ذات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ اگرچہ اس فیصلے کے عقب میں بڑے خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔ ان خطرات کا سامنا کرنے ہی میں سیاسی مردانگی ہے۔

نواز شریف واپس آکر بہت سے سیاسی دھونے دھو سکتے ہیں۔ اُن کی واپسی کی خبریں نون لیگی کارکنوں کے لیے ایک بڑی نوید سے کم نہیں ہیں۔ پہلے تونواز شریف اپنی واپسی کے بارے میں لب کشائی سے ہمیشہ گریزاں ہی رہتے تھے۔ اب وہ اس ضمن میں صاف اسلوب میں بولے ہیں تو اس میں ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ اس بارے کوئی حتمی تاریخ تو نہیں دی گئی ہے لیکن نون لیگ کے سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے ان الفاظ میں کوئی تو معنویت ہے: ’’ مَیں جَلد دوبارہ لندن جا رہا ہُوں۔

اِس بار واپسی پر نواز شریف ساتھ ہوں گے۔‘‘ نون لیگ کے مخالفوں کی جانب سے یہ بھی تو کہا جارہا ہے کہ چونکہ برطانوی حکومت نواز شریف کے ویزے کی مدت بڑھانے سے انکاری ہے اور نواز شریف کا پاسپورٹ بھی ختم ہو چکا ہے، اس لیے مجبوراً نواز شریف وطن واپسی کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ حقیقت جو بھی ہے ، 2022کے نئے سال میں نون لیگیوں کا جوش قابلِ دید ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔