پالیسی سے زیادہ سنجیدگی ضروری ہے

وسعت اللہ خان  منگل 4 جنوری 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

دسمبر کے آخری ہفتے میں وفاقی کابینہ نے پنج سالہ قومی سیکیورٹی پالیسی کی منظوری دے دی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ملکی تاریخ کی پہلی مربوط باضابطہ سیکیورٹی پالیسی ہے جس میں پاکستان کو درپیش خارجی و داخلی چیلنجز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مسلح افواج ، سیکیورٹی ایجنسیوں ، متعلقہ سویلین اداروں ، وزارتوں اور چھ سو سے زائد ماہرین سے صلاح مشورے کے بعد یہ پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔ پالیسی مسودہ نومبر میں پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بھی رکھا گیا مگر حزبِ اختلاف نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

پالیسی پر عمل درآمد کی نگرانی مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف کو سونپی گئی ہے جو ہر ماہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو اس بابت پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔

یہ سیکیورٹی پالیسی ریاست کی دفاعی ، سفارتی اور معاشی پالیسیوں کو رہنما خطوط فراہم کرے گی۔

گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے سیکیورٹی ڈائیلاگ میں ایک نئی اصطلاح سننے میں آئی ’’ جئیو اکنامکس‘‘۔یعنی تمام داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا بنیادی ہدف قومی معاشی استحکام کا حصول ہونا چاہیے۔

نئی سیکیورٹی پالیسی سے لگتا ہے کہ پہلی بار پاکستانی ریاست ’’ سیکیورٹی اسٹیٹ ‘‘ کے نظریے سے باہر نکل کے ’’ ویلفیئر اسٹیٹ ڈاکٹرائین ‘‘ اپنانے کے لیے کوشاں ہیں۔یعنی ’’ پہلے دفاع پھر معیشت ‘‘ کی سوچ کی جگہ ’’معاشی قوت بطور دفاع ‘‘ کی سوچ پالیسی حدود میں داخل ہو رہی ہے۔اگر یہ درست ہے تو سالِ گزشتہ کی سب سے اچھی ، سب سے اہم گیم چینجر خبر ہے۔

نئی سیکیورٹی پالیسی میں معیشت، پانی ، خوراک، سرحدی دفاع ، دھشت گردی ، آبادی میں اضافے کے مسائل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔پاکستان کو نئے بین الاقوامی نظام کی تشکیلی اتھل پتھل میں ملوث کرنے کے بجائے معاشی سفارت کاری کو ترجیح دینے کی بات کی گئی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک عام پاکستانی جب اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بعد خود کو محفوظ و مامون تصور کرے گا تو وہی اس پالیسی کی پائیداری کا بھی ضامن ہوگا۔

باتیں تو بہت اچھی ہیں۔مگر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کیسے ، کب اور کہاں سے شروع ہوگا۔اگر ہم سیکیورٹی اسٹیٹ کی عینک سے دیکھیں تو پاکستان اس وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ ایک جانب بھارت امریکا گٹھ جوڑ ہے۔اس گٹھ جوڑ میں امریکا کا ہدف چین اور بھارت کا پہلا ہدف پاکستان اور پھر چین ہے۔

افغان بارڈر بے یقینی کی دھند میں پھنسا ہوا ہے۔افغان معیشت کس قدر ابتر یا بہتر ہوتی ہے اور اس کے سبب پاکستان کے کم ازکم دو صوبوں پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں اور سرحد پار موجود کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے سدِباب کے تعلق سے طالبانی کابل اور اسلام آباد کے مابین ہم آہنگی بڑھتی ہے یا دوریوں کی خلیج اور گہری ہوتی ہے۔ بلوچستان میں جاری بے چینی سی پیک پر کب تک اثرانداز رہتی ہے۔

ایران بمقابلہ خلیجی ممالک و اسرائیل اور امریکا کی سیاست کیا کروٹ لیتی ہے۔یہ سب سنجیدہ خارجی سیکیورٹی چیلنج ہیں۔ ان سے نمٹتے نمٹتے ایک عمر گذر گئی اور قومی آمدنی و قرضوں کا ایک بڑا حصہ اس نمٹاؤ پر آیندہ بھی مسلسل صرف ہو سکتا ہے۔پچھلے چوہتر برس میں سیکیورٹی اسٹیٹ ڈاکٹرائین عملاً اپنانے کے باوجود کوئی بنیادی خارجہ چیلنج کم نہیں ہوا بلکہ تعداد ، شدت اور پیچیدگی بڑھتی ہی چلی گئی۔

اب اگر جئیو اکنامکس کی عینک سے پاکستانی سیکیورٹی ضروریات کو دیکھا جائے تو ہمارا جغرافیہ ٹریلین ڈالرز معیشت والے ہمسائیوں کے درمیان اس گھنٹہ گھر کی طرح ہے جہاں سے ہر سڑک ہو کر گذرتی ہے۔اگر وسطی ایشیا کی ریاستوں ، افغانستان اور ایران کو بھارت سے یا بھارت کو ان ممالک سے سستی اور تیز رفتار تجارت کرنی ہے تو اس کے لیے اولین شرط بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی نہ بھی ہو تب بھی ورکنگ ریلیشن شپ ضروری ہے۔ جیسے چین اور بھارت کی سرحدی ، عسکری اور علاقائی کشیدگی کے باوجود معاشی تعلقات کو اس گرم دائرے سے دونوں نے باہر رکھا ہوا ہے۔

اگر کسی سفارتی معجزے کے سبب پاک بھارت ورکنگ ریلیشن شپ چند برس پہلے کی طرح بہتر ہوجائے تو خطے کی مجموعی معیشت کے گھوڑے کو ایڑ لگ سکتی ہے اور خطے میں پاکستان کا اپنا سیاسی و سفارتی وزن سودے بازی کے بازار میں چوگنا ہو سکتاہے۔ ویسے بھی پاکستان تسلیم کر رہا ہے کہ مضبوط معیشت سے بہتر دفاع دنیا کا کوئی اسلحہ نہیں کر سکتا۔مگر مودی انڈیا کسی اور گمان ہے۔

جئیو اکنامکس کے راستے میں ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین چھڑنے والی سرد جنگ میں پاکستان اپنے مفادات کو دوستی و دشمنی کے رسے پر کس طرح متوازن رکھتے ہوئے چل سکتا ہے۔ اگر چین اور امریکا کی گلوبل، جیو اسٹرٹیجک اور معاشی کشیدگی اگلے دس برس میں اس نہج پر جا پہنچتی ہے کہ یا تو آپ مکمل طور پر اس پلڑے میں ہیں یا پھر مخالف پلڑے میں تو کیا ہو گا ؟

فرض کریں مستقبلِ قریب میں بھارت سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال ہو جاتی ہے۔افغانستان میں نسبتاً استحکام آ جاتا ہے۔ایران اور خلیجی ریاستوں اور امریکا کے تعلقات میں گرمی کم ہو جاتی ہے اور پاکستان اپنے جئیو اکنامکس ڈاکٹرائین کی روشنی میں خطے کو جوڑنے والا معاشی کاریڈور بن جاتا ہے تو نئی صورتِ حال سے پاکستان کتنا منافع کما سکتا ہے۔

معاشی کاریڈور بننے کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ امن و امان پوری طرح ریاست کے کنٹرول میں ہو۔دھشت گردی کی جانب راغب کرنے والی انتہا پسند سوچ کا بخار اعتدال پر لایا جا سکے۔ صنعت کاری ، زرعی ڈھانچے کی جدید استواری ، ہنرمند افرادی قوت کی تیاری کے لیے تعلیمی انقلاب اور صحت کی سہولتوں کو ترجیحاتی فہرست میں شامل کرنے اور ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے قومی آمدنی کا کم ازکم ستر فیصد وقف کیا جانا نہ صرف لازمی ہے بلکہ یہ پالیسی اتنی پائدار ہو کہ کوئی بھی حکومت اسے تبدیل نہ کر سکے۔

آخری اہم بات یہ ہے کہ نئے کاغذ پر قومی سلامتی کا جو خواب ناک نقشہ بنا ہے اس میں رنگ بھرنے کے لیے ہر طبقے، ادارے اور قومی سیاسی قیادت کو اپنے مفادات اور ذہن کا قبلہ بدلنا پڑے گا۔کچھ پانے کے لیے بہت سی ذاتی مراعات و رعایات سے قومی معاشی تحفظاتی مفاد کی خاطر دستبردار ہونا پڑے گا۔کرپشن کو بھارت اور دھشت گردی سے بھی بڑا دشمن سمجھ کر نپٹنا ہوگا۔اور یہ سوچنا ہوگا کہ ایک طبقے، ادارے یا فرد کی اپنے اضافی مفاد سے دستبرداری کا انعام مجموعی قومی افزائش اور استحکام کی شکل میں چند دہائیوں میں منافع کے ساتھ واپس مل جائے گا۔

کیا یہ سب ہونا ممکن ہے۔ضرور ممکن ہے اگر سب درست نمبر کی عینک پہن کر سامنے پڑے کھلے میدان کو دیکھنے پر راضی ہوں۔ورنہ تو موتیا بڑھ ہی رہا ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔