کرنے سے نہ کرنا اچھا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعـء 7 جنوری 2022
barq@email.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ کسی کوکیچڑمیں پڑاہوا ایک ’’لعل‘‘ مل گیا جیسا ہمیں ’’کرکٹ‘‘میں مل گیا تھالیکن وہ شخص ہمارے جیسا ذہین وفطین اورگوہرشناس نہیں تھا اس لیے اس نے بہتے دریا میں اس لعل کودھونا چاہاتو لعل اس کے ہاتھ سے گر کرعدم پتہ ہوگیا،بیچارا اس صدمے سے پاگل ہوگیا اورمسلسل یہ ورد کرنے لگا کہ دھونے سے نہ دھونا بہترتھا، دھونے سے نہ دھونا بہترہے۔

کسی اورکاتوپتہ نہیں لیکن پاکستانیوں نے یہ بات سن کر گانٹھ باندھ لی ہے اورجوبھی ’’لعل‘‘ ان کے ہاتھ لگتاہے بغیر دھوئے ہی استعمال کرنے لگتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ

یارب ایں شاہ وش وماہ رخ وزہرہ جبیں

دریکتائے کہ وہ گوہریک دانہ کست

خیر ان لعل ہائے شب چراغ کو رہنے دیجیے جو ہمیں کوڑے کرکٹ یاکیچڑ یادھرنوں میں مل جاتے ہیں، بات ’’دھونے نہ دھونے‘‘کی کرتے ہیں بلکہ ہمارے لیے آج کل کرنے نہ کرنے اوردھرنے نہ دھرنے کی بات سمجھ لیجیے۔اگر آپ تاریخ جغرافیہ ،جنرل نالج،معاشرتی علوم اورمطالعہ پاکستان سب میں ڈھونڈیں توہرجگہ آپ کوجوبھی ’’کرنا‘‘ملے گا، آپ اسے دیکھ کر بے اختیارکہہ اٹھیں گے کہ ’’کرنے‘‘ سے نہ کرنابہتر تھا۔پاکستان کی تاریخ پرنظر ڈالیے جو تاریخ سے زیادہ’’تاریک‘‘ کہلانے کی مستحق ہے بلکہ پشتو لفظ تریخ(کڑوا) ساتھ ملا کر ’’تریخ تاریخ‘‘ بھی کہی جاسکتی ہے جو جہاں جہاں کسی ’’کرنے والے‘‘ نے جوبھی ’’کرنا‘‘کیاہے اس سے ’’نہ کرنا‘‘زیادہ بہتر تھابلکہ ’’کرنے‘‘کی جدید اورڈویلپ شکل دھرنے سے بھی نہ دھرنا ہزار گنا زیادہ بہتر نظرآجائے گا۔

ہم پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا

ہم یونہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہمارے پاس اس بات کے مضبوط،ٹھوس اورموٹے موٹے دلائل وشواہد بھی ہیں،کم ازکم وزیروں، مشیروں اورمعاونوں سے تو زیادہ ’’موٹے‘‘ ہیں،مثلاً اگرتیمورلنگ اس کم بخت چیونٹی سے ’’سبق‘‘نہ لیتاجو اس کے سامنے دیوارپر اترنے چڑھنے کے کرتب دکھارہی تھی توہزاروں لوگوں کی قضانہ آتی۔ اگرشہنشاہ جہانگیرایک فرنگی کونورجہاں کاعلاج کرنے کی خوشی میں ساحل بنگال پرتجارتی کوٹھی عطا نہ کرتاتوانگریزجو خودکرگئے، وہ ایک طرف کردیجیے ان کے دیسی انڈے چوزے نہ بنتے اوراب مرغ بن کر اودھم نہ مچاتے۔

اگرپاکستان والے ’’وہ‘‘نہ کرتے جو ہمیشہ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی ’’وہ‘‘ نہ ہوتا جوہمیشہ ان کے ساتھ ہوتاتھا ۔ہوتاہے اورہوتارہے گا۔

پڑوسی ملک کاایک مذہبی اداکارہے، نام تو رام دیوہے لیکن ’’کام‘‘کام دیوکاکرتاہے ’’ مذہبی اداکار‘‘ کی اصطلاح سے شاید آپ چونک گئے ہوں، اس لیے آپ کے چوںکہ چنانچہ سے پہلے بتادیں کہ آج کل یہ پیشہ یاآرٹ یاہنر ہرجگہ زوروں پر ہے، ہمارے ہاں بھی ایسے اداکارپائے جاتے ہیں جو آسکرٹائپ کی اداکاری کرتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ امریکی ان کو آسکرایوارڈکے لیے نامزد نہیں کرتے ورنہ ’’لیاقت‘‘ان میں بیسارہے ۔خیرتووہ بابا اگر کہتاہے ’’یوگا سے ہوگا‘‘ اورہم اس کے مقابل یہ قول لانچ کررہے ہیں کہ’’ جو بھی ہوگا نہ کرنے سے ہوگا‘‘ یہ سارا فساد ہی ’’کرنے‘‘ کی کوکھ سے جنم لیتاہے۔

اورہمارے پاس تو ’’کرنے‘‘ سے پیداہونے والے اتنے ’’نہ کرنے‘‘ ہیں کہ پورے بہترسال کے لمحے لمحے پرپھیلے ہوئے ہیں،آپ اگر اپنی سوچ کوتھوڑی سی زحمت دیں اورگزشتہ بہترسال پر نظر ڈالیں بلکہ بہترسال کے کرنے والوں کے ’’کرنوں‘‘پر نظرڈالیں توصاف دکھائی دے گا کہ کاش کرنے والے یہ کرنے نہ کرتے بلکہ کرنے والے ہی نہ ہوتے تونہ ہوتابانس اورنہ بجتے یہ کرنے۔

ہرہرحکومت یعنی کرنے والوں کے کرنوں کاپوراپورا حساب توشاید کوئی کمپیوٹرہی لگا پائے لیکن موٹے موٹے کرنوں کاسرسری ساذکر کرسکتے ۔

پہلا ’’کرنا‘‘تواس آپریشن کی شکل میں ہوا جس کا نام آپریشن…’’شکرہے پاکستان بچ گیا‘‘رکھاگیا ہے۔ اس آپریشن میں اس کاوہ بازوکاٹ کرپھینک دیا گیا جو کرنے والوں کے کہنے کے مطابق سڑاہوا تھا اور پاکستان کے وجود پربوجھ تھا،ہرروزسیلاب آتے تھے، تباہی مچتی تھی اوربیچارے پاکستان کواپناپیٹ کاٹ کر اسے پالنا پڑرہاتھا اورآخر ’’نہ کرنا‘‘کردیاگیا،پاکستان بچ گیا۔

انگریزوں کی لوٹ مارکے بعد یہ فضول خرچہ بھی بچ گیالیکن پھرنہ جانے کیاہوگیا، یقیناًاس میں اس بیرونی ہاتھ کاہاتھ ہے کہ وہ سڑاہوابیکار اورسراسر بوجھ بازونہ صرف زندہ ہوگیابلکہ سنا ہے کہ آس پاس کے تمام بازووں سے زیادہ طاقتوربھی ہوگیاہے ،یہ پہلے لوہے کابنا اورآج کل سناہے چاندی کاہے اورکچھ ہی عرصے میں شاید سونے کابھی ہوجائے۔

آپ اگر وجہ ڈھونڈیںتو وہی کرنا نہ کرنانکلے گی، زیادہ تفصیل میں توہم نہیں جائیں گے لیکن اگرکوئی ڈھونڈنا چاہے تو جاپان میں مل سکتی ہے کیوں کہ دونوں ممالک میں کرنے نہ کرنے کاسلسلہ یکساں ہے۔ دونوں ہی نے وہ کرناچھوڑدیاجو تمام کرنوں کوہڑپ کر جاتاہے لیکن اس روشن مثال کے بعد پاکستان والوں نے ’’کرنا‘‘ نہیں چھوڑا ہے بلکہ کچھ اوربڑھادیا ہے۔ موجودہ دورمیں توکرنے والوں کرنوں کا وہ عالم ہے کہ ہرصبح کرناہرشام کرنا، ہمارا توہے کام کرنا۔

ہرصبح اخباروں میں کوئی ’’کرنے والا‘‘ کوئی نہ کوئی نیاکرنا لے کرہاکروں کی طرح چلاتاپھرتاہے،کرنالے لو،کرنالے لو۔اس سے بڑاکرنااورکیاہوگا کہ سعودی عرب سے پوری ریاست مدینہ کھینچ کرلے آئے ہیں ۔

کبھی کبھی توہم ’’اربوں‘‘کے کرنے دیکھ کربلکہ سن کرحیران ہ جاتے ہیں کہ آخر یہ اتنے اتنے ارب، اورایسے ایسے ارب آئیں گے کہاں سے یا آچکے ہیں تو کہاں ہیں۔کاش کوئی ان سے کہہ دے کہ ۔

یہ جہاں آب وگل ہے یہی کائنات دل ہے

کبھی اس طرف بھی آجا ’’مہ وکہکشاں‘‘ سے چل کے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔