جو ڈر گیا وہ گھر گیا

سلیم خالق  اتوار 27 مارچ 2022
بیٹرز نے انفرادی طور پر تو ریکارڈز بنائے لیکن وہ ٹیم کو فتح نہ دلا سکے۔ فوٹو : اے ایف پی

بیٹرز نے انفرادی طور پر تو ریکارڈز بنائے لیکن وہ ٹیم کو فتح نہ دلا سکے۔ فوٹو : اے ایف پی

آپ نے کبھی کوئی باکسنگ کا مقابلہ تو ضرور دیکھا ہوگا،اس میں اگر کوئی صرف اپنے آپ کو بچانے میں لگ جائے تو حریف تابڑ توڑ مکوں کی بھرمار کر کے جلد ہی اسے ناک آؤٹ کر دیتا ہے، دونوں کھیلوں میں گوکہ زمین آسمان کا فرق ہے لیکن حد سے زیادہ دفاع کرکٹ میں بھی زمین بوس کرا دیتا ہے،آپ کو فائٹ کرنا پڑتی ہے۔

افسوس آسٹریلیا سے سیریز میں ایسا نہ ہوا،پاکستان نے ابتدا سے دفاعی حکمت عملی اپنائی جس کا خمیازہ آخرکار شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا،24سال بعد آسٹریلوی ٹیم یہاں آئی  ہمیں عمدہ کارکردگی سے ٹیسٹ سیریز کو یادگار بنانا چاہیے تھا مگر افسوس ہماری ٹیم کی ناقص کارکردگی نے اسے کینگروز کیلیے یادگار بنا دیا۔

ایک زمانے میں پاکستان ٹیم جب بھی ہارتی ٹی وی چینلز گانا چلاتے رہتے ‘‘تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے’’ پھر نیا انداز آیا کہ ‘‘لڑ کر ہارے ہیں’’ بدقسمتی سے ابھی تو ایسا بھی نہیں کہا جا سکتا،ہر ٹیم ہوم سیریز میں اپنی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے پچز تیار کراتی ہے،بنگلہ دیش اور زمبابوے بھی ہوم سیریز میں کبھی بڑے حریفوں کو ہرا دیتے ہیں، پی سی بی شروع سے کنفیوز رہا۔

ایک طرف باتیں ہوتی ہیں کہ ملکی پچز خراب ہیں اب انھیں مکمل تبدیل کر دیں گے،دوسری جانب حالیہ سیریز میں ایسی ڈیڈ پچز بنا دیں جہاں میچز کا نتیجہ خیز ثابت ہونا بیحد مشکل تھا،یہ ٹھیک ہے کہ اپنی نازک مزاج بیٹنگ لائن اور مضبوط آسٹریلوی پیس بولنگ کی وجہ سے تیز پچز نہیں بنائی جا سکتی تھیں،ویسے بھی پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہے، البتہ سپورٹنگ پچز تو بن ہی سکتی تھیں جہاں بیٹرز کے ساتھ بولرز کو بھی مدد ملتی،کوچ اور کپتان کی فرمائش پر ڈیڈ پچز بنانے کا نقصان ہی ہوا،شاید ان کو لگتا تھا کہ ہر بار ٹاس جیت کر بڑا اسکور بنا لیں گے۔

راولپنڈی میں ایسا ہوا بھی لیکن بولرز آسٹریلیا کو بھی رنز کا پہاڑ کھڑا کرنے سے نہ روک سکے،پھر کراچی اور لاہور میں سکہ مہربان نہ رہا،جو ڈر گیا وہ گھر گیا،دوسرے ٹیسٹ میں تو شکست سے بچ گئے لیکن تیسرے میں ایسا نہ ہوا،یہ محسوس ہوا جیسے ٹیم مینجمنٹ ٹاپ آرڈر بیٹنگ کے حوالے سے حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مبتلا تھی ورنہ 5اسپیشلسٹ بیٹرز اور وکٹ کیپر کے ساتھ میدان میں نہ اترا جاتا،ٹیل بہت لمبی ہو گئی جہاں5وکٹیں گریں کام تمام ہونے کا امکان بڑھ جاتا۔

پہلی اننگز میں آسٹریلیا نے4جبکہ دوسری میں22رنز کے اضافے سے پاکستان کی آخری 5وکٹیں اڑائیں،پہلے ہمارے پاس بہترین آل راؤنڈر ہوا کرتے تھے،اب فہیم اشرف کو آل راؤنڈر کہا جاتا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شعبے میں ہمارا کیا حال ہے، سیریز میں سب سے زیادہ مایوس اسپنرز نے کیا۔

ایک سابق اسپنر ثقلین مشتاق کی بطور ہیڈ کوچ موجودگی میں ساجد خان نے تین میچز میں چار وکٹیں 119.25 کی اوسط سے لیں،نعمان علی تین میچز میں 9وکٹیں 42.22 کی ایوریج سے لینے میں کامیاب رہے،اس میں سے بھی6ایک ہی اننگز میں 107رنز کے عوض لیں جب آسٹریلیا نے459رنز بنا لیے تھے،ان سے اچھے تو آسٹریلیا کے ناتھن لائن رہے جنھوں نے تین میچز میں 12کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور لاہور میں چوتھی اننگز میں پانچ وکٹیں لیں،نجانے زاہد محمود کو کیوں نہیں کھلایا گیا۔

یاسر شاہ کی مسٹری بھی سمجھ نہیں آئی، کوئی کہتا ہے وہ ان فٹ ہیں تو کسی کا بیان سامنے آتا ہے کہ فارم اچھی نہیں،چیف سلیکٹر محمد وسیم نجانے کیا کر رہے ہیں انھیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ کون فٹ ہے اور کون ان فٹ،آپ وائٹ بال اسکواڈ سے اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں،وسیم کر کیا رہے ہیں،وہ اب تک اصل آل راؤنڈرز اور اسپنرز تو تلاش کر ہی نہیں سکے،ابھی یہ حال ہے کہ جب کوئی کمزور ٹیم آئے جس میں اسٹارز شامل نہ ہوں تو اسے ہرا دیتے ہیں مضبوط حریف کے خلاف پھنس جاتے ہیں۔

بیٹرز نے انفرادی طور پر تو ریکارڈز بنائے لیکن وہ ٹیم کو فتح نہ دلا سکے، عبداللہ شفیق نے صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا،انھوں نے سب سے زیادہ 397 رنز بنائے، بابراعظم نے اس بار بھی مایوس نہ کیا، امام الحق نے بھی موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا،اظہر علی اور محمد رضوان نے چند اچھی اننگز کھیلیں،البتہ فواد عالم کی کارکردگی مایوس کن رہی،فاسٹ بولرز کے خلاف ان کی تکنیک پر سوال اٹھنے لگے ہیں، بابر اعظم طویل عرصے بعد پاکستان کے مکمل بااختیار کپتان نظر آتے ہیں۔

کئی اہم معاملات میں ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق کا کردار خاموش تماشائی کا سا ہوتا ہے،مصباح الحق کے دور میں کپتان سے زیادہ ہیڈ کوچ کی اہمیت تھی، وہی بیشتر فیصلے کیا کرتے، البتہ مشاورت سب سے ہوتی تھی، اب صورتحال تبدیل ہو چکی اور ٹیم کے تمام تر اختیارات کپتان بابر اعظم کے پاس ہیں، پلیئنگ الیون کے انتخاب سمیت بیشتر فیصلوں میں وہ نمایاں ہوتے ہیں،اکثر ہیڈ کوچ کا کردار خاموش تماشائی کا سا ہوتا ہے۔

ثقلین جب عبوری طور پر کام کر رہے تھے تو ان کی کوشش تھی کہ اپنا اچھا امیج سامنے لائیں تاکہ مستقل ذمہ داری سنبھالتے ہوئے کھلاڑیوں کی جانب سے کوئی مخالفت سامنے نہ آئے، اب جبکہ وہ مستقل ہیڈ کوچ بن چکے ان کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، وہ اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے،انھوں نے زیادہ تر فیصلے کپتان بابر اعظم پر چھوڑ دیے ہیں،اس سے بعض کھلاڑی خوش نہیں اور سلیکشن کے حوالے سے مسائل بھی سامنے آنے لگے ہیں۔

ثقلین اس سے پہلے نائب یا اسپن کوچ ہی رہے ہیں،اب بڑی ذمہ داری ملی ہے تو انھیں خود کو ثابت کرنا ہوگا،اسی طرح بابر طاقتور کپتان بنے ہیں تو اب ٹیم کو فتوحات بھی دلائیں،اب وائٹ بال سیریز ہونی ہے،آسٹریلوی میڈیا نے اپنے بولنگ اٹیک کو50سال میں سب سے کمزور قرار دیا ہے،ایسے میں پاکستان کو فتح کا اچھا موقع ملے گا جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ ٹیسٹ سیریز کی ناکامی کا کچھ تو ازالہ کیا جا سکے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔