ماحولیاتی تبدیلی میں ہمارا کردار

محمد عارف میمن  پير 4 اپريل 2022
پاکستان دنیا کا ’’ڈسٹ بن‘‘ بن گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان دنیا کا ’’ڈسٹ بن‘‘ بن گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک وقت تھا کہ کچرے کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ ہر گھر سے صبح آفس جاتے ہوئے کوئی ایک شخص ہاتھ میں پلاسٹک کے تھیلے یا پھر ڈسٹ بن اٹھائے ایک مخصوص جگہ جاکر اسے پھینک دیا کرتا تھا۔ پھر ہم نے ترقی کی اور زیادہ تعلیم حاصل کرلی۔ اس کے بعد آج ہمارا جہاں دل کرتا ہے ہم وہاں کچرا پھینک کر خود کو معاشرے کا سب سے معزز شہری سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ ہی صورت حال آج کل ہمارے وطن عزیز کی بنی ہوئی ہے۔ پہلے ایک مخصوص تعداد تھی جو بہت کم کچرا پاکستان میں پھینکا کرتی تھی، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ جس کا جو دل کرتا ہے وہ اپنا کچرا پاکستان میں پھینک کر ڈالر بنانے میں لگا ہوا ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ لنڈا کے کپڑے، جوتے، جیکٹیں آتی ہیں۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی تھی، لیکن اب حد تو یہ ہے کہ زنانہ اور مردانہ انڈر گارمنٹس تک پاکستان میں پھینکے جارہے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ درحقیقت لوگ اپنی اتری ہوئی غلاظت بھی پاکستان میں پھینکنا ہی پسند کرتے ہیں، جس کی وجہ صرف ڈالر کمانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد استعمال شدہ الیکٹرونکس آئٹم جو گوروں کے کسی کام نہیں رہتے وہ بھی کافی عرصے سے پاکستان میں پھینکے جارہے ہیں۔ ان الیکٹرونکس آئٹم میں کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ، مختلف اسکرینز، موبائل فونز، فربج، اے سی، روم کولرز اور ٹی وی بھی شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر ہمارے ملک میں جو سب سے زیادہ کچرا آرہا ہے وہ چین کی طرف سے ہے، جس میں تمام اشیا کو وقتی طور پر کارآمد بنا کر پاکستان روانہ کردیا جاتا ہے۔

ہم اگر غور کریں تو یہ سارا کچرا، جسے ہم اپنی آرائش کا سامان کہتے ہیں، دراصل ایک پرکشش کاروبار بن چکا ہے۔ استعمال شدہ اور خراب کمپیوٹرز میں سے نکلنے والا سخت اور ناقابل استعمال پلاسٹک جہاں انسان کےلیے خطرناک ہے وہیں ماحول کےلیے بھی زہر قاتل کا کام کررہا ہے۔ یہ ہمارے لیے وقتی طور پر آسائش کا کام دیتے ہیں، تاہم جب یہ ہمارے کسی کام کے نہیں رہتے تو پھر یہ سامان ماحول کو تباہ کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔

کراچی سمیت پورے ملک میں اس وقت ایسے کارخانے وجود میں آچکے ہیں جو اسکریپ کا کام کررہے ہیں۔ اس کاروبار سے جڑے ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو اس نے جو انکشاف کیے وہ انتہائی چونکا دینے والے تھے۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہم دبئی کے ذریعے استعمال شدہ کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ و دیگر الیکٹرونکس آئٹم پاکستان لے آتے ہیں۔ اس کے بعد اس کاروبار سے جڑے دوسرے لوگ اس سامان کو فروخت کرتے ہیں۔ تیسرا گروپ اسی سامان کو واپس لانے کا کام کرتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح دی کہ دبئی سے میں نے ایک استعمال شدہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ منگوایا۔ میں نے اپنا کمیشن رکھ کر اسے دوسرے گروپ کو سونپ دیا۔ اس نے اپنا کمیشن رکھ کر مارکیٹ میں بیچ دیا۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مدت کتنی ہے اور یہ کب تک خراب ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہمارا تیسرا گروپ اس خراب کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کو خریدنے کا کام کرے گا۔ پھر وہ اس میں سے کام کی چیزیں الگ کرکے باقی پھر سے مارکیٹ میں فروخت کردے گا اور اس میں سے نکلنے والا پلاسٹک جو ناقابل استعمال ہوتا ہے وہ یا تو رات کی تاریکی میں جلا دیا جائے گا یا پھر کہیں کسی گراؤنڈ یا کچرا کنڈی میں پھینک دیا جائے گا۔ ہمارا کام بھی ہوگیا اور اس سے جڑے لوگوں کا کام بھی ہوگیا۔

وہ شخص یہ تو بتاکر چلا گیا، لیکن اسے اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور کاروبار کی خاطر پاکستان کو کتنا نقصان پہنچارہا ہے۔ میں نے بلدیہ میں اس طرح کے کئی کارخانے دیکھے ہیں جو غیر قانونی طور پر گھروں میں بنے ہوئے ہیں۔ وہاں خراب ایل سی ڈی میں سے ایکس رے ٹائپ کی پلاسٹک شیٹس جو کسی کام کی نہیں ہوتی، اسے الگ کرکے پھینک دیا جاتا تھا۔ اسی طرح ایل سی ڈی کی باڈی ٹھوس پلاسٹک سے بنی ہوتی ہے، وہ بھی کسی کام کی نہیں ہوتی، اسے بھی الگ کرکے کھیل کے گراؤنڈ میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد رات کی تاریکی میں یا تو اسے آگ لگا دی جاتی ہے یا پھر یہ پلاسٹک کی شیٹس کھلے مین ہولز کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اگر یہ جل جائے تو ماحول کو انتہائی زہریلا مواد مل جاتا ہے، اور اگر جلنے سے بچ جائے تو سیوریج کی تباہی کا باعث بن کر زمین کو گندا کرنے کا کام کرتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ ماحول پر بری طر ح اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ سب پاکستان میں کیوں ہورہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں دنیا کے تمام قوانین تو موجود ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہر مفاد پرست اپنے مفادات کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے میں جتا رہتا ہے۔ کل تک جن کے پاس سائیکل نہیں تھی، آج وہ لوگ بھی کروڑپتی بنے ہوئے ہیں۔ وجہ صرف قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ اسی طرح کراچی کا سب سے بڑا گاربیج پوائنٹ بھی بلدیہ ٹاؤن میں واقع ہے، جہاں ساؤتھ، کیماڑی، ویسٹ اور بلدیہ کا کچرا لاکر پھینکا جاتا ہے۔ یہاں ایک لمبے عرصے سے اس کچرے کو جلاکر ماحول کو آلودہ کیا جارہا ہے۔ یہاں اسپتال کا خطرناک ترین فضلہ تک بھی پھینکا جارہا ہے اور اس گاربیج کے آس پاس رہنے والی آبادی آئے روز نت نئی بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہی ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر اس سلسلے میں آج تک کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس گاربیج پوائنٹ کو شہر سے باہر بنایا جاتا۔ لیکن افسوس کہ یہ شہر کے اندر اور رہائشیوں کے بیچ میں آج بھی موجود ہے۔

پاکستان میں ہر چیز کا باآسانی سے مل جانا خدا کی ایک نعمت ہے۔ لیکن ہم اپنی کم عملی اور جاہلیت کے باعث اس نعمت کو زحمت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم نے اپنا سب کچھ تباہ کردیا۔ ہم نے تعلیم تباہ کردی، ہم نے سیوریج سسٹم تباہ کردیے، ہم نے پانی کی تقسیم کا نظام ٹینکرز پر منتقل کردیا، ہم نے گھروں کے آگے اسپیڈ بریکرز کی آڑ میں سڑکیں اور گلیاں تباہ کردیں۔ چین سے پے درپے معاہدے کرکے اپنی ہی معیشت کو زمین میں دفن کردیا۔ ترقی کے نام پر درختوں کو زمین سے اکھاڑ دیا۔ پانی کی عیاشی کےلیے گھروں میں کنویں کھدوا کر زمین کو بنجر بنادیا۔ گھر اور کارخانے کا کچرا اپنی مرضی کی جگہ پر پھینک کر خوبصورتی کو تباہ کردیا۔ مطلب ہم نے ہر وہ چیز تباہ کردی اور کررہے ہیں جس سے ہمیں سکون مل رہا تھا۔ ہم نے وقتی پریشانی سے بچنے کےلیے اپنے لیے خود اذیتیں پیدا کی ہیں۔ اگر قصوروار ادارے ہیں تو بے قصور ہم بھی نہیں۔ ماحول کی تباہی اور ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔

اب ہم کیا کرسکتے ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہم خود کو بدل کر ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں ایسے معاہدوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس سے پاکستان دنیا کا ’’ڈسٹ بن‘‘ بن گیا ہے۔ ایسے معاہدے فوری طور پر ختم کردینے چاہئیں۔ پھر ایسے کارخانوں کو بند کردینا چاہیے جو گھروں میں چل رہے ہیں، جن سے ماحول پر اثر پڑ رہا ہے۔ ہم کسٹم کے ذریعے ایسے تمام کنٹینرز کو روک سکتے ہیں جن سے ماحول پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ہم پرانے کپڑے، انڈرگارمنٹس، جوتے، بیگس، جیکٹس اور الیکٹرونکس آئٹم پر پابندی نہیں لگا سکتے تو کم از کم تعداد میں منگوانے کے آرڈر کرنے ہوں گے۔ ساتھ ہی ہمیں ایسی مارکیٹیں تلاش کرنی ہوں گی جہاں ہم ان اسکریپ کو واپس بیچ سکیں، یا کم از کم انہیں ضائع کرنے کےلیے ایسی مشینریاں درآمد کرنی ہوں گی جو ماحول دوست ہوں۔ اور آخر میں ہمیں خود کو بھی بدلنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے اس وقت تک ہم مزید تباہی کی جانب بڑھتے رہیں گے۔ اس سے پہلے کے دیر ہوجائے ہمیں اپنے بہتر کل کےلیے اٹھنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔