کوا، کوئل اور عدم اعتماد

سید امجد حسین بخاری  جمعـء 11 فروری 2022
ماضی کی طرح اپوزیشن کے ہاتھ اب بھی کچھ نہیں آئے گا۔ (فوٹو: فائل)

ماضی کی طرح اپوزیشن کے ہاتھ اب بھی کچھ نہیں آئے گا۔ (فوٹو: فائل)

بچپن میں سنا تھا کہ جنگل میں موجود کوئل اور کوے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے ہیں۔ کوا کوئل کی نسل کشی کرنے کےلیے اس کے گھونسلے سے سارے انڈے کھا جاتا تھا، جس کے جواب میں کوئل کوے کے انڈے اس کے گھونسلے سے باہر پھینک کر اپنے انڈے رکھا کرتی ہے۔ یوں کوئل کے انڈوں کی حفاظت کوے کرتے ہیں اور کوے کے گھونسلے میں کوئل کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ مجھے کبھی اس غیر فطری انداز کی سمجھ نہیں آئی۔

اس وقت بھی ملک میں کوے کے گھونسلوں میں کوئل کے بچے پالنے کی کوششیں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ غیر فطری اتحاد بن رہے ہیں۔ گلے شکوے ہورہے ہیں۔ مگر سبھی کی خواہش ہے کہ ملک میں کوئی تبدیلی لائی جائے۔

سوال یہ ہے کہ سیاسی طور پر منقسم معاشرے میں مرکزیت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ دو مختلف جہتوں پر عمل پیرا سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع ہوں گی؟ اتحادیوں کو کن شرائط پر حکومت سے الگ کیا جاسکتا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کیا اپوزیشن واقعی حکومت سے جان چھڑانا چاہتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کےلیے پاکستانی سیاست کے چند حقائق کو جاننا لازمی ہے۔

اپوزیشن جماعتیں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کو حکومت کا ساتھ چھوڑنے کےلیے راضی کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں حکومت سے الگ کیوں ہوں گے؟ کیونکہ حکومت میں رہتے ہوئے ان کی شرائط مانی جاتی ہیں، وہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں کےلیے فنڈز حاصل کرسکتے ہیں جبکہ اپوزیشن میں انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کےلیے سندھ میں اپنا حصہ مانگ لیا ہے جبکہ شرط عائد کی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی انہیں سندھ میں کھل کر سیاست کرنے دے، ان کے دفاتر کھولے جائیں، صوبائی حکومت ان کےلیے فنڈز جاری کرے۔ لیکن اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ان شرائط کو تسلیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ گزشتہ دو ماہ سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف ایسے بیانات دیے ہیں کہ دونوں کا ایک ساتھ ملنا تقریباً ناممکن ہے۔

ایم کیو ایم کی طرح پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی عدم اعتماد کی صورت میں پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی نشست کی ڈیمانڈ کی ہے۔ ق لیگ کی یہ شرط مسلم لیگ ن کےلیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر پنجاب میں ق لیگ کو بڑی سیٹ دی جاتی ہے تو ن لیگ کے ہاتھ سے کئی بڑے انتخابی حلقے کھسکنے کا خدشہ ہے۔ یہ شرط نہ تو مفاہمت کی علامت ماڈل ٹاؤن اور نہ ہی مزاحمت کے مرکز جاتی امرا کےلیے قابل قبول ہے۔ اگر مسلم لیگ ن، ق لیگ کی یہ شرط تسلیم نہیں کرتی تو چوہدری برداران کے پرانے زخم دوبارہ سے تازہ ہوسکتے ہیں۔ وہ کیسے بھول جائیں گے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں کیسے شریف برادران نے چوہدری برادران کو وعدوں کے باوجود سائیڈ لائن کیا؟ انہیں وہ وقت بھی یاد ہے جب 1999 کے بعد چوہدری برداران نے شریف برادران کے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد میں حصہ لیا، لیکن شریف برادران ڈیل کرکے باہر چلے گئے اور چوہدری برادران یہاں پر مقدمات بھگتتے رہے۔ اس لیے چوہدری برادران کو ساتھ ملانے کی آصف علی زرداری کی کوششیں بھی تاحال بے کار جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔

اب اگر بات کی جائے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ایک ساتھ عدم اعتماد کےلیے اتفاق رائے کی، تو گزشتہ دنوں لندن، لاہور اور لاڑکانہ کے مابین ہونے والے رابطوں میں مفاہمت کے بادشاہ نے شریف برادران کو اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ پارلیمان میں مشترکہ جدوجہد کی جائے، کیونکہ دونوں بڑے سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ شفاف انتخابات سے قبل ضروری ہے کہ دونوں خاندانوں پر قائم مقدمات ختم ہوں تاکہ انہیں الیکشن لڑنے کا موقع مل سکے اور یہ سب تبھی ممکن ہوپائے گا جبکہ وزیراعظم عمران خان سے نجات حاصل کی جائے گی۔ اس کے باوجود دونوں سیاسی قائدین ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو بھی تیار نہیں دکھائی دے رہے۔

عدم اعتماد کی صورت میں مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ انہیں وزارت عظمیٰ دی جائے جبکہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ سیاسی لنگر کی اس دیگ سے انہیں ہی بڑا حصہ ملے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمان خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور بلوچستان میں چند رہنماؤں کی شمولیت کے بعد خاصے پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق پڑتا دکھائی نہیں دیتا کہ عدم اعتماد آئے، قبل از وقت انتخابات ہوں یا بروقت الیکشن ہوں۔ ان کی نظر میں اب دو صوبوں میں وہ حکومت بناسکیں گے۔ اس کے علاوہ پی ڈی ایم سربراہ گزشتہ تین برس سے اپوزیشن جماعتوں سے دل برداشتہ بھی ہیں۔ دکھائی یہ دے رہا ہے کہ وہ پارلیمان کے بجائے سڑکوں پر ہی جدوجہد کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں متفق نہیں ہیں تو اتحادی ان کے ساتھ ملاقاتیں کیوں کررہے ہیں؟ اگر اپوزیشن عدم اعتماد کی پوزیشن میں نہیں ہے تو عدم اعتماد کا شور کیوں ہے؟ اسلام آباد اور لاہور میں موجود رازداروں کے مطابق اس وقت حکومت پریشان دکھائی دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن بھی غیریقینی کا شکار ہے۔ حکومتی وزرا ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ممبران کی ٹوہ میں ہیں۔ کون کہاں جارہا ہے؟ کس سے کون اور کب ملاقات کررہا ہے؟ کہسار مارکیٹ کے چائے خانوں اور لاہور کے پنج ستارہ ہوٹلز کی بالکونیوں اور فارم ہاؤسز میں چائے کے پیالوں سے اٹھتے دھویں میں کیا راز پوشیدہ ہے؟ دوستوں کی آنکھیں اپنے ہی لوگوں کا پیچھا کرنے پر مجبور کیوں ہیں؟

ان سوالات اور شکوک و شبہات کے بیچ سیاسی مبصرین خاصے مطمئن ہیں۔ کیونکہ ماضی کی طرح اپوزیشن کے ہاتھ اب بھی کچھ نہیں آئے گا۔ کہیں سے کوئی اشارہ آئے گا اور نہ ہی کسی واٹس ایپ کالز سے کوئی خوشخبری موصول ہوگی۔ سبھی سیاسی جماعتیں پرانی تنخواہ پر کام کریں گی اور یہ چائے کی پیالی میں طوفان موسم بہار میں الیکشن مہم چلانے کی کوششیں ہیں۔ اپوزیشن رمضان سے پہلے تک بیانات اور جلسوں تک محدود رہے گی، جبکہ رمضان کے بعد موسم گرما شروع ہوجائے گا اور اگلے بجٹ کی تیاری کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ اپوزیشن کی ماضی کی طرح اس بار بھی کوشش ہوگی کہ پاکستان تحریک انصاف ہی اگلا بجٹ تیار کرے، کیونکہ موجودہ معاشی صورتحال میں کوئی بھی سنجیدہ سیاسی قیادت حکومت سنبھالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

رہی بات عوام کی تو گزشتہ ساڑھے تین برس میں اپوزیشن ان کی آواز بنی اور نہ ہی آنے والے عرصے میں عوام کو اپوزیشن سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔ جیسے گزشتہ 42 ماہ گزرے ایسے ہی اگلا ڈیڑھ برس بھی بیت جائے گا۔ 2023 میں پرانی یادوں کے ساتھ دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں کا سامنا کیا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔