لفظ وزیر کا مطلب

سعد اللہ جان برق  منگل 25 جنوری 2022
barq@email.com

[email protected]

لفظ’’وزیر‘‘ کے سلسلے میں اور بھی بہت سارے معاملات بلکہ تحقیقی پراجیکٹ ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے مثلاً کہ پاکستان میں زیادہ ’’وزیر‘‘ ہیں یا وزیرستان میں، دوسرا یہ کہ ’’وزیروں‘‘کا مصرف کیا ہے کیونکہ جہاں تک تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے تو اگلے زمانوں میں ’’وزیر‘‘ہوتے ہی نہیں تھے یا اگر کوئی بادشاہ دل لگی یا قصے کہانی کے لیے رکھتا تھا تو صرف ایک ہی وزیر رکھ لیتا تھا اور اسی سے سارے گفتنی وناگفتنی کاکام لیتا تھا اور ریاست مدینہ کے بارے میں تو وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ اس میں سب کچھ تھا لیکن وزیر کوئی نہیں تھا بلکہ کوئی ’’ناپسندیدہ‘‘چیز نہیں ہوتی تھی۔

سائرس کا کوئی بھی وزیر نہیں تھا اس طرح سکندر، چنگیز، ہلاکو، تیمور اور بابر وغیرہ کے بھی وزیر نہیں ہوتے تھے۔ہندوستان میں انگریزوں نے کوئی وزیر نہیں رکھا تھا صرف برطانیہ کے وزیروں بلکہ ایک وزیر سے گزارہ کرتے تھے لیکن ہم ان تمام امور کو نظرانداز کرکے بلکہ وزیروں کے حوالے کرتے ہوئے صرف لفظ’’وزیر‘‘ پر فوکس کریں گے اور تحقیق کا ٹٹودوڑا دوڑا کر پتہ لگائیں گے کہ لفظ’’وزیر‘‘کے کیا معنی ہیں یہ کس زبان کا لفظ ہے اور اتنا کثیرالاستعمال کیسے؟اور کیوں ہوگیا ہے۔

ہمارا ٹٹوئے تحقیق دوڑتے دوڑتے اس مقام پر پہنچا ہے کہ قدیم ہندوستان، قدیم ویدک دھرم میں ایک’’دیوتا‘‘ اندر تھا جو کوئی دیوتا وویوتا نہیں تھا لیکن اس زمانے کے لوگوں نے’’بارش‘‘ کو دیوتا بناکر قصے کہانیاں بنانا شروع کی تھیں جن سے ایک مشہور کہانی خشک سالی کی بھی ہے۔ کہانی کے مطابق دیپا ہر خشک سالی کے عفریت یا ’’اسور‘‘وریت کا قصہ ہوگیا تھا، بارش بند ہوگئی، ہر طرف سوکھا قحط سالی چھا گئی لیکن خشک سالی کی اسی ’’بلا‘‘نے دیوتاؤں سے’’وردان‘‘حاصل کیاتھا کہ اسے زمین وآسمان کی کسی بھی چیز یا ہتھیار سے نہیں مارا جا سکے گا۔ پتھر، لوہا، لکڑی، مٹی، پانی، ہوا کی کوئی چیز اسے نہیں مارا سکتی تھی۔

دیوتا حیران وپریشان تھے کہ آخر اسے کیسے مارا جائے پھر ایک رشی ددیحی نے تجویز پیش کی کہ میں خود کو مار ڈالوں گا اور میری ہڈیوں سے ایک ہتھیار بنایا جائے جس سے اس بلا کو مارا جاسکے گا۔رشی ددیحی نے اپنی جان کی قربانی دی اور اس کی ہڈیوں سے ایک ہتھیار بنایا گیا جس کا نام’’وج‘‘ یا ’’وجر‘‘ تھا۔

اندر بارش نے اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے خشک سالی کے عفریت کو مار ڈالا اس وج یا وجر سے پھر ’’بجر‘‘بجریا اور بجلی کے الفاظ بنے۔ یہ بھی ایک سیدھی سادی موسمی کہانی ہے جب خشک سالی ہوجاتی ہے ہریالی جل جاتی ہے گرمی بڑھ جاتی ہے جس سے سمندر میں بھاپ پیدا ہوجاتی ہے جو اوپر جاکر بادل یا ’’بدریا‘‘بن جاتی ہے جس میں برق وشرر چمکتی ہے، بجلی کے کڑاکے ہوتے ہیں اور پھر بارش خشکی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ لیکن اساطیر میں تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ موسمی عوامل کو استعارات اور تمثیل میں بیان کیا جاتا ہے۔

چنانچہ اس کہانی میں خشک سالی کو’’بلا‘‘یا اسور بنایا گیا، صاعقہ آسمانی کو اندر(بارش) کا ہتھیار وجر بنایاگیا جس سے بارش نے ورتیرہن کا خاتمہ کرڈالا کہانی کو اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے اندر کے ’’وجر‘‘یا بجلی کی بات کرتے ہیں۔سنسکرت میں تو یہ لفظ’’وجر‘‘ہے ہندی میں بجر یا بجریا ہوگیا اور اردو میں بجلی ہوگیا ہے۔

سنسکرت میں اس سے ایک لفظ’’ود‘‘بنتا ہے جس کے معنی قتل یا مارنے کے ہیں لیکن عام قتل ہتھیار سے ان معنوں میں مختلف ہے  ہتھیار کسی کے بھی کسی کے ہاتھ سے قتل ہونے کو کہتے، لیکن ’’ود‘‘ کسی اچھے آدمی یا دیوتا کے ہاتھوں سے برے آدمی کے قتل کے ہوتے ہیں مثلاً رام چندر نے راون کا ود کیا تھا کرشن نے ’’کنس‘‘ کا ود کیا تھا، برسما نے امرینہ کشیپ کا ود کیا تھا اور اندر نے ورتیراھن کا ود کیا تھا۔ ہندی اور سنسکرت کے بعد یہ لفظ’’وج‘‘یا ود پشتو میں ابھی تک مستعمل ہے، وژل،وژنہ وژنی کا مطلب قتل ہے، فلاں نے فلاں کو ’’وژ کیا ہے، اصطلاحاً یہ محبوب سے بھی منسوب ہوگیا،جو آنکھوں سے’’وژل‘‘ کرتے ہیں، اداؤں سے مارتے ہیں

کٹیلی نگاہوں نے مارا

اداؤں نے مارا

یا فارسی میں مرزا قتیل نے کہا ہے ع

مارا بہ غمزہ کشت وقضا را بہانہ ساحت

خود سوئے مانہ دیدو حیا را بہا نہ ساحت

مطلب یہ کہ وہی’’وج‘‘جا کا’’رج‘‘۔ز خاتمہ کر دینا۔اب زبانوں کے ماہر جانتے ہیں کہ الفاظ جب نقل مکانی کرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بدل جاتے ہیں خاص طور پر (و)اور (ب) تو ہمیشہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں جسے(ور۔بر)امبیا۔ویاہ۔چکرورتی چکربرتی بجن وجن۔چنانچہ’’وجر‘‘یا وج کا بچ ہوجانا یا ود یا وژن ہوجانا معمول کی بات اور اس ‘‘وجر‘‘سے جب فاعل بنے گا تو وہ یقیناً وجیر،وژیر اور وذیر ہوگا مطلب ہوا مارنے والا تباہ کرنے والا تباہ برباد کرنے والا اور آج کے تناظر میں جائیں تو وجیر کے یہ معنی کچھ غلط بھی نہیں

وجیر نے مارا۔وجیر نے مارا، وژیر نے مارا۔وزیر نے مارا۔غالباً اس لفظ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ پرانے زمانے کے بادشاہ اس سے وہی کام لیتے تھے جو اندر نے لیا تھا، اپنے ازلی اور جدی پشتی دشمنوں،جنھیں پرانے زمانے میں رعیا یا رعیت کہتے ہیں اور آج کل عوام یا پبلک کہتے ہیں جس کا سلیس اردو ترجمہ ’’کالانعام‘‘ہوتا ہے۔

البتہ چار پانچ سال میں ایک مرتبہ چند دنوں کے لیے ووٹ یا انڈے یا ٹشو پیپر یا ڈسپوزایبل سرپنچ بھی بنائے جاتے ہیں، جب حکمران لوگ خود کو ملک وقوم کی ’’رگوں‘‘میں انجیکٹ کردیتے ہیں پھر چار پانچ سال کے لیے انھیں کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔

ویسے وژ،وج یا ود کی ایک پشتو شکل’’وڈ‘‘ بھی ہے یہ گنے مکئی چاول گہیوں یا کسی دوسری فصل کے کٹ جانے والے خالی کھیت کو کہتے ہیں جن میں فصل کاٹنے کے بعد جانور چھوڑ کر چرائے جاتے ہیں یا چڑیا چگنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ لفظ وہی ہے فصل انسانی ہو، حیوانی ہو یا نباتاتی کٹنے کو ’’وڈ‘‘کہا جاتا ہے یعنی ان کا ود کیا جاتا ہے۔مطلب یہ کہ ہر طرف اور ہر زبان کی روشنی میں وج ود وژ کے معنی مارنا اور نیست ونابود کرنا ہوتاہے اور پرانے بادشاہ اسی لیے ان کو’’وزیر‘‘کہتے تھے کہ بادشاہ اپنا کام بھی کرے اور بدنامی بھی بادشاہ کے بجائے وجیر یا وزیر کے نام ہوجائے۔ اس سلسلے میں ایک پشتو شعر بھی ہے کہ

بادشاہ ھم ھغاسے معصوم او بے گناہ پاتی شی

خپل گناہونہ ورپسر کڑی اور وزیر بدل کڑی

ترجمہ۔بادشاہ ویسا ہی معصوم اور بے گناہ رہ جاتا ہے کیونکہ اپنے سارے گناہ وزیر کے سر پر لاد کر بدل دیتا ہے۔آج کل یہ کام دوسرے اداروں سے لیا جاتا ہے کہ سارے چور مل کر صرف ایک’’چور‘‘کا ود یا وج کر دیتے ہیں، اس سے آج کل ایک اور لفظ ’’وژن‘‘ بھی بن گیا ہے جو کثیرالاستعمال ہے لیکن اس کی کہانی پھر سہی،وج وجر وژیر اور وژن۔جس کے معنی پشتو میں وہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔