سیاسی منظرنامہ

ملک کو ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری نظام بنانے کے لیے آئینی اور قانونی اسقام اور ابہام ختم کرنا انتہائی ضروری ہے


Editorial March 27, 2022
ملک کو ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری نظام بنانے کے لیے آئینی اور قانونی اسقام اور ابہام ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: وزیراعظم پر عدم اعتماد کے لیے حزب اختلاف کی ریکوزیشن پرجمعے کو قومی اسمبلی کا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے پارلیمانی روایات کی مطابق گزشتہ ماہ وفات پا جانے والے رکن اسمبلی اور حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کے فوراً بعد اجلاس ملتوی کردیا۔

میڈیا کے مطابق حزب اختلاف نے بھی اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ملتوی کرنے پر احتجاج نہیں کیا۔ اس موقع پرا سپیکر نے کہا کہ پارلیمانی روایت ہے رکن اسمبلی کی وفات پر اجلاس فاتحہ خوانی کے بعد ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ انھوں نے قراردیا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قواعد و ضوابط کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ادھر قومی اسمبلی اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے خبردارکیا کہ پیرکوتحریک عدم اعتماد پرکارروائی نہ ہوئی توپھرکوئی ہم سے نہ پوچھے۔ انھوں نے کہا اسپیکرقومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے کارکن کا کردار ادا کیا، خبردار کرتا ہوں، ہم احتجاج کے لیے آئینی و قانونی راستہ اختیار کریں گے۔

ملک کا سیاسی منظر نامہ اس وقت جو تصویر پیش کر رہا ہے، وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ملک کے باشعور اور فہمیدہ حلقے موجودہ سیاسی صورت حال کو ملک، جمہوریت اور قوم کے لیے اچھا نہیں سمجھ رہے۔ جمہوریت کی علمبردار قوتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔ ایک طرف تو جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا ہے اور دوسری طرف زبانیں اور تلواریں میان سے باہر ہیں۔

ملک کے وزیراعظم عمران خان بھی جلسے کر رہے ہیں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔وہ عوامی جلسوں میں اپوزیشن کے سیاست دانوں کے بارے میں انتہائی سخت لب ولہجے میں تقریریں کر رہے ہیں۔ وزراء حضرات بھی سخت لب ولہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔حزب اختلاف نے بھی گزشتہ روز سے ریلیوں کا آغاز کر دیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ملک کا یہ سیاسی منظرنامہ سب کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے۔

محاذآرائی کی اس صورت حال میں فریقین نے اگر دانش مندی اور ہوش کا دامن نہ سنبھالا تو ''ایکشن ری پلے''کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ فہمیدہ حلقوں میں اس حوالے سے بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان میں سیاست دان ہوں یا دانشور طبقہ، وہ اکثر کہتے ہیں کہ احتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن اس حسن کوبے نقاب کرنے کے بھی کچھ تقاضے اور قوانین ہوتے ہیں، احتجاج جمہوریت کا حسن تب ہی کہلائے گا جب رولز آف گیم کا خیال رکھا جائے گا۔

ہماری سیاسی اشرافیہ کو اپنے گندے کپڑے سڑکوں پردھونے سے باز رہنا چاہیے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم پر عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کر دی ہے۔ ا س میں کوئی انہونی، غیرجمہوری یا غیرآئینی بات نہیں ہے۔ اس لیے جو ایشوز آئینی اور قانونی ہوتے ہیں، انھیں،انھیں کے مطابق طے کیا جانا ہی پارلیمانی جمہوریت ہوتاہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونو ں کو آئینی اور قانونی معاملات پارلیمنٹ کے اندر طے کرنے چاہیں۔

سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی حکمران اشرافیہ سیاسی نظام کی سمت کو درست کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ آئین اور قانون کا جو راستہ اور تقاضا ہے، اس پر من وعن عمل کرنے کے بجائے ایسے فیصلے اور اعلانات کیے جا رہے ہیں جس سے ملک کا ماحول تلخ سے تلخ ہوتا جا رہا ہے اور عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام نے کاروباری سرگرمیوں کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ معاملات سڑکوں پر لا کر سیاسی صورت حال کو بند گلی میں لے جایا جا رہا ہے۔

ادھر عدالت عظمیٰ میں آئین کے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہو رہی ہے۔ ہفتے کے اخبارات میں شایع ہونے والے مواد کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر جمہوریت ہوتو63 اے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔62ون ایف کوالیفیکشن کی بات کرتا ہے، 62 ون ایف میں نااہلی کی بات نہیں کی گئی،الیکشن ایکٹ 2017 بناتے وقت کس چیز کا خوف تھا؟ ہمیں تشریح کا کہہ رہے ہیں جب کہ پارلیمنٹ نے فلورکراسنگ پر ڈی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔ سپریم کورٹ میںآ رٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں۔ مخصوص نشستوں والے ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔ مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ ابھی تو کسی نے انحراف کیا ہی نہیں، آپ ریفرنس لے آئے۔جرم ہونے سے پہلے سزا کیسے دی جا سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ جرم کو ہونے سے روکنا مقصد ہے، قانون وضع کرنے کے لیے عدالت آئے ہیں، جرم ہو تو سزا دینے کے لیے قانون واضح ہونا چاہیے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ ڈسپلن کا پابند رہے گا؟ اگر پارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہے تو خلاف ورزی خیانت ہو گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ اگر وزیراعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا ممبر پھربھی ساتھ دینے کا پابند ہے؟ کیا کوئی بھی رکن وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتخابی نشان ملتا ہے۔ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ووٹر انتخابی نشان پر مہر لگاتے ہیں کسی کے نام پر نہیں۔ پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑنے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا پارٹی فیصلے سے متفق نہ ہوں تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، پارٹی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت کے خلاف جایا جائے، رضا ربانی نے پارٹی ڈسپلن کے تحت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا، یقین ہے رضا ربانی نے نااہلی کے ڈر سے ووٹ نہیں دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بھی پارلیمنٹ نے نہیں کی۔ چیف جسٹس نے کہاآرٹیکل باسٹھ ون ایف میں عدالت کا کردار شامل ہے۔ڈیکلریشن دینے والی عدالت الیکشن ٹربیونل بھی ہو سکتی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن عدالت ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہامیری نظر میں الیکشن کمیشن عدالت نہیں چیف جسٹس نے کہاالیکشن کمیشن عدالت نہیں تو ڈیکلریشن کون دے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہاسپریم کورٹ ڈیکلریشن دے گی۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا اگر تمام جماعتیں متفق ہیں تو آئین میں ترمیم کر لیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا تمام جماعتیں اس پر متفق ہیں آئین کی تشریح کرنا عدالت کا کام ہے، آئین ازخود نہیں بلکہ عدالتوں کے ذریعے بولتا ہے، آئین درست تشریح عدالت ہی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا قانون سازی کے ذریعے بھی آرٹیکل 63A کے تحت نااہلی شامل کی جاسکتی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہااگر ووٹ شمار نہ ہو تو دوسری کشتی میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہاکیا آرٹیکل 63 اے آزادی اظہار رائے پر پابندی نہیں ؟ اٹارنی جنرل نے کہادفعہ 302 بھی قتل سے نہیں روکتی لیکن جیل جانا پڑتا ہے۔جس پر جسٹس جمال خان نے کہا قتل تو 302 کی سزا کے باوجود بھی ہو رہے ہیں۔جمال خان مندو خیل نے کہاآرٹیکل 63 اے کے تحت رکن اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے؟ رکن پارٹی ڈائریکشن کی خلاف ورزی کرے گا تو آئینی نتائج بھگتے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہاآرٹیکل 63 اے کے تحت آج تک کوئی نااہل نہیں ہوا۔ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر پیسے لینا ثابت کرنا ضروری نہیں، صرف پارٹی سربراہ کاشوکاز کا فی ہے، وقت کی کمی کے باعث کیس ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب مزید کتنا وقت دلائل کے لیے درکار ہو گا جس پر اٹار نی جنرل نے کہا آیندہ سماعت پر دو گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

ملک میں جاری اس سیاسی کشمکش کے نتائج کیا ہوں گے اور یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرے گا اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ملک کی سیاسی اشرافیہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سب کے لیے قابل قبول میکنزم بنائیں تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام، غیریقینی اور تشویش کا خاتمہ ہو سکے۔ جمہوری نظام کا مطلب ہی ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔

ملک کو ایک مستحکم اور مضبوط جمہوری نظام بنانے کے لیے آئینی اور قانونی اسقام اور ابہام ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹیرینز کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے کہ وہ اسمبلیوں میں پیش ہونے والے مسودہ قوانین کو بغور پڑھیں، جو پارلیمنٹیرین قانونی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا، تو وہ کسی بھروسے کے قانون دان سے مدد لے اور پوچھے کہ کسی آرٹیکل یا ذیلی شک میں کوئی ابہام تو نہیں ہے، کیونکہ قوانین میں ابہام ہی سارے مسائل کی جڑ ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں