پی پی متحدہ مفاہمت، صوبائی ضرورت

محمد سعید آرائیں  منگل 12 اپريل 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوگئے ہیں جس پر آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے دستخط کیے ہیں۔ اس سے قبل بھی متحدہ نے حکومتوں میں شرکت کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاہدے کیے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مسلم لیگ (ق) کی حکومتوں میں بھی شامل رہی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان 2015کے بعد دوبارہ پیپلز پارٹی کے قریب آئی ہے اور وہ سندھ حکومت میں شامل نہیں رہی ،کیونکہ 2018 میں وفاق میں پی  ٹی آئی کی حکومت بنی تو متحدہ پہلی بار اس عمران خان کی اتحادی بنی جو پہلے متحدہ کے سخت خلاف تھے ، مگر یہ متحدہ اپنے بانی سے جدا ہو چکی تھی۔

متحدہ کو پہلے پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں شکایات رہیں کہ ان کی حکومتوں میں شمولیت کے باوجود ان سے کیے گئے وعدے دونوں پارٹیوں نے پورے نہیں کیے اور دونوں پارٹیوں کو بھی متحدہ سے شکایات رہیں اور اسی وجہ سے مسلم لیگ ن حکومت میں سندھ میں گورنر راج بھی لگا تھا۔

صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ایم کیو ایم 5 سال تک وفاق اور سندھ میں اہم حکومتی اتحادی تھی اور جنرل پرویز مشرف کا دور متحدہ کے لیے بہترین دور تھا جب متحدہ کو کراچی کی ترقی کے لیے بھرپور فنڈز ملے تھے۔

اپنے بانی سے علیحدگی کے بعد پہلا موقعہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اعلیٰ سطح پر سندھ میں بارہ سال سے برسر اقتدار پی پی کی قیادت اور متوقع وزیر اعظم (ن) لیگ کے شہباز شریف کے ساتھ معاہدہ کیا جس پر مولانا فضل الرحمن کے بھی دستخط ہیں اور بلوچستان کے خالد مگسی اور اختر مینگل بھی اس معاہدے کے گواہ ہیں اور چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت بھی اس معاہدے میں شامل ہے جس سے ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقعہ ملا ہے۔

ماضی میں متحدہ کے بقول سازش کے تحت دوسری قومیتوں سے لڑایا گیا مگر اب متحدہ دوسری قومیتوں کے ساتھ آ ملی ہے جس کی پی ٹی آئی کو سیاسی تکلیف اور نقصان ہوا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت متحدہ کے دو ووٹوں کے باعث قائم تھی مگر پی ٹی آئی حکومت نے متحدہ کو اہمیت دی نہ متحدہ سے کیے گئے معاہدے پر مکمل عمل کیا نہ کراچی کے لیے اپنے اعلانات پر عمل کیا۔

موجودہ ایم کیو ایم پاکستان ماضی سے مختلف اس لیے بھی ہے کہ وہ اب ماضی کی مضبوط متحدہ باقی نہیں رہی ہے اور پی ایس پی بنائے جانے سے سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے اور پی ایس پی قیادت متحدہ کے متحدہ اپوزیشن سے ملنے کے بعد اس پر الزامات لگا رہی ہے کہ اس نے مہاجروں کا سودا کردیا ہے۔ پی ایس پی مہاجر سیاست سے بالاتر ہو کر سیاست کی دعویدار ہے اور جب ایم کیو ایم قومی دھارے میں آئی ہے تو اس کی ستائش کرنے کے بجائے پی ایس پی اس پر الزامات لگا رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں نے متحدہ کے ساتھ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جو سیاسی پارٹیاں ماضی میں ایم کیو ایم کی سیاسی مخالف تھیں ان سب سے متحدہ اپنے تعلقات بہتر بنا چکی ہے اور اس نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بڑی سیاسی مفاہمت کی ہے۔ سندھ دیہی اور شہری سیاست میں تقسیم ہے اور پی پی اور ایم کیو ایم سندھ کی دو اہم سیاسی طاقتیں ہیں جب کہ پی ایس پی کی کوئی پارلیمانی طاقت نہیں ہے مگر اس سے متحدہ کو سیاسی نقصان ضرور پہنچا ہے۔

پی پی دیہی سندھ کی اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی سیاسی اور نمایندہ جماعتیں ہیں۔ دونوں ماضی میں بھی اتحادی رہی ہیں۔ بلاول بھٹو نے پہلے بھی ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی مگر یہ موقعہ اب آیا ہے اور ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس کو بلاول بھٹو سمیت سب نے کراچی، سندھ اور پاکستان کے لیے سود مند قرار دیا ہے اور یہ سندھ کے لیے سب سے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ آصف زرداری کے دور میں سندھ میں کوئی لسانی فساد نہیں ہوا اور دونوں پارٹیاں مستقبل میں اگر معاہدے پر عمل کریں تو سندھ کی تقسیم کی باتیں ختم ہو سکتی ہیں۔

شہری اور دیہی سندھ نے آیندہ بھی متحد رہنا ہے تو دونوں کو زمینی حقائق تسلیم کرتے ہوئے اس باہمی مفاہمت پر مکمل عمل کرکے اسے کامیاب بنانا اور ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنا ہوگا اور منصفانہ انتخابات ان کے آیندہ مینڈیٹ کا فیصلہ کریں گے جس کے لیے حقیقی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ دونوں کی باہمی مفاہمت سندھ میں امن برقرار رکھنے، ایک دوسرے کو دل سے تسلیم کرلینا صوبے کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔