عمران کا تیسرا لفافہ

جمیل مرغز  پير 11 اپريل 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

عمران کے لیے ‘آخرکار تیسرا لفافہ پارلیمنٹ کو کھولنا پڑا۔عمران کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ایک بات مجھے حیران کر رہی ہے ‘عمران خان کا سارا زور اس بات پر رہا کہ چونکہ میں آزاد خارجہ پالیسی اور ریاست مدینہ کا حکمران تھا ‘اس لیے امریکا کو پسند نہیں تھا اور انھوں نے پیغام دیا ہے کہ میری حکومت ختم کی جائے ورنہ پاکستان کا حشر خراب ہوگا۔

حزب اختلاف نے امریکی سازش کی بناء پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ‘ یہ عدم اعتماد چونکہ بیرونی سازش کی بناء پر پیش کی گئی تھی‘ اس لیے ووٹنگ کے بغیر اس کو ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ذریعے ختم کردیا گیا۔امریکا کی مبینہ دھمکی کے خلاف تحریک انصاف کے کارکن مظاہرے بھی کر رہے تھے ‘حیرانی کا مقام ہے‘کہ اتنی تکالیف اٹھانے کے بعد بھی عمران خان نے وہی کام کیا جس کا مطالبہ امریکی کر رہے تھے ‘یعنی اپنی حکومت ختم کردی‘اس طرح تو انھوں نے امریکی مطالبہ پورا کردیا ۔

محترم شہباز گل نے ایک دفعہ صحیح کہا تھا کہ ’’عمران خان ایسے شخص ہیں کہ مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو وہ سونا بن جاتی ہے ‘‘۔جب سے میں نے بیان پڑھا ہے تو سوچ رہا ہوں کہ اس بیان کا مطلب کیا ہے؟جب زیادہ غور کیا تو شہباز گل سے متفق ہونے کو جی چاہا‘خان صاحب کے آنے سے قبل آٹا 40روپے کلو تھا ‘خان صاحب نے ہاتھ لگایا تو آٹا سونا بن گیا اور اب آٹا 80روپے فی کلو گرام سے بھی زیادہ ہو گیا۔

چینی پہلے 55روپے کلو تھی اب چینی سونا بن کر 140روپے سے اوپر ہوگئی ‘کھانے پکانے کا تیل خان صاحب کا ہاتھ لگانے سے 170روپے سے 450روپے سے 500 فی لٹر ہو گیا ‘مٹر‘ٹماٹر‘آلو‘ بھنڈی اور کریلے تو اپالو پر بیٹھے ہیں اور زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں ‘پٹرول ‘ڈیزل اور مٹی کے تیل کا حال مت پوچھو ‘دل دہل جاتا ہے۔

واقعی خان صاحب کے ہاتھ لگانے سے ہر چیز مٹی سے سونا بن گئی ہے۔یہ تو بے جان چیزیں ہیں ‘اگر خان صاحب  کے ہاتھ کے کرشمے دیکھنے ہوں توانسانوں کو بھی دیکھیں کہ کیسے سونا بن گئے ‘معید یوسف کو دیکھ لیں‘ندیم بابر کو دیکھیں ‘ زلفی بخاری‘ ڈاکٹر ظفر مرزا وغیرہ کو دیکھیں ‘شہزاد اکبر کیسے پاکستان کے طاقتور ترین انسان بن گئے اور جناب شہزاد گل صاحب بھی ہاتھ لگانے سے کندن بن گئے۔

اس طرح بہت سے افراد جن کا کسی نے نام نہیں سنا تھا اور نہ ہی وہ پاکستان کے رہنے والے تھے‘  خان صاحب نے ہاتھ لگا کر ان کو مٹی سے سونا بنادیا ‘ان کی پارٹی کے پاکستان سے منتخب ممبران اسمبلی منہ تکتے رہ گئے کیونکہ ان کو خان صاحب نے ہاتھ نہیں لگایا تھا‘ بلکہ وہ راندہ درگاہ تھے۔

عمران خان اسلام اور ریاست مدینہ کا ذکر بہت کرتے ہیں‘اس کے متعلق ان کے ایک مداح نے لکھا تھاکہ ’’گزشتہ سوا تین سال سے ریاست مدینہ کے دعویداروں نے اتنی تقریریں کیں کہ جنرل ضیاء الحق کی یاد تازہ ہوگئی ۔ خان صاحب اکثر حضرت عمر ؓکی مثالیں دیتے ہیں۔اطلاعاً عرض ہے کہ حضرت عمر ؓ کی سلطنت کا رقبہ 20پاکستانوں سے بڑا تھا۔

انھوں نے جرم ثابت ہونے پر اپنے بیٹے کو بھی کوڑے مارے ‘یہ نہیں کہ ہیلی کاپٹر کیس‘مالم جبہ‘بی آر ٹی‘آٹا گندم‘ چینی‘پٹرول گھپلوں‘نجی بجلی گھر ڈاکوں پر آنکھیں موند لی جائیں‘ حضرت عمر تین سو کنال کے گھر میں نہیں رہتے تھے ٗوہ سرکاری خرچ پر روزانہ دفتر سے گھر ہیلی کاپٹر میں نہیںآتے جاتے تھے،انھوں نے ہر عہدہ میرٹ پر دیا‘کبھی کسی عہدے پر کسی لاڈلے کو نہیں بٹھایا۔

عمران خان صاحب کی طرز حکومت بڑی دلچسپ تھی‘شاید انھوں نے یہ لطیفہ پڑھا تھاجو امریکا میںبہت مشہور ہے ‘کہتے ہیں کہ ایک امریکی صدر صاحب اپنے انتخاب کے بعد اپنے پیش رو صدر صاحب کے پاس گئے اور ان سے کسی شدید بحران کی صورت میں اس کو ٹالنے کے لیے کچھ مشورے مانگے ‘جانے والے صدر صاحب نے وائٹ ہائوس کے اوول آفس کی میز کی دراز سے تین لفافے نکالے ‘ان لفافوں پر 1-2-3 کے نمبر لکھے ہوئے تھے۔

اس نے یہ لفافے نئے صدر صاحب کے حوالے کیے ‘اس کے ساتھ انھوں نے یہ ہدایت بھی دی کہ اگر ملک میں کوئی بحران پیدا ہوجائے تو صرف ایک لفافہ کھولیں‘صرف یہ خیال رہے کہ لفافے نمبر وار کھولنے ہیں‘پہلے بحران کے وقت صرف لفافہ نمبر1‘ دوسرے بحران کے وقت لفافہ نمبر2 اور خدانخواستہ کوئی تیسرا بحران آجائے تو لفافہ نمبر3 کھولیں ’ اگر غلط لفافہ کھولا گیا تو نتیجے کی ذمے داری ان پر ہوگی۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتے بعد ملک میں ایک خطرناک بحران پیدا ہوا ‘جب بحران ٹالنے کے تمام طریقے ناکام ہوگئے تو صدر صاحب نے آخری حل کے طور پر میز کا دراز کھولا اور لفافہ نمبر1 نکالا ‘لفافہ کھولا تو ایک چٹ نکلی جس پر سابق صدر نے نئے صدر کو مشورہ دیا تھا کہ ’’اس بحران کا ملبہ میرے اوپر ڈال دو‘‘۔صدر صاحب نے اس مشورے پر فوراً عمل کیا اور بحران کی ذمے داری سابقہ صدر پر ڈال دی ‘ یوں وہ اس بحران کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ‘وہ سابقہ صدر کی دانش کا قائل ہو گیا۔

کچھ عرصے کے بعد ملک کو ایک اور بحران نے گھیر لیا‘جب یہ بحران بھی شدید تر ہوگیا تو صدر صاحب نے پھر لفافہ نمبر 2کھولا‘اس میں سابقہ صدر صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ ’’اس بحران کا ذمے دار کانگریس کوٹہرائو ‘‘اس نے مشورے پر عمل کیا اور بحران کی ذمے داری کانگریس پر ڈال دی ‘بحران تو ٹل گیا لیکن ملک کو بہت نقصان پہنچا‘کچھ عرصہ اور گزر گیا اور اس کی حکومت کو ایک اور بحران کا سامنا ہوا‘وہ جلد اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا تھا‘اس نے میز سے لفافہ نمبر 3 نکالا ‘جب لفافہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ’’ ملک آپ سے نہیں سنبھالا جائے گا ‘اب وقت آگیا ہے کہ آپ اگلے صدر کے لیے تین لفافے تیار کریں‘‘۔

عمران خان نے ابتداء سے ہی اس لطیفے کے مطابق عمل کیا‘انھوں نے اقتدار میں آنے سے قبل دعوی کیا تھا کہ ان کی پارٹی نے ملک کے بہترین دماغ اکٹھے کرکے ایک بہترین ٹیم بنائی ہے‘ جو حکومت میں آنے کے بعد ملک کے سارے مسائل اگلے سو دن میں حل کرلے گی ‘اس ٹیم میںان کے مطابق سر فہرست اسد عمر تھے،جن کا پاکستانی عوام سے تعارف یوں کرایا گیا کہ وہ عالمی سطح کے معیشت دان اور ملک کے معاشی مسائل چند مہینوں میں حل کردیں گے لیکن ہوا یہ کہ ملک معاشی بحران میں مبتلا ہو گیا۔

ان کے بعد تین چار وزرائے خزانہ کو تبدیل کیا گیا مگرملک مہنگائی اور بیرونی قرضوں کی لپیٹ میں آتا گیا‘جیسے جیسے مہنگائی اور بیرونی قرضے بڑھتے گئے ‘ویسے ویسے عمران خان کا یہ نعرہ بلند ہوتا گیا کہ یہ سب مسائل سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔وہ تسلسل کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کو اپنی حکومت کے مسائل کا ذمے دار گردانتا رہااور تحریک انصاف کے کارکن ان کے نعروں پر بھنگڑے ڈالتے رہے۔

اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا‘عمران خان مسلسل تین سالہ اقتدار کے دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو چور اور ڈاکو کے القاب سے یاد کرتے رہے ‘جلسوں میں بہت برے الفاظ میں ان لیڈروں کو یاد کرتے رہے ‘مسلسل نیب کے ذریعے مخالفین کو جیلوں میں ڈالتے رہے۔

امریکا کے دور ے میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پاکستان جاکر نواز شریف کی جیل کوٹھڑی سے ائر کنڈیشنڈ ہٹائوں گا‘تین ساڑھے تین سال ‘چور چور اور ڈاکو ڈاکو اور نیب کے مقدموں میں گزر گئے ‘نتیجہ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق نہ پیسے ملے اور نہ چوروںکو سزا ہوئی بلکہ الٹا ان کی چوری ڈھونڈنے کی چکر میں اربوں روپے پاکستان اور برطانیہ میں براڈ شیٹ پرخرچ کرنے پڑے۔جب اپنے اور پرائے لوگ تنگ آگئے تو حزب اختلاف نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کرادی۔

اب عمران خان نے دوسرا لفافہ کھولا‘ جس میں لکھا تھا کہ الزام اسمبلی اور امریکا پر ڈال دو‘انھوں نے فوراًالزام حزب اختلاف اور امریکا پر لگا دیا ‘اب ہر وقت امریکی سازش کا تذکرہ ہونے لگا اور چور اور ڈاکو کی گردان ختم ہوگئی۔

اب کسی طرح عمران خان نے غیر آئینی طریقے سے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے عدم اعتماد کو بیرونی سازش کہہ کر ختم کرا دیا اور کیس سپریم کورٹ میں چلا گیا ۔سپریم کورٹ کے حکم سے پریشان ہوکر عمران خان نے تیسرا لفافہ کھولا‘اس میں لکھا تھا کہ قوم پر رحم کرو‘تم حکومت کے قابل نہیں ہو اب جائو اور اس طرح موصوف ایوان وزیراعظم خالی کرکے اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔