تحریک عدم اعتماد کیا گُل کھلائے گی

حکومت سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے کسی اخلاقی قدر کی پاسداری یا اصولی سیاست کی امید عبث ہے


اعزاز کیانی March 26, 2022
اپنے طرز سیاست میں حکومت سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستانی سیاست اس وقت ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اس وقت اسی مرحلے کے حتمی نتیجے پر ہے۔ حزب اختلاف کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف عدم اتحاد کی تحریک اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہوچکی ہے۔ اس تحریک کا حتمی نتیجہ تو ظاہر ہے قومی اسمبلی میں رائے شماری کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ اس وقت جو کچھ اس بابت کہا جارہا ہے اس کی نوعیت ظن، قیاس اور دعووں کی ہے۔

حزب اختلاف کا پورے تیقن و اعتماد سے یہ کہنا ہے کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی اور وزیراعظم عمران خان وقت سے پہلے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے اتار لیے جائیں گے۔ اس کے بالکل برعکس حکومتی ارکان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد پوری ہے اور شکست حسب سابق حزب اختلاف کا مقدر ہوگی۔

اپوزیشن کا یہ دعویٰ اس بار اس لیے بھی قابل اعتنا و قابل غور ہے کہ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق درجن کے قریب حکومتی ارکان منحرف ہوچکے ہیں۔ ان ارکان میں سے بعض نے نہ صرف بذات خود اس کا اظہار کیا ہے بلکہ حکومتی جماعت اُن منحرف ارکان کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری کرچکی ہے اور عدالت عظمیٰ میں ایک صدراتی ریفرنس بھی بھیج چکی ہے۔

ان تمام اطلاعات کے باوجود بھی کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی۔ اس لیے کہ حزب اختلاف کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حزب اختلاف ماضی میں بھی اس طرح کے دعوے کرتی رہی ہے لیکن تقریباً تین سال کی اس مدت میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔

اس کے بالکل برعکس اس بار حکومت کی گھبراہٹ اور پریشانی بھی نمایاں ہے۔ حکومتی جماعت کی جانب سے جلسوں کا موجودہ سلسلہ اسی کا مظہر ہے۔ ان جلسوں سے گویا یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ عوام کی اکثریت آج بھی ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے خلاف کسی بھی کارروائی کا نتیجہ عوامی تحریک ہوگا۔ 27 مارچ کا جلسہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے 'امربالمعروف' سے موسوم کیا گیا ہے۔ اصولی طور پر کسی بھی جگہ یا کسی بھی وقت جلسہ کرنا ہر جماعت کا جمہوری استحقاق ہے لیکن یہ امر بالمعروف کا عنوان میرے نزدیک محض ''سیاست'' ہے۔

حکومت کو اس وقت جو حقیقی مشکل درپیش ہے یہ دراصل اُس فیصلے کا نتیجہ ہے جو تحریک انصاف نے 2018 کے الیکشن کے بعد حکومت سازی کے وقت کیا تھا۔ حزب اختلاف میں رہتے ہوئے عمران خان نے اپنے لیے جو کڑے اصول وضع کیے تھے (جو اصولاً درست تھے) ان میں ایک الیکٹیبلز کی سیاست کا خاتمہ بھی تھا۔ لیکن بعد از انتخابات نا صرف ان ہی الیکٹیبلز کی مدد سے حکومت تشکیل دی بلکہ ان جماعتوں سے بھی اتحاد کیا جن پر ماضی میں کڑی تنقید کی جاتی تھی۔ چنانچہ اس وقت منحرف ارکان میں قابل ذکر تعداد انہی لوگوں کی ہے، جنہوں نے 2018 کے انتخابات کے وقت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دوسری طرف حزب اختلاف سے بھی کسی اخلاقی قدر کی پاسداری یا اصولی سیاست کی امید عبث ہے۔ حزب اختلاف اگرچہ شروع دن سے حکومت کے خاتمے کےلیے کوشاں ہے لیکن معلوم ہوتا ہے اپوزیشن بھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں یا خود اپوزیشن کے سامنے بھی کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔ اپوزیشن کی پالیسی قومی و ملی سے زیادہ عمران مخالف پالیسی ہے۔

چنانچہ اس پورے پس منظر کے ساتھ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے طرز سیاست میں یہ تمام جماعتیں (ن لیگ، پی پی، تحریک انصاف، جے یو آئی) سب مساوی و یکساں ہیں۔

منحرف ارکان کا معاملہ عدالت عظمیٰ میں بھی زیر سماعت ہے۔ ممکن ہے عدالت اس کا فیصلہ چند دنوں میں سنا دے اور نااہلی کی میعاد کا بھی تعین کردے۔ البتہ عدالت عظمیٰ اپنے سابقہ فیصلوں میں نواز شریف، مریم نواز، جہانگیر ترین اور فیصل واوڈا (دہری شہریت کیس) کی مقدمات میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ سناچکی ہے۔

مجھے اس طرح کے فیصلوں سے کبھی اتفاق نہیں رہا، خواہ وہ نواز شریف و مریم نواز کے خلاف ہوں یا فیصل واوڈا و جہانگیر ترین کے خلاف ہوں۔ جرم کتنا بھی سنگین کیوں نہ ہو، اس کی سزا تاحیات کیسے دی جا سکتی ہے؟ ہر جرم میں مجرم کے تائب ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ چنانچہ میرے نزدیک مناسب صورت یہ ہے کہ اس طرح کے جرائم میں مجرم کو پانچ سال تک نااہل کیا جائے اور اس سے آئندہ کی بابت حلف نامہ لیا جائے کہ وہ آئندہ کسی ایسے جرم کا مرتکب نہیں ہوگا۔ اگر بالفرض وہ دوبارہ اُسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اب اس کو وہ سخت کڑی سزا سنائی جائے۔ اور یہ سزا بھی انہی لوگوں کو سنائی جائے جن کے بارے میں یہ ثابت ہوچکا ہو کہ انہوں نے پیسوں کے عوض ووٹ بیچے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں