ہمسایوں کے درمیان تجارت ناگزیر کیوں؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 26 جنوری 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پاکستانی حکومت خواہ جتنا بھی کہے کہ اُس کی معاشی ترقی کی نمو 5فیصد سے زائد ہے مگر ادارہ شماریات کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ 20 ارب 59کروڑ ڈالر ہوگیاہے اور 2014 سے 2020 کے دوران اسمگلنگ میں تین سے چار گنا اضافہ ہوا ہے اور غیر قانونی تجارت 3.8فیصد سے بڑھ کر 11.2فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد 2021 میں حکومت کو اسمگلنگ کی وجہ سے 500ارب روپے کا ریونیو خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔

یہ اسمگلنگ پاکستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان، ایران اور چین کے ساتھ ہورہی ہے۔ پاک بھارت تجارت دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے بند ہے۔ ایران کے ساتھ ہماری تجارت امریکی دباؤ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے حالانکہ ایران بھارت اور چائنہ کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کر رہا ہے جب کہ پاک افغان تجارت کی بات کریں تو یہاں اسمگلنگ کا حجم قانوی تجارت کے مقابلے میں کئی زیادہ ہے، جس کا فائدہ پاکستان کے قومی خزانے کو نہیں ہورہا بلکہ سارا پیشہ کالے دھن کی شکل میںا سمگلروں کے پاس ہے ، وہ اس کالے دھن کے بڑے حقے کو یواے ای کی ریاستوں میں لے جا رہے ہیں۔

پاک افغان قانونی تجارت تو آسانی سے ہو رہی ہے مگر افغانستان کی طالبان حکومت کے پاس ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی شدید کمی نہیں ہے۔ طالبان حکومت کے آنے کے بعد وہاں ڈالر کی ریل پیل رک گئی ہے اور رہی بات چین کی تو چین پاکستان تجارت جاری و ساری ہے مگر اُس کا سارا فائدہ چین اور وہاں کی کمپنیوں کو ہو رہا ہے۔ ہم چین کو محض 10فیصد اشیاء فروخت کر تے ہیں جب کہ چین ہمیں 90فیصد اشیاء فروخت کرکے بے تحاشا منافع بھی کما رہا ہے اوراُلٹا ہماری مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہا ہے۔

دنیا میں ہم تجارت کے کامیاب ماڈلز کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی تجارت یعنی ریجنل ٹریڈ سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ ’’نافٹا‘‘جو امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کا ریجنل بلاک ہے، میں باہمی تجارت 68فیصد ہے۔ یورپی یونین،جو یورپ کے 27ممالک کا بلاک ہے، کی باہمی تجارت 53فیصد ہے۔

آسیان ممالک ( چین ، فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ) کی باہمی تجارت 26فیصد ہے جب کہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے ریجنل بلاک سارک کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالیں تو آزادی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بہترین انداز میں چل رہی ، حتیٰ کے 1948 میں جنگ کے دنوں میں بھی باہمی تجارت جاری رہی۔ 1948-49تک ہماری 56فیصد ایکسپورٹ انڈیا ہی کو ہوتی تھی ۔

پھر اگلے کئی سال تک پاکستان اور بھارت تجارت کے حوالے سے بڑے پارٹنر تھے، آزادی کے بعد ابتدائی 17 برس (1948-1965) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 14تجارتی معاہدے ہوئے ۔ اس دوران انڈیا کے بینکوں کی 6برانچیں پاکستان میں کھل چکی تھیں۔ پھر 1965کی جنگ ہوگئی ۔

10جنوری 1966 میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ تاشقند میں فوجوں کی سرحدوں پر واپسی کے ساتھ یہ بھی طے پایا تھاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مشرف دور حالات میں بہتری آئی اور 2003میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخ کی بہترین تجارت دیکھنے میں آئی جس کا حجم 35ارب روپے دیکھا گیا اور پھر اگلے 15سال تک پاک بھارت تجارت میں اتار چڑھاؤ رہا لیکن نواز شریف کے سابقہ دور میں یہ تجارت مثالی ہوگئی۔

اُن کے دور میں پاکستان ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق پاکستان بھارت کو 383 ملین ڈالر کی اشیا برآمد کرتا تھ،ا جن کھجور، سیمنٹ اور چمڑے کی مصنوعات اور نمک کی تجارت شامل تھی۔ پاکستان بھارت سے 1.9 بلین ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا تھا، پاکستان، بھارت سے کاٹن درآمد کرتا تھا جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔لیکن اگست2019میں پلوامہ واقعہ کے بعد اب تک یہ تجارت مکمل طور پر معطل ہو گئی ہے ، لیکن سنا ہے کہ آج بھی 800/900اشیاء بھارت سے اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ رہی ہیں، جس سے پاکستان کو توکوئی فائدہ نہیں مگر مافیا فائدہ ضرور اُٹھا رہا ہے۔

بھارت اور چین کے حالات کس قدر بھی کشید ہ ہوں مگر باہمی تجارت جاری رہتی ہے۔ گزشتہ سال انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالرز سے تجاوز کرگیا ۔ حالانکہ 2001 میں بھارت چین تجارتی حجم1.83 ارب امریکی ڈالرز تھا، وہ گزشتہ سال کے 11 ماہ میں بڑھ کر 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

چین اور امریکا کھلے حریف ہیں۔ امریکا چین کے عالمی افق کی طرف اٹھتے قدموں کو روکنا چاہتا ہے، اس کی عالمی برتری کی راہیں کھوٹی کرنا چاہتا ہے لیکن اپنے معاشی مفادات کو دیکھتے ہوئے اس کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے، بڑی بڑی امریکی کمپنیاں چین میں قائم ہیں، امریکا نے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، چین نے کھربوں ڈالر بطور قرض امریکا کو دے رکھے ہیں، مفادات بھی چل رہے ہیں اور دشمنی بھی نبھائی جا رہی ہے ۔

پھر امریکا میکسیکو کے تعلقات بھی کبھی نارمل نہیں رہے لیکن اُن کے درمیان تجارت کبھی معطل نہیں ہوئی، پھر جرمنی اور فرانس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے، اور یہ نوک جھونک 200سال پرانی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں کبھی کسی نے نہیں سنا کہ ان دونوں ممالک کی تجارت کبھی معطل ہوئی ہو۔

لہٰذا اس وقت حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرے ، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے جو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔