- بار بی کیو بنانے کیلئے جھاڑن کا استعمال، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید
- ڈیمنشیا کے مریض موت سے پہلے نارمل کیوں ہوجاتے ہیں؟
- اے آئی کی تیار کردہ جعلی تصاویر، ویڈیوز کیسے شناخت کریں؟
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے نئے ٹیکس اقدامات پر بریفنگ مانگ لی
- رفح پر اسرائیلی حملے سے حماس ختم نہیں ہوگی، امریکا
- مسلح ملزمان نے سابق ڈی آئی جی کے بیٹے کی گاڑی چھین لی
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
- کراچی ایئرپورٹ پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کا افتتاح،پہلی پرواز عازمین حج کو لیکر روانہ
- شمسی طوفان سے پاکستان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے، سپارکو
- سیاسی جماعتیں آپس میں بات نہیں کریں گی تو مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلاول
- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سوشل میڈیا تو معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف پی بی اے و دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے میں 94 ہزار کیسز ہیں، 22 ہزار کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کی اتنی استعداد ہی نہیں ہے وہ اتنے تربیت یافتہ ہی نہیں ہیں، ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے مخصوص کاروائیاں کیں۔
قاسم ودود نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو قانون میں موجود رہنا چاہیے، یہ صرف پاکستان میں نہیں دیگر ممالک میں بھی کچھ پابندیوں کے ساتھ موجود ہے، پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتیات یا انکے رشتے داروں پر حملے نہیں ہونے چاہئیں، جو خرابیاں سامنے آئیں گی انکو وقت کے ساتھ ختم کیا جا سکے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا تو معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے، بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دیدیں تو وہ خطرناک ہے، سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے، اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے، ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے ان اقدامات کی وجہ سے قانون کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کی فیملی کی تصویریں اجازت کے بغیر شیئر کر دی جائیں تو وہ سنجیدہ معاملہ ہے، سوشل میڈیا میں کسی کو بہکایا اور دھمکایا جائے تو وہ بھی اسی میں آتا ہے، بہکانے اور دھمکانے کی الگ سے سیکشن کیوں نہیں بنا دی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سے زیر سماعت تمام کیسز میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے تمام کیسز کی رپورٹ کل عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔