نہ ادھر سچ ہے نہ ادھر

فاطمہ نقوی  جمعـء 25 مارچ 2022
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

اس وقت حکومت وقت کو لتاڑا جارہا ہے جب کہ اپوزیشن کو اخلاقیات کے اس درجے پر پہنچایا گیا کہ دیکھتے اور پڑھتے ہوئے ہنسی آرہی ہے اور افسوس بھی ہو رہا تھا کہ کیا کالم نگاروں اور اینکروں کو صرف یہی کام رہ گیا ہے۔ دراصل غیر جانبدار ہوکر ہی بات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ حکومت باقاعدہ انتخابات جیت کر آئی ہے، یہ الیکشن پوشیدہ نہیں ہوئے، سب کے سامنے نتائج آئے اور جمہوری طریقے سے حکومت منتخب ہوئی لیکن تاثر یہ پیدا کیا جارہا ہے کہ ایک حکومتی سلسلہ اچھے خاصے چل رہا تھا اور اس میں گڑبڑ گھٹالا کرکے حکومت آئی ہے اور اب جب کہ پانچ سالہ مدت پوری ہونے میں ایک سال باقی ہے، اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لاکر پورے کھیل کو اپنی مرضی کے مطابق رخ دینے جا رہی ہے توکیا یہ عمل درست ہے؟

جس طرح سندھ ہاؤس پر حملہ کیا گیا جب یہ عمل درست نہیں تو ان باغی سیاستدانوں کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟ کتنے ارکان ہیں جن کے ضمیر نے زور سے انگڑائی لی اور جاگنے پر اپنا ہی ووٹ اپنی جماعت کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، اس بات کے لیے سندھ ہاؤس کو ان کا گھر بنادیا گیا ہے جو کہ خود ایک جرم ہے اور دونوں طرف کی کھینچا تانی یہ بتا رہی ہے کہ نہ ادھر سچ ہے نہ ادھر، اس چکر میں صرف عوام ہی ہیں جو مہرہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان باغیوں نے تو اپنے ریٹ میں گراں قدر اضافہ کر لیا ہے اور لاکھوں لینے والا رکن کروڑوں روپے لے رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے ارکان کو نا اہل قرار دیا جائے تاکہ آیندہ کوئی ایسی حرکت کرتے ہوئے ہزار بار سوچتا۔ حکومت کا واویلا بھی نہ سمجھنے والی چیز ہے جب ادھر ادھر سے ارکان جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تو اس کنبے کی ہانڈی کو چوراہے پر ہی پھوٹنا تھا۔ اب اس پر ماتم کیوں؟ ادھر ادھر کے لوگوں کو جمع کر کے ان کے بھاگنے پر شور کیوں؟ کیونکہ بھاگنے والوں کو ریاست یا جمہوریت سے کیا لینا دینا ، جہاں دیکھا نوٹوں کا بریف کیس اپنا رخ ادھر ہی موڑ لیا ،بس سب سے بڑا روپیہ۔

ہمارے حکمران بھی اقتدار حاصل کرنے کے لیے اتنے جذباتی ہو رہے تھے کہ اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے دیگر پارٹیوں کے سیاستدانوں کو اپنے پاس جمع کر لیا تھا اور ایسے کئی سہانے خواب پاکستانیوں کو دکھائے ، جن میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوسکا ، غریب سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ہے ، پہلے غریب چٹنی روٹی کھا کر اپنا وقت کاٹ لیتا تھا مگر اس ریاست مدینہ میں یہ حالت ہو گئی ہے کہ روٹی ہی پہنچ سے دور ہو گئی۔ دودھ مہنگا ، پٹرول مہنگا ، گھی مہنگا۔ پہنچ سے دور سبزی، دال نہیں کھا سکتے، گوشت مرغی تو عیاشی جو لوگ پچاس ہزار روپے ماہانہ کما رہے ہیں وہ بھی غربت کی لکیر کو کراس کرچکے ہیں۔ اس صورت حال میں بھی سیاست چمک رہی ہے۔

ایک دوسرے کے گریبان پھٹ رہے ہیں اور رونا عوام کا ہے کہ ہم عوام کے لیے نکلے ہیں۔ یہ سب صرف اپنے مفادات کے لیے ہی شور ڈال رہے ہیں مقصد یہ ہے کہ اقتدار کا پارس پتھر ہمیں مل جائے، کسی بھی طرح۔ چاہے اپنے آپ کو بیچ کر ملے بس ہما ہمارے سر پر بیٹھ جائے۔ ہمارے تمام سیاست داں صرف اس معاملے میں ایک ہیں باقی کچھ بھی ہو ان کی بلا سے۔ بلاول بھٹو کو یہ کہتے ہوئے خیال کرنا چاہیے تھا کہ او سی آئی کا اجلاس نہیں ہونے دیں گے جو لیڈر اپنے الفاظ کہتا ہو وہ لیڈر نہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسی کو بھی عوام کا خیال نہیں ہے ، عوام جو سیاسی جلسوں میںجا رہے ہیں۔

ان کے دم سے جلسے جلوسوں کی رونق ہے مگر ذرا برابر جو ان کی فکر ہو، کسی بھی پارٹی کے کارکن کو دیکھ لیں اس کے گھر میں کھانے کو لالے پڑیں ہیں مگر ابھی زندہ ہے، آوے ہی آوے، ووٹ کو عزت دو ، ہر جگہ ان غریب کارکنوں کے دم سے ہی جلسے جلوس آباد ہیں۔ یہ لوگ نہ ہوں تو یہ نام نہاد بہ قلم کار خود بڑھکیں کیسے مار سکتے ہیں مگر نہ حکومت نہ ہی اپوزیش نے یہ سوچا کہ یہ پیسہ جو ہم بے کار کے بھرم کے لیے خرچ کر رہے ہیں وہ مل جل کر عوام کے لیے خرچ کر دیں۔

کوئی لائحہ عمل رمضان کے لیے بنا لیں ، جس سے غریب کے گھر کا چولہا بھی جل سکے ، پھر دیکھیں آپ کی حکومت پانچ توکیا دس سال بھی چل سکے گی ورنہ ان غریب لوگوں کی بد دعائیں ہی ہیں جو کسی کو ملک سے دربدر کیے ہوئے ہیں تو کسی کا حال یہ ہے کہ اپنے حلقے میں شکل بھی نہیں دیکھا سکتے تو کہیں یہ حال ہے ہزار وعدے کر کے بھی ایک بھی ایفا نہ ہو سکا، ہزار نوکریاں تو چھوڑیں، لوگوں کو پناہ گاہوں کا راستہ دکھا دیا گیا ہے جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ خدارا پاکستان کا سوچو پھر دیکھنا تمہیں کسی جھوٹ فریب کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ کا وعدہ ہے ۔

کرو تم مہربانی اہل زمین پر

اللہ مہربان ہوگا عرش بریں پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔