تیل کی پیداوار میں اضافہ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 27 جنوری 2022
barq@email.com

[email protected]

یہ خبر بلکہ خوش خبری بلکہ مژدہ جان افزا تو آپ نے سن ہی لیا ہوگا کہ آئی ایم ایف کی نشان دہی انصاف داروں کی سعی بسیار اور اشرافوں کی محنت سے پاکستان میں تیل کی پیداوار بڑھ گئی ہے، ویسے رسمی طور پر اور عام زبان میں تو اسے ٹیکس کہا گیا ہے لیکن خصوصی سرکاری سیاسی اور آئی ایم ایف کی زبان میں اسے ’’تیل‘‘کہتے ہیں جو پاکستان میں موجود کروڑوں چلتے پھرتے ’’کنوؤں‘‘  سے نکالا بلکہ نچوڑا جاتا ہے اگرچہ پاکستان کے یہ کنوئیں پہلے بھی کچھ کم پیداوار نہیں دے رہے تھے۔

آئی ایم ایف کا بڑا کنواں۔کچھ اور چھوٹے کنوئیں۔اور خالص ملکی اشرافوں کے کنوئیں ان ہی کنوں کے طفیل لبالب بھرے ہوئے تھے لیکن خدا اس آئی ایم ایف کی عمردراز کرے جو ہمارا سب سے بڑا دوست اور خیر خواہ ہے اس نے اپنے ماہرین کے ذریعے پتہ لگالیا کہ ابھی ان کنوؤں سے مزید تیل نکالا جاسکتا ہے چنانچہ اس نے ’’چھوٹے میاں‘‘عرف منی بجٹ کو یہ کام سونپ دیا کہ بڑے میاں عرف سالانہ بجٹ کی کوتاہیوں کو برابر کرے اور یہ تو ایک دنیا مانتی ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ہے۔

یہاں وہ کفن کش اور اس کے بیٹے کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے لیکن کفن کش کے بیٹوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اس کے ذکر میں کوئی کشش نہیں رہی ہے، اس لیے بڑے میاں اور چھوٹے میاں کی بات ٹھیک رہے گی کیونکہ اب کے ’’چھوٹے میاں‘‘ نے وہ کردکھایا جس کا بڑے میاں تصور بھی نہیں کرسکتے۔اطلاع یہ ہے کہ پاکستان کے چلتے پھرتے کنوؤں سے یہ جو اضافی تیل نکالا جائے گا یہ تو محض ابتدا ہے آگے اس میں مزید بڑھوتری کا امکان ہے ابھی ایسی بہت سی چیزیں باقی ہیں جن کے ذریعے ان کنوؤں سے مزید بلکہ مزید در مزید تیل نکالا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی وہ مقام بہت دور ہے جس کی پیش گوئی احمد ندیم قاسمی نے یہ کہہ کر کی ہے کہ

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

بلکہ ہم اس پر تھوڑا سا اضافہ کرکے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب تو مارنا اور مرنا دونوں’’روا‘‘ہونے والے ہیں، دراصل اس سلسلے میں ہمیں اپنی ’’مہالکشمی‘‘عرف آئی ایم ایف کا ممنون وشکر گزار و زیربار احسان ہونا چاہیے ورنہ ہم تو ہمت ہار بیٹھے تھے، خواہ مخواہ زراعت اور صنعت جیسے فضول کاموں میں وقت ضایع کرتے تھے غربت اتنی زیادہ تھی کہ ہم صرف آٹھ دس وزیر عرف سفید ہاتھی پالتے تھے۔

یہ تو خدا’’اُلوسوار‘‘لکشمی دیوی کا بھلا کرے کہ اس نے اُلووں پر سوار ہوکر ہمارے یہاں قدم رنجہ فرمایا۔یعنی وہ آئی اس نے دیکھا اور پتہ لگالیا کہ ہمارے ہاں تو تیل کے کنوؤں کی اتنی بہتات ہے کہ ہر سال میں دگنے ہوجاتے ہیں اور پھر ہمارے باتدبیروں کو بتایا کہ ان کنوؤں کا تیل کس طرح نکالا جاسکتا ہے۔

چھوڑو اس زراعت اور دوسرے فضول کاموں اور تیل نکالنے میں لگ جا منابھائی ہوجاؤ، یہ ڈیم ویم کارخانے مارخانے اور کام کاج فضول ہیں ان کنوؤں سے تیل نکالو پھر دیکھو اور تیل کی دھار بلکہ دھاریں دیکھو اور دونوں ہاتھوں سے لٹاتے رہو، جتنے چاہو وزیر رکھ لو ،جتنے چاہیں مشیر، معاون، سفید ہاتھی، فضول قسم کے محکمے رکھو، لنگرخانے کھولو، خیرات خانے چلاؤ، دسترخوان بچھاؤ اور نوالوں کے لیے ’’منہ‘‘پیدا کرو۔یہاں سنبھالنا مشکل ہو تو ’’دساور‘‘لے جاکر وہاں کے بینکوں میں رکھو، آڑے وقت کے لیے جائیدادیں خریدو۔

یہاں کے تیل کے کنوؤں کا کمال یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں تیل کے کنویں ہیں ان کے بارے میں ماہرین بتاتے ہیں کہ ایک دن یہ تیل کے کنوئیں سوکھ جائیں گے لیکن ’’اُلوسوار‘‘لکشمی دیوی نے پاکستان کے چلانے والے ڈرائیوروں(جو شفٹ وار ملک کو چلاتے ہیں)کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کے کنوئیں کبھی نہ تو خالی ہوں گے اور نہ کم ہوں گے بلکہ ان کنوؤں کا مزید کمال یہ ہے کہ ہر کنواں خشک ہونے سے پہلے آٹھ دس کنوئیں اور پیدا کردیتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق آج سے کچھ عرصہ پہلے 1971میں ان کنوؤں کی تعداد دس ہزار تھی جب کہ آج خدا کے فضل سے ہم پچیس کروڑ کنوؤں کے مالک ہیں

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشند ’’آئی ایم‘‘ بخشندہ

اُلوسوار لکشمی نے صرف کنوؤں کی نشان دہی نہیں کی ہے بلکہ اور بھی بہت ساری مہربانیاں کی ہیں آخر ہم اس کی ’’سواری‘‘جو ہیں

اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالون

طوق زریں ہمہ در گردن’’بوم‘‘می بینم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔