صوبہ سندھ میں نئے تضادات

سندھ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر کچھ اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے ہیں مگر اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوگا


Dr Tauseef Ahmed Khan January 22, 2022
[email protected]

CANBERRA: پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت 20 دسمبر 1971 کو قائم ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرکا عہدہ سنبھال لیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں اکثریت کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا ، ان میں سے بیشتر جوان تھے۔

یوں ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ عام آدمی کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کا عمل شروع ہوا۔ نئی حکومت نے امریکی سامراجی معاہدہ سیٹو اور سینٹو سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ ہوجی منھ کی قیادت میں ویت نام کی عوامی حکومت کو تسلیم کیا گیا۔

چین، سوویت یونین، کیوبا اور شمالی کوریا سے تعلقات کے دور کا آغاز ہوا۔ پاکستان غیر جانبدار ممالک کی تحریک کا حصہ بنا۔ نئی حکومت نے جنوری 1972 میں بینکوں اور بنیادی صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا، یوں قومی صنعتوں سے حاصل ہونے والا منافع عوام پر خرچ ہونے کا راستہ ہموار ہوا۔

ریاست نے تعلیم کو شہری کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کیا۔ حکومت کے تمام تعلیمی اداروں کو قومیا لیا گیا ، اسکولوں میں طلبہ کی فیس معاف کردی گئی۔ پرائمری اسکول کے اساتذہ سمیت یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے گریڈ 21 تک ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ختم کردی گئیں۔ کالج اور یونیورسٹی اساتذہ کا کم از کم گریڈ 17مقررکیا گیا جو سپیریئر سروس کا ابتدائی گریڈ تھا۔ نصابی کتابوں کی قلت کو دورکرنے کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن قائم کی گئی اور تمام علوم کے بارے میں دنیا بھر میں انگریزی میں شایع ہونے والی کتابوں کے بغیر رائلٹی ملک میں اشاعت کے لیے قانونی تقاضہ پورے کیے گئے۔

بے روزگار گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کے لیے نیشنل والنٹیئر پروگرام شروع ہوا۔ حکومت نے ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جنرک اسکیم نافذ کی، یوں دنیا بھرکی طرح پاکستان میں فارمولہ کے تحت ادویات تیار ہونے لگیں۔ مزدوروں کے حالات کار کے تحفظ کے لیے لیبر پالیسی نافذ ہوئی۔ صحت، مزدور تنظیموں کی CBM کی قومیائے ہوئے اداروں کے مینیجمنٹ بورڈ میں نمایندگی دی گئی۔ سوشل سیکیورٹی کا ادارہ قائم ہوا۔ اسی طرح پہلی دفعہ جامع زرعی اصلاحات کی گئیں۔

کسان رہنما شیخ محمد رشید کو لینڈ ڈسٹری بیوشن کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کو عدالتی اختیارات حاصل تھے۔ شیخ رشید نے پنجاب اور سندھ کے کئی سرداروں کی ناجائز قبضہ کی ہوئی زرعی زمین کسانوں میں تقسیم کی تھی۔

سابق صدر جنرل یحییٰ خان نے اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں عوامی لیگ کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔نئے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے یہ پابندی ختم کی۔ نئی حکومت نے نیپ سے معاہدہ کیا۔ بلوچستان میں نیپ کے رہنما غوث بخش بزنجو اور سرحد میں ارباب خلیل کو گورنر مقررکیا گیا۔

بلوچستان میں سردار عطاء اﷲ مینگل اور سرحد میں جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی گروپوں کے نمایندوں پر مشتمل آئین کی تیاری کی کمیٹی قائم ہوئی۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو ، اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ گئے تو تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے انھیں رخصت کیا اور مسلسل اعتماد کا اظہارکیا، یوں تاریخی معاہدہ شملہ ہوا۔ خان عبد القیوم خان اچانک وزیر داخلہ مقرر ہوئے اور ٹکا خان کو کمانڈر انچیف مقررکیا گیا۔

حکومت نے مزدوروں کے مطالبات ماننے کے بجائے پہلے سائٹ اور پھر لانڈھی میں مزدوروں پر فائرنگ کی۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی اخبارات پر عائد پابندیاں ختم کردی تھیں۔ نیوز پرنٹ کی قلت دورکرنے کے لیے پولینڈ سے کاغذ درآمد کیا گیا تھا اور 1970 کی ہڑتال میں برطرف ہونے والے صحافیوں کو بحال کردیا تھا مگر حکومت کی پالیسی اچانک تبدیل ہوگئی۔ بائیں بازوکے صحافی حسین نقی، الطاف حسین قریشی سمیت دیگر کو خصوصی عدالت نے قید اور جرمانوں کی سزائیں سنائیں۔ کمیونسٹ رہنما جام ساقی کو عدالت نے ایک سال کی سزا دی۔

پریس ایڈوائس کے ذریعہ اخبارات کی پالیسی کوکنٹرول کیا جانے لگا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے سندھی کو صوبہ کی زبان بنانے کا بل پیش کیا۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے لسانی تحریک شروع کی۔ وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو کی حکومت نے طاقت کا استعمال کیا ، اخبارات پر سنسر لگادیا گیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت توڑ دی اور پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان، رسول بخش تالپور اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس قائم کیا گیا۔ ملک میں شہری آزادیوں پر مکمل پابندی لگادی گئی جب کہ جلوس کرنے والے کارکنوں کو ڈیفنس پاکستان رولز DPR کے تحت مہینوں نظربند کیا جانے لگا۔

بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا۔ پنجاب میں حکومت کے مخالف کو آزاد کشمیر کے دلائی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مزدور یونین وغیرہ حکومت کے خلاف متحد ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اہلکاروں نے 1977کے انتخابات سے فائدہ اٹھایا اور انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی۔ کراچی ، حیدرآباد ، ملتان اور لاہور تحریک کا مرکز بن گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو متنازعہ عدالتی فیصلہ کے تحت پھانسی دیدی گئی جس کو قانون دانوں نے عدالتی قتل کا نام دیا۔

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو 2007 میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے کراچی پہنچیں، لاکھوں افراد نے ان کے خیر مقدمی جلوس میں شرکت کی۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 2008 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور ایک نیا دور شروع ہوا۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختارکیا گیا۔ خواتین کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نئی مفاہمتی پالیسی کا آغازکیا۔ مسلم لیگ ن ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اتحادی بن گئیں۔

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں مفاہمت نہ چل سکی۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین کو خیال آیا کہ نچلی سطح کا بلدیاتی نظام جس کا وعدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1988 کے منشور میں کیا تھا ان کے مفادات کے خلاف ہے، یوں بلدیاتی اداروں کی خود مختاری کو ختم کیا گیا۔

سندھ میں ملازمتیں بکنے لگیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم کردی گئی۔ کراچی کے مختلف اضلاع میں گریڈ 1سے گریڈ 15 تک کی آسامیاں اندرون سندھ منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کونسلر کی حیثیت ختم ہوئی، یونین کونسل کو کمشنر آفس سے کنٹرول کیا جانے لگا۔ ہر محکمہ میں جونیئر افسروں کو سینئر اسامیوں پر تعینات کرنے کی ایک نئی روایت شروع ہوئی۔

سندھ حکومت نے سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر کچھ اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے ہیں مگر اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوگا ، اگر پارلیمنٹ میں ترمیم کرکے نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو نافذ کردیا گیا تو پھر 18ویں ترمیم بھی چیلنج ہوجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔