محنت کش؛ نئے سماج کی تلاش میں

زبیر رحمٰن  جمعرات 6 جنوری 2022
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

حال ہی میں میرے ہاتھ لگی ایک کتاب جس کا نام ’’ بلوچ نئی زندگی کی تلاش میں‘‘ ہے اس کے مصنف عیسیٰ خان بلوچ ہیں۔ میں نے یہ کتاب بڑے غور سے پڑھی۔

مصنف نے جس تاریخی پس منظر میں اور طبقاتی تضادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کتاب لکھی اور ناقابل دید حوالے دیے ہیں وہ قابل رشک ہیں۔ راقم کے علم و معلومات میں انھوں نے بلوچ محنت کشوں کے بارے میں نہ صرف روشناس کرایا بلکہ بلوچوں کی روایات، عادات، رسم و رواج، خودداری اور خود انحصاری کے معاملات میں میرے علم میں اضافہ کیا۔

عیسیٰ خان بلوچ نے بلوچوں کے تاریخی پس منظر کے علاوہ مکرانی (بلوچ) محنت کشوں اور لیاری کی طبقاتی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔ مصنف صفحہ79 کے تیسرے پیراگراف میں رقم طراز ہیں کہ مشرقی بلوچستان میں 19 ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کی شروعات میں مکران کے لوگ گچکی سرداروں کی زیادتیوں کا شکار ہوئے تھے۔ ستم ظریفی یہ کہ خان آف قلات کی جانب سے ان پر بھاری مالیہ کی جبریہ وصولی نے عوام کے مالی حالات خراب کر دیے۔

اس جبر کے خلاف بزگر(کسان) خانہ بدوش اور چرواہوں نے سرداروں کے خلاف بغاوت کردی۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ دو کسان دوست سردار میر محراب خان گچکی اور بلوچ خان نوشیروان نے عوام کا ساتھ دیا۔ 1898 میں وطن دوستوں اور انگریز سرکار کے درمیان خون ریز جنگ ہوئی جسے ’’جنگ گوگ پروش‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں دو سو بلوچ محنت کش اور دو سردار شہید ہوئے۔ یہ سردار جو استحصال کرنے والے طبقے کے تھے عوام کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو کر بلوچستان کے سراج الدولہ اور تیتو میرکا رتبہ حاصل کرلیا۔

مصنف صفحہ 94 میں لکھتے ہیں کہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ہر چار سال کے بعد قحط (ڈکال) پڑتا ہے۔ جسے بنگالی آکال کہتے ہیں۔ قحط کے زمانے میں یہاں کے عوام درخت کی چھال اور پتے کھایا کرتے تھے اور جوہڑ کا پانی پیتے تھے۔ وہ اس زمانے میں ٹڈی دل کو پکڑ کر ابال کر سکھا کر رکھ دیتے اور قحط میں کھاتے تھے۔ صفحہ 95 میں مصنف کہتے ہیں کہ بے روزگاری اور قحط کی وجہ سے مکران (بلوچستان) سے بڑی تعداد میں لوگوں نے کراچی اور اندرون سندھ میں نقل مکانی کی۔ حاکم اور سردار سخت گیر تھے۔ قحط کی وجہ سے جو کسان نقل مکانی کرتے تھے انھیں سردار روکتے تھے۔

چونکہ کسان نخلستان میں کھجور کے باغ میں رہتے تھے اور سردار دور ہوتے تھے اس لیے کسانوں کو نقل مکانی کا موقع مل جاتا اکثر حاکم اور سردار ان کا پیچھا کرتے ہوئے گوادر، چابہار اور جاسک کی بندرگاہوں تک جاتے تھے، خشکی کے راستوں سے بھی پیچھا کیا جاتا تھا۔ ایک حاکم خاندان کی بے رحم خاتون اپنے غلاموں اور کنیزوں کو واپس لے جانے کے لیے کراچی لیاری تک پہنچ گئیں۔ یہاں کی حالت سے بے خبر اس خاتون کا حشر ان کی رعیت کی عورتوں نے کیا وہ لکھنے کے قابل نہیں ہے۔

اس کتاب میں مزدوروں کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 1973 میں مزدوروں کی پہلی ٹریڈ یونین تھرپارکرکاٹن جننگ فیکٹری یونین کے نام سے رجسٹرڈ ہوئی۔ دیہی سندھ میں مزدوری کے غرض سے آنے والے تمام مزدوروں کے روزگار عارضی نوعیت کے رہے ہیں۔ سیزنل (موسمی) کام میں مزدوروں کی حیثیت ایک بنجارے جیسی ہوتی ہے۔

آج ادھر تو کل ادھر۔ اس طرح کے کام میں ہر سال ٹھکانے بدلتے  تھے، جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت نہیں ہو سکی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جن قبیلوں کے افراد زیادہ ہوتے ہیں ان میں معتدل بزرگ فرد کو جمعدار اور ٹھیکیدار مقررکیا جاتا تھا جو انصاف پر مبنی فیصلے کرتے تھے۔ مگر آج کل جمعدار اور ٹھیکیدار محنت کشوں کے دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کا طبقہ بھی امیر اور استحصالی ہو چکا ہے۔ عیسیٰ بلوچ تنقیدی نقطہ نگاہ سے بھی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ قحط نقل مکانی کا سبب رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کے حالات میں وطن چھوڑ کر جانا بلوچ روایات اور بلوچی شان کے خلاف ہے، وہ نفسیاتی طور پر شاید سوچ رکھتے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے، آج نہیں تو کل ان کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ جنگی حالات بھی نقل مکانی کی وجوہات میں شامل رہے ہیں۔

سندھ میں دوسری مردم شماری انگریزوں نے 1856 میں کرائی جس کے مطابق سندھ کی آبادی میں پانچ سال کے دوران 80 فیصد کا اضافہ ہوا۔ 1856 کی مردم شماری کے مطابق سندھ کی آبادی 17,72,367 اور کراچی کی آبادی48,421 ہوگئی تھی۔ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی باہر سے آ رہی ہے۔

لیاری اور ملیر کے علاوہ آج بھی کراچی کے گرد تمام مضافات میں بلوچوں کے گوٹھ موجود ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان میں ہجرت کرنے والوں کے ذہن میں یہ بات گھر کر چکی تھی کہ ملک ان کے لیے بنایا گیا ہے، وہ حکمران ہیں۔ وہ اس سرزمین کے فاتح ہیں۔ فاتحین کی نظر میں مفتوح لوگوں کا ہر سماجی عمل جہالت سے تعبیر ہوتا ہے۔ کراچی کے دیگر لسانی گروہوں میں کم علمی کے باعث کئی شہروں تک لوگوں کے ذہن میں یہ بات گھر کرچکی تھی کہ مکرانی (بلوچ) ایک انسانی برادری ہے جو جھگڑالو، اکھڑ مزاج، ناسمجھ ہے اور ہر بات پر جھگڑا ان کی فطرت کا حصہ ہے وہ لوگوں کو سر سے ٹکر مار کر لہو لہان کرکے زخمی کردیتے ہیں۔

ذاتی نوعیت کے چھوٹے سے مارپیٹ کے واقعات میں سب مل کر مخالفین پر حملہ کردیتے ہیں یعنی ہر قسم کی غنڈہ گردی کو مکرانی (بلوچ) کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ہاں مگر بلوچوں میں بورژوا (صاحب جائیداد) طبقہ بھی پیدا ہوا جو ماضی میں جمعدار اور ٹھیکیدار تھے، اب بھلائی کی بجائے استحصال کرنے والا طبقہ بن گیا۔

انھوں نے کراچی میں ناقابل کاشت زمین خریدی اور حکمران طبقات کا حصہ بن گئے۔ ویسے دنیا کے ہر خطے اور علاقے میں محنت کش اور صاحب جائیداد کے مابین دنیا تقسیم ہے۔ لیکن بہت سے علاقے دہرے استحصال کا شکار ہیں۔ اسی طرح بلوچ اور بلوچستان بھی۔ اب حکومت کا یہ فرض ہے کہ ان بلوچ نوجوانوں جو پہاڑوں پر چلے گئے ہیں اور استحصال کرنے والے طبقات سے لڑ رہے ہیں ان سے مذاکرات کریں اور ان کے مطالبات تسلیم کریں۔ لاپتا افراد کی بازیابی عمل میں لائیں۔ورنہ یہ طبقاتی لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایک غیر طبقاتی بلوچ انارکسٹ خطہ تشکیل نہیں پاجاتا۔ بلوچ پیداواری قوتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں میں ملک بھر کے محنت کشوں کو شامل ہو جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔