تحریک عدم اعتماد اور عوام

محمد عارف میمن  جمعـء 25 مارچ 2022
عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ (فوٹو: فائل)

آج کل اسلام آباد کا سیاسی پارہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ جتنے چینل اتنی باتیں، جو افواہ کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ تحریک کامیاب ہوگی۔ دوسرے چینل پر بیٹھے تجزیہ نگار کہتے ہیں تحریک ناکام ہوگی۔ تحریک کی کامیابی اور ناکامی پر ہم بات میں بات کرتے ہیں، پہلے ہم اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے جسے تحریک عدم اعتماد والے بالکل نظرانداز کیے بیٹھے ہیں۔

پاکستانی عوام سے اگر پوچھا جائے کہ کیا انہیں تحریک عدم اعتماد میں کوئی دلچسپی ہے تو ان کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو کرسی پر بیٹھے کسی بھی شخص سے پیار نہیں۔ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سیٹ پر کون بیٹھا ہے۔ انہیں صرف دو وقت کی روٹی جو آسانی سے میسر آجائے وہ چاہیے۔ جو آج واقعی دشوار ہوچکی ہے۔

اپوزیشن میں شامل لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے وطن عزیز پر حکومت کرتے آئے ہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ حکومت کیسے کرنی ہے اور عوام کو کیسے دبا کر رکھنا ہے۔ لیکن یہ کام عمران خان کی حکومت بالکل نہیں کر پائی۔ عمران خان حکومتی امور میں ایک اناڑی کھلاڑی کے طور پر میدان میں اترے ہیں، جو وقتی طور پر کامیاب تو ضرور ہوگئے مگر اب میدان میں ٹکے رہنے کےلیے انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کیوں کہ وہ اس گیم میں بالکل نئے ہیں۔ جب تک گیم ان کی سمجھ میں آئے گا اس وقت تک وہ گیم سے مکمل طور پر باہر ہوچکے ہوں گے۔

پی ٹی آئی نے حکومت حاصل کرنے کےلیے عوام سے جو وعدے کیے وہ تو پورے نہ کرسکی، لیکن بدلے میں وہ کام کردیے جو انہیں فوری طورپر نہیں کرنے چاہیے تھے۔ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر بلند بانگ دعوے کیے کہ جب پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھ جائیں تو سمجھ جانا کہ آپ کا حکمران چور ہے۔ ہم حکومت میں آکر ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، پچاس لاکھ گھر دیں گے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم حکومت میں آتے ہی ان پر پہلا وار کورونا نے کردیا جس سے تباہ حال معیشت مکمل طورپر بیٹھ گئی۔ لاک ڈاؤن میں جہاں پاکستانی معیشت کا نقصان ہوا، وہیں دنیا بھر کی صنعتیں بند ہوئیں۔ ایک دن شہر بند ہونے سے اربوں کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، لیکن یہاں لمبے عرصے تک پورا ملک اور آدھی دنیا مکمل طورپر بند رہی تو اس سے کتنا نقصان ہوا ہوگا، آپ خود اندازہ لگالیجئے۔

مہنگائی کنٹرول کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ لیکن اس ضمن میں تمام صوبوں میں وزرائے اعلیٰ نے وہ کام کیے جس سے حکومت کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔ ہر طرف لوٹ مار مچا دی گئی۔ روپے والی چیز دس روپے اور دس روپے والی چیز سو روپے میں فروخت کرنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا۔ جس کی ذمے داری مکمل طور پر تبدیلی سرکار پر عائد کردی گئی۔ اگر ہمارے محلے میں کوئی مرغی فروش ڈیڑھ سو روپے کلو والی مرغی اپنے من پسند نرخ پر پانچ سو روپے کلو کرکے بیچے تو اس میں وزیراعظم کیا کرسکتا ہے؟ نرخوں پر کنٹرول کرنا کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کا کام ہوتا ہے، لیکن عمران خان کی حکومت میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اپنے اپنے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو فری ہینڈ دے کر انہیں مکمل طور پر اپنی پارٹی کا ذاتی غلام بنائے رکھا۔ جس سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان سامنے آیا اور اس طوفان نے حکومت کی تمام تر حکمت عملی اور منصوبوں کو ملیامیٹ کردیا۔

اپوزیشن جماعتیں اب چاہتی ہیں کہ وہ پھر سے حکومت میں آئیں، کیوں کہ ان سے اپوزیشن میں بیٹھا نہیں جارہا۔ یہ جماعتیں اگر واقعی عوام دوست ہوتیں تو یقیناً یہ مہنگائی کے خلاف اسمبلی میں آواز بلند کرتیں، حکومت کی ناقص حکمت عملی پر انہیں تنقید کرکے انہیں راستہ بتاتیں کہ اس پر چلیں۔ اپنے اپنے صوبوں میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو عوامی مسائل کے حل پر لگاتیں، گراوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیتیں۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا۔

جب ایک دکاندار سے میں نے پوچھا کہ مرغی کا ریٹ تو آج کچھ اور ہے لیکن پیسے کچھ اور لے رہے ہو۔ تو اس دکاندار نے جواب دیا جس نے یہ ریٹ دیے ہیں جاکر اس سے بات کرو۔ ہمیں جتنے میں مال ملے گا منافع رکھ کر ہی بیچیں گے، نقصان کرکے کون بیچتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پرائس کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو معلوم ہی نہیں کہ مارکیٹ میں کون سی اشیا کس بھاؤ میں مل رہی ہیں۔ یہ کمشنرز حضرات ڈپٹی کمشنرز کو آرڈر دیتے ہیں اور ڈپٹی کمشنرز اسسٹنٹ کمشنرز کو مارکیٹیوں میں بھیج دیتے ہیں اور اسسٹنٹ کمشنرز چند دکانوں کو پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کرکے سمجھتے ہیں نوکری کرلی، اب گھر جائیں۔

دودھ کا سرکاری ریٹ آج بھی 95 روپے فی لیٹر ہے، مگر شہر بھر میں دودھ کہیں 170 اور کہیں 150 روپے لیٹر میں فروخت ہورہا ہے۔ لیکن اس پر کسی کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ وہ سب اپنی اپنی پارٹیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی حکومت اگر چلی گئی تو یہ لوگ اپنے اپنے کمشنرز کو آرڈر کریں گے کہ اب ریٹس پر کنٹرول کرو تاکہ عوام کو دکھا سکیں کہ ہم ہی اصل خدمت گار ہیں۔ اور عوام بھی یہی سمجھیں گے کہ واقعی یہی حکومت کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن یہ عوام کی سب سے بڑی بھول ہوگی۔ کیوں کہ عمران خان کے جانے کے بعد اصل گیم شروع ہوگا، جس میں اندھا ریوڑیاں بانٹے گا اور اپنے اپنے اس مستفید ہوں گے۔

عمران خان کو حکومت کرنے کا بالکل تجربہ نہیں۔ اگر ذرا بھی تجربہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے صوبوں کو دیے گئے اختیارات اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ کرتے۔ جس سے وہ صوبوں میں ہونے والی ڈرامے بازیوں پر بخوبی قابو پاسکتے تھے۔ لیکن عمران خان نے ایسا نہیں کیا۔ یہ ہی وہ گیم ہے جس سے وہ ناواقف نکلے۔ اٹھارہویں ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ نے اٹھایا۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت کراچی میں سائیں سرکار کی جانب سے کسی بھی قسم کے کوئی ترقیاتی کام نہ کرنے، تعلیمی ماحول کو سبوتاژ کرنے اور من پسند پروجیکٹ عجلت میں شروع کرنا شامل ہیں۔ اس سے سندھ حکومت نے کراچی کو بنجر بنادیا لیکن وفاق اس ضمن میں محتاج رہا۔ کیوں کہ بیچ میں اٹھارہویں ترمیم آڑے آتی رہی۔ وہ کوئی بھی نیا پروجیکٹ شروع نہیں کرسکی۔ کراچی مکمل طور پر جیالوں کے حوالے کرکے سندھ حکومت نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ ساری جماعتیں مل کر ایک حکومت کو ناکام کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اگر اسے درست طریقہ مان بھی لیا جائے تو کیا یہ اتحاد آگے چل سکتا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ کیوں کہ ستر سال سے پاکستان میں کوئی بھی اتحاد زیادہ دیر تک ٹکا نہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے، اور جب کسی کا مفاد پورا نہیں ہوتا تو وہ اتحاد توڑ دیتا ہے۔ یہ ہی چیز آگے چل کر ہوگی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ محض اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پہلے خود تھے، اب میدان میں ان کی اولاد ہیں۔ موروثی سیاست کو پروان چڑھایا جارہا ہے، جس سے کوئی بھی شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بغیر حکومت کے زندہ نہیں رہ سکتے اور زندہ رہنے کےلیے حکومت کسی صورت بھی اب ان کی کمزوری بن چکی ہے۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ حکومت کسی کی بھی ہو، تاہم کام وہ اچھا ہوتا ہے جو پائیدار ہو۔ عدم اعتماد کی تحریک کی آزمائش سب سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت پر کی گئی تھی، جو ناکام ثابت ہوئی۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر آئندہ ہر وزیراعظم کے خلاف دو سے تین سال میں عدم اعتماد کی تحریک کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یہاں ایم این ایز کے اپنے اپنے ریٹ ہیں جو بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ اور یہ والا حربہ ہر دور کی اپوزیشن کےلیے پرکشش ثابت ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔