پیپلزپارٹی متحدہ معاہدہ: نواز لیگ کو سندھ کا پیغام

سالار لطیف  جمعـء 1 اپريل 2022
مسلم لیگ ن سے سیاست کے چکر میں سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ (فوٹو: فائل)

مسلم لیگ ن سے سیاست کے چکر میں سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ (فوٹو: فائل)

تحریک عدم اعتماد سے متعلق متحدہ کی جانب سے اپوزیشن کی کشتی میں سوار ہونے اور متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں سندھ کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ سندھ کی تو بدقسمتی ہی ٹھہری کہ اقتدار کی تگ و دو میں شامل دیگر وفاقی جماعتوں کی جانب سے پیپلزپارٹی کو سندھ کچھ اس طرح سے دیا گیا ہے کہ سندھ دیگر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔

سندھ کی اس حکمراں جماعت کے نزدیک جمہوریت کے کیا معنی ہیں، یہ دیکھنے کےلیے گزشتہ کم و بیش 15 برس سے انہی کی زیرِ حکمرانی تباہی کے کنارے پہنچے ہوئے صوبہِ سندھ کی حالت دیکھی جاسکتی ہے۔ سندھ کے عوام کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ ہوتی آئی ہے کہ کرپشن، نااہلی، ناقص حکمرانی، بھوک و افلاس اور بیروزگاری کی ذمے دار جس جماعت کا سب سے پہلے احتساب ہونا چاہیے، وہ دراصل ایک مرتبہ پھر اقتدار کے حصول کےلیے کوشاں ہے اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے انہیں پھر بھی حکومتِ سندھ کا ہی جھانسہ دے کر ان کی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سندھ کے ایک عام ووٹر کو پیپلزپارٹی اور متحدہ کے اتحاد کی جن بنیادوں پر سب سے زیادہ تحفظات ہوتے ہیں، دراصل اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر انہی دو جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر انہی بنیادوں پر ایک اور معاہدہ طے کرلیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران سندھ کے تناظر میں جس جماعت کا کردار نہایت منفی رہا وہ مسلم لیگ نواز تھی، جس کے باعث سندھ میں ان کے اس طرح کے مشترکہ معاہدے کا بظاہر فائدہ عمران خان کو ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

درِحقیقت گزشتہ 14 برس سے سندھ کے لوگ جس طرزِ حکمرانی کے بوجھ تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس سے ایک بات طے ہوچکی ہے کہ پیپلزپارٹی نے سندھ کے اندر نہ صرف بدترین حکمرانی کی ایک تاریخ رقم کی ہے بلکہ سندھ کے خزانے سے اربوں روپے کی لوٹ مار بھی انہی کی حکمرانی کا شاخسانہ ہے۔ بحیثیت دیہی سندھ کا ووٹر اگر میں اپنی بات کروں تو مقتدر حلقوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کے آنے سے قبل مجھے مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں وزیرِاعلیٰ شہباز شریف کی زیرِ قیادت پنجاب میں ہونے والی تعمیرو ترقی نے خاصا متاثر کیا تھا۔ موٹر ویز کا جال، کالی پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ اسکیم، ماسٹرز کے طلبا کو فیسوں کی واپسی، شہرِ لاہور کی حیرت انگیز تعمیر و ترقی، میٹرو بس اور اورنج لائن ریل گاڑی وغیرہ کم از کم میرے لیے حیرت کا باعث اس لیے بھی تھے کیونکہ میں اس سندھ کا بدنصیب ووٹر ہوں جس کی حکومت کو ماسوائے جمہوریت اور شہدا کے راگ الاپنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔ یہی وجہ تھی کہ بیگانی شادی میں دیوانے بنے عبداللہ کی مانند میں سندھ میں بھی مسلم لیگ نواز کی قیادت اور ان کی طرزِ حکمرانی کے خواب دیکھتا رہتا تھا، باوجود اس کے کہ سندھ کے اندر تنظیم سازی کا عمل مسلم لیگ نواز کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔

وقت نے کروٹ بدلی اور مقتدر ایوانوں میں پاکستان تحریکِ انصاف نے ذمے داریاں سنبھال لیں تو اس کے بعد مسلم لیگ نواز کےلیے ہمدردیاں کم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئیں، جس کا سبب شاید پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے میاں نواز شریف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناءاللہ جیسے افراد کو نشانہ بنانا تھا۔ کیونکہ مجھ جیسے سندھ کے ووٹر کی خواہش یہ تھی کہ جس صوبے میں انقلابی تعمیر و ترقی ہوئی ہے اس کے سابق حکمرانوں کے خلاف اس قدر سخت آپریشن کے بجائے شروعات دراصل اس صوبے کی حکمران جماعت سے کی جاتی جہاں گزشتہ 14 برس تک محض کاغذات کے طفیل حکمران جماعت کے بینک اکاؤنٹس کے اندر ہی تعمیر و ترقی ہوتی رہی۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے اس عمل میں دہرے معیار نے ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت کےلیے میری طرح سندھ کے بیشتر اور لوگوں کی بھی ہمدردیوں میں اضافہ کیا ہو۔ کیونکہ سندھ کے لوگوں کےلیے مسلم لیگ نواز سے متاثر ہونے کی وجہ محض ان کی اپنے صوبے میں کارکردگی ہی نہیں تھی بلکہ شہباز شریف کا وہ وعدہ بھی سندھ کے لوگوں کو یاد تھا جو انہوں نے ایک جذباتی تقریر کے دوران آصف علی زرداری سے متعلق کیا تھا۔

بعدازاں کچھ مواقع پر میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی تقاریر سن کر ایک لمحہ کےلیے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے مسلم لیگ نواز پاکستان میں مقیم چھوٹے صوبوں کی محکوم اقوام کی آواز بن گئی ہے، کیونکہ اس وقت ان کی قیادت کی جانب سے جس طرح کا بیانیہ اختیار کیا گیا تھا وہ چھوٹے صوبوں کے عوام اپنے سیاسی و سماجی حلقوں کے اندر اس سے قبل ہی برملا کرتے آئے تھے، لیکن اس سطح پر ایک قومی رہنما کی جانب سے اس بیانیے پر ڈٹ جانا پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں مقیم اقوام کےلیے ایک ٹھوس وجہ بن چکی تھی کہ وہ اپنی تمام تر حمایتیں اور ہمدردیاں مسلم لیگ نواز کے نام کردیں اور سندھ کے لوگوں کی اکثریت کا بھی یہی خیال تھا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قیام کے دوران جس انداز میں پیپلزپارٹی کو شامل رکھا گیا تو اس کی ابتدا ہی میں سندھ کے ایسے لوگوں کا یہی خیال تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو اگر کسی جماعت سے نقصان پہنچا تو وہ پیپلزپارٹی ہی ہوگی، کیونکہ سندھ کے وسائل، زمینوں کی بندر بانٹ اور کرپشن کےلیے کھلی راہ کے طفیل حکمرانی میں حصہ ملنے پر نظریاتی طور پر ڈگمگانے والی پیپلزپارٹی میں وہ سکت نہیں تھی کہ اس وقت میاں نواز شریف کے بیانیے کی تائید کرسکے اور پھر وقت نے اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ کس طرح پیپلزپارٹی ہی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اپنی راہیں جدا کرلیں۔ اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ نواز کی یہ مجبوری محسوس ہوئی کہ ایوان کے اندر اپنی عددی اکثریت کو محفوظ رکھنے کےلیے پیپلزپارٹی کا پیچھا جاری رکھا گیا اور اس طرح سندھ میں مقیم میرے جیسے ووٹرز کی مسلم لیگ نواز کےلیے ہمدردیاں ماند پڑنے لگیں لیکن اب بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ امیدیں وابستہ کرنے کی کوئی منطق نہ تھی۔

حال ہی میں وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران محسوس کیا گیا کہ جس شہباز شریف نے آصف زرداری کو راستوں پر گھسیٹنے کی ٹھان رکھی تھی، دراصل اس کا اصل مقصد راستوں پر گھسیٹنا نہیں بلکہ راستوں پر گلے لگانا تھا اور اس طرح مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کی بڑھتی ہوئی رفاقتیں سندھ میں مسلم لیگ نواز کی تھوڑی بہت حمایت بھی ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئیں۔ 6 مارچ کو وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے میلسی میں جلسے کے دوران کی گئی فیصلہ کن تقریر نے سندھ میں مسلم لیگ نواز کو باضابطہ طور پر پیپلزپارٹی ہی کے برابر لاکر کھڑا کردیا۔ کیونکہ وزیرِاعظم کی اس تقریر میں انہوں نے واضح کہہ دیا تھا کہ ’’اگر میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچ جاتا ہوں تو سوچو تمہارا کیا ہوگا‘‘۔

سندھ کا ووٹر ہونے کی حیثیت سے مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ترجیحات سے بھی تاحال سندھ لاپتہ ہی رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے بعد پیپلزپارٹی کے خلاف آپریشن اور کرپٹ قیادت کے کڑے احتساب کا وعدہ سندھ کے لوگوں کےلیے بہرحال ایک امید کی کرن ضرور ہے۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس صورتحال میں ہوسکتا ہے سندھ کے بہت کم لوگ وزیرِاعظم عمران خان کی حمایت کرتے کیونکہ مہنگائی کے عتاب تلے زندگی گزارنے والی قوم کی طرح سندھ کے لوگ بھی اس نکتے کے باعث وزیرِاعظم کو پے در پے نشانہ بناتے رہے اور یہی وہ نکتہ تھا جس کو پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں کو دکھانے کےلبے اور وزیرِاعظم پر دباؤ ڈالنے کےلبے اپنی حمایت کے طور پر گنواتی آرہی تھی، جو زمینی حقائق کے منافی تھا۔

حال ہی میں عدم اعتماد کی کامیابی کےلبے ایوان کے اندر عددی اکثریت کو مزید مستحکم بنانے کےلبے اپوزیشن اور متحدہ کے مابین جس معاہدے پر دستخط کبے گئے اس کے بعد سندھ کے اندر صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس معاہدے کے ممکنہ نتائج کا سندھ کے لوگوں کو بخوبی اندازہ ہے کیونکہ وہ پہلے بھی متحدہ اور پیپلزپارٹی کے گٹھ جوڑ کے اسیر رہ چکے ہیں۔ اس معاہدے کی تکمیل میں مسلم لیگ نواز کی ’’خوش آئند ثالثی‘‘ نے سندھ کے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، جس کے باعث سندھ کے اندر پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ نواز کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آیا ہے۔

خیر منائے متحدہ اپوزیشن کی قیادت کہ اس تمام تر صورتحال میں سندھ کی کسی قوم پرست جماعت نے پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ اس نکتے پر اتحاد نہیں کیا، جس کے باعث سندھ میں پیپلزپارٹی کی رفاقت کی وجہ سے ان کی مخالفت دھیرے دھیرے پروان چڑھ رہی ہے۔ وگرنہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں اگر اس طرح کا کوئی قدم اٹھا لیتیں تو شاید ایک دم سندھ میں متحدہ اپوزیشن کے خلاف عوام ایک ہوجاتی اور وزیرِاعظم عمران خان یہ بازی لے جاتے۔

پیپلزپارٹی اور متحدہ کا اتحاد سندھ کے لوگ کسی صورت قبول نہیں کرتے اور اس معاہدے میں وہی نکات شامل ہیں جن پر سندھ کے لوگوں کو شدید تحفظات تھے۔ لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی سندھ کے لوگوں کے احتجاج کو اس لیے بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھتی کیونکہ ان کی سیاست کی بنیاد ہی ’’خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ‘‘ پر مبنی ہے۔ اس لیے میں سندھ کا ووٹر ہونے کی حیثیت سے متحدہ اپوزیشن کے سامنے اپنے تحفظات کے اظہار کی نیت سے کچھ اہم نکات کی نشاندہی کرنا لازم سمجھتا ہوں۔

30 مارچ 2022 بروز بدھ کو متحدہ کی اپوزیشن میں شمولیت والی پریس کانفرنس میں شہبار شریف نے کہا:

’’متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہونے والے اتحاد سے متعلق آصف علی زرداری، بلاول بھٹو کا خصوصی طور پر شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ان تمام مذاکرات میں اور ان تمام مشاورت کے اس عمل میں کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے اور وہ سفر کیا ہے؟ وہ پاکستان کی ترقی، وہ پاکستان کی خوشحالی، وہ سندھ کی ترقی، وہ سندھ کی خوشحالی، وہ کراچی کی ترقی، وہ کراچی کی خوشحالی۔ کل رات جب ہم سب اکٹھے ہوئے تو آخری لمحات میں ایم کیو ایم کی جانب سے یہ کہا گیا کہ بات بہت حد تک مکمل ہوچکی لیکن ابھی ایک دو پوائنٹس ہیں وہ بھی حل ہوجائیں گے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اسی وقت سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو نے دعوت دی ایم کیو ایم کو کہ آیئے دوسرے کمرے میں بیٹھ کر ان کو بھی طے کرلیں اور بیس منٹ کے اندر وہ معاملات طے ہوگئے اور اس کے بعد اس معاہدے پر تمام اکابرین نے دستخط کیے۔ یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے۔‘‘

1۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، سندھ اور کراچی کی ترقی و خوشحالی میں اس قدر کردار ادا کرتی ہے تو پھر مسلم لیگ نواز ہی کے گزشتہ دور میں وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کو یہ ضرورت پیش کیوں آئی کہ وہ انہی کے دور میں کراچی کے اندر رینجرز آپریشن کی مدد لیں؟

2۔ کیا شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ کراچی کے موجودہ پرامن حالات کا سہرا میاں محمد نواز شریف کے سر ہی جاتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ایک بات طے ہے کہ متحدہ کا پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدہ طے پانے میں ان کا پیش پیش رہنا سیاسی ضرورت ہے اور اس میں ان کی جانب سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے سندھ اور بالخصوص شہرِ کراچی کے تحفظ کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔

3۔ کیا شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں شہرِ کراچی ایک مرتبہ پھر کسی امتحان کی سکت رکھتا ہے؟

4۔ سندھ کے لوگ اپنے وجود میں بے حد مہمان نواز اور پیار کرنے والے ہیں لیکن ہمیشہ لسانیت کے نام پر ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور سندھ میں علیحدہ صوبے کے مطالبات کیے گئے۔ ہم کس بنیاد پر شہباز شریف کی ضمانت قبول کریں، اگر معاہدے کے اندر ہی اس طرح کے نکات زینت بنے ہوئے ہیں؟

5۔ اگر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے شہباز شریف کے بقول فراخ دلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے تو کیا وہ پہلے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کےلیے ایسا نہیں کرتے آئے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر شہباز شریف کی جانب سے سندھ میں کرپشن، ناانصافی، ناقص حکمرانی اور جاگیرداروں کی حکومت کو اپنے ہمراہ بٹھانے پر سندھ کے لوگ مسلم لیگ نواز کو اسی صف بندی میں رکھ رہے ہیں جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کو رکھا گیا ہے۔

6۔ محض 20 منٹ کے اندر متحدہ کے تمام تر مطالبات مانتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کا رضامند ہونا دراصل سندھ کے کروڑوں لوگوں کے ووٹ کی توہین تھا، جس پر شہباز شریف کی جانب سے فخر کا انداز اپنایا گیا۔

میری اس تحریر کا مقصد محض یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کو اس بات کا ادراک کرواؤں کہ کس طرح اس جماعت سے اپنی سیاست کے چکر میں غلطیاں سرزد ہوئیں جن کے باعث وہ اپنے ہمدردوں کا حلقہ کھو بیٹھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔