کیا اپوزیشن 2018 کی قیمتیں نافذ کرے گی؟

م ش خ  جمعـء 1 اپريل 2022
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

عوام میں وہ لوگ جو اہل علم اور تہذیب یافتہ ہیں وہ اس رسہ کشی میں سوچ  بچار میں مبتلا ہیں کہ یہ عدم اعتماد کی کہانی کب ختم ہوگی؟ کوئی پارٹی جلوس یا جلسہ کرتی ہے تو دوسری پارٹی لوگوں کی خیرخواہ بن کر سامنے آجاتی ہے کہ لوگوں کے کاروبار متاثر ہو رہے ہیں، وہ روایات کی پاسداری کا سبق کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر یہ بیان دینے والے چند دن بعد اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے کیل ٹھونک کر باہر نکل آتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے لیے جلسہ کرتے ہیں۔

سرکس کے کھیل تماشے جاری ہیں اور قوم خاموش ہے، یہ سوچ کر خاموش ہے کہ یہ کیا دنگا فساد برپا ہے، سیاسی بے یقینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی،  عدم اعتماد کی وجہ سے سارا نظام زمیں بوس ہوتا جا رہا ہے۔

سیاسی بے یقینی اپنے عروج  پر ہے، میں نے ماضی میں کئی مرتبہ اپنے کالم میںحکمرانوں سے درخواست کی کہ آپ بہت توجہ سے مہنگائی کا سدباب کریں، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آنے والا وقت آپ کی مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے، مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ آخر اپوزیشن نے اس بات کو بہت نمایاں جگہ دی ، ابھی پانی سر سے نہیں گزرا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ  حکومت دن کو دن، رات کو رات نہ سمجھے ، اس مصنوعی گرانی پر توجہ دے کہ اٹھارہ ہزار کمانے والا بہت اذیت کی زندگی سے دوچار ہے اور یاد رکھیں یہی ووٹر ہوتے ہیں، غیر تعلیم یافتہ لوگ، سیدھے سادھے ہوتے ہیں انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ پاکستان کو تعلقات کن کن ممالک سے بہتر رکھنے ہیں، ان کی زندگی اس مہنگائی سے پس کر رہ گئی ہے، رمضان کی آمد ہے اور ابھی سے اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پھر پہلا روزہ تو کمال کا ہوگا:

سب گناہ و حرام چلنے دو

کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو

اہلیت کیا ہے میری اسے چھوڑ دو

نام کافی ہے نام چلنے دو

شاہ جائے گا شاہ آئے گا

تم رہو گے غلام چلنے دو

مدینہ منورہ میں ہونے والے ہنگورہ سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن محمد حسن نے 85 ممالک سے مقابلہ حفظ میں ایسی تلاوت کی کہ لوگ دنگ رہ گئے اور یہ بچہ 85 ممالک سے مقابلہ جیت کر آیا، جب یہ بچہ پاکستان آیا تو ایئرپورٹ سے رکشہ میں بیٹھ کر گھر آگیا ،اس کا کوئی استقبال نہیں ہوا، اب آگے تحریر کرنا بے کار ہے، پاکستان کے لیے یہ اعزاز کسی اعزاز سے کم نہیں، مگر ہمارا معاشرہ بے حسی کی چادر اوڑھ کر سو گیا ہے۔

اس مہنگائی کی وجہ سے اپوزیشن کا ڈھول کامیابی سے بج رہا ہے مگر ہمارے کرتا دھرتا آپ کو یہ تسلی دیتے رہے کہ جناب ہوٹلوں کا سروے کریں، لوگ کھانے کا یومیہ 5000 ہزار کا بل ہنستے بولتے دیتے ہیں، اپوزیشن نے بلاوجہ کا ایشو بنا رکھا ہے جب کہ وہ لوگ مہنگائی سے متاثر نہیں ہوئے۔

جو ماہانہ دو لاکھ کماتے ہیں یا تنخواہ لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ہوٹلوں کے بل خوب ادا کرتے ہیں مگر ہماری 70 فیصد آبادی تو دیہاتوں میں رہتی ہے وہ اس مہنگائی سے بہت متاثر ہوئی ہے، لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ محترم وزیر اعظم ! مہنگائی کے حوالے سے آبرو مندانہ فیصلے کرتے تو اپوزیشن آج اتنی کامیاب نہ ہوتی اور آپ بے مقصد تصادم سے بچ جاتے۔

اپوزیشن مہنگائی کے حوالے سے  مصروف ہے۔ اگر وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو انھیں کامیابی اور عوامی پذیرائی کا نسخہ بتا دیتا ہوں۔ اس پر صدق دل سے عمل کرنے کا اعلان کردیں تو کامیابی یقینی ہے وہ ہر جلسے میں یہ اعلان اپنے رب کو گواہ بنا کر کریں کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو اشیا ضروریہ کی قیمتوں کو سن 2018 پر لے کر چند دن میں آئیں گے اور آپ سے کبھی یہ الفاظ نہیں کہیں گے کہ مہنگائی ہمیں ورثے میں ملی ہے مگر اپوزیشن یہ الفاظ عوامی سطح پر نہیں کہے گی، تہذیب کا عنصر ہمیں سچائی میں ملتا ہے اب سچائی کہاں سے لے کر آئیں؟

عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی بیانات پڑھ کر ٹینشن ہوتی ہے، وفاقی وزیر فرما رہے تھے ووٹ دینے والوں کو 22 کروڑ عوام کے درمیان سے گزر کر جانا ہوگا، مسائل کے حوالے سے 22 لاکھ افراد کے مسائل تک تو حل نہ ہوسکے، محترم 22 کروڑ عوام کی بات کرتے ہیں۔

حیرت تو اس بات پر ہے انٹرنیٹ کی وڈیو اور ماضی میں نیوز جو آن ایئر ہوتی رہی ہیں ان میں یہ سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے رہے، آج سب ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ووٹر کی اکثریت سادہ لوح لوگوں کی ہوتی ہے لہٰذا وہ تعلیم یافتہ لوگوں کو گھاس نہیں ڈالتے ۔ سیاسی طور پر سب ایک دوسرے کے جلسوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں، لاکھوں کو ہزاروں میں اور ہزاروں کو لاکھوں میں بیان کیا جاتا ہے اور قوم کے مسائل اندھے کنوئیں کا شکار ہوگئے ہیں، لاقانونیت عروج پر ہے۔

ٹریفک کا نظام تباہی کے کنارے لگ چکا،  اداروں میں کوئی شنوائی نہیں ہے، سیاسی طور پر آئین کو بہت مقدس بنا دیا گیا ہے جب کہ آئین میں عوام کے لیے کیا شقیں موجود ہیں وہ انھیں نظر نہیں آتیں۔ جہاں ان کے ساتھ زیادتی ہو تو فوری طور پر آئین کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی مستند وزیر فرما رہے تھے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن وقت سے پہلے ہو جائیں، جب کہ عدم اعتماد سے پہلے وہ دعوے کرتے تھے کہ ہم 5 سال پورے کریں گے اور آیندہ بھی ہماری حکومت ہوگی۔

اب بیانات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، سیاسی حضرات کے ان بیانات سے قوم الجھن کا شکار ہے، سیاست دانوں کو چاہیے کہ بیانات سوچ سمجھ کر دیں۔ وزرا اپنی وزارتوں پر توجہ دیں، مسائل وزارتوں کے حوالے سے جوں کے توں ہیں، مگر سیاسی حضرات یہ نہیں سوچ رہے۔

وہی پرانا چورن بیچا جا رہا ہے جو قوم اب مذاق کے زمرے میں لے رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اگر عدم اعتماد سے خوش اسلوبی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ اور ان کے وزرا قومی مسائل پر توجہ دیں تاکہ قوم کو تبدیلی نظر آئے اور وزرا حضرات اپنی وزارت کے حوالے سے قوم کے مسائل پر توجہ دیں ، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اگلے الیکشن میں انھیں بہت تگ و دو کرنی پڑے گی اور اگر وہ تبدیلی کی طرف توجہ دیتے ہیں تو اگلا الیکشن ان کے لیے بہت سودمند ہوگا کہ قوم اب سیاسی بیانات سے عاجز آچکی ہے۔

ان کے مسائل جوں کے توں ہیں کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کی تبدیلی کے لیے آپ کو منتخب کیا تھا۔ آپ خاص طور پر مہنگائی جو خودساختہ ہے اسے ختم کریں، پہلے میڈیسن ڈبے پر قیمت درج ہوتی تھی، اب اکثر میڈیسن پر قیمت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں، 2 روپے کی چیز 10 روپے کی ہوگئی ہے۔ سوال کرو تو جواب ملتا ہے کہ ہم کیا کریں پیچھے سے مہنگی ہے، لہٰذا مہنگائی پر توجہ دیں، اگر اس پر بھرپور توجہ دی آپ نے تو کامیابی آپ کے لیے یقینی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔