سابقہ حکومت پر الزام تراشی سے بہتر، کام کیا جائے!

علی احمد ڈھلوں  منگل 12 اپريل 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بالآخر وزیراعظم عمران خان ساڑھے تین سال کی ہنگامہ خیز حکومت کے بعد ’’مسائل ‘‘ کی سونامی میں بہہ گئے۔ انھیں اس سونامی سے بچاؤ کی تراکیب سوچنی چاہیے تھیں، انھیں پیشگی اقدامات کرنے چاہیے تھے، انھیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ہر سیلاب، ہر طوفان اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا۔ مگر طوفان نے انھیں ایسا گھیرا کہ وہ بچ نہ سکے اوراس لیے انھوں نے اپنے دامن کو لہروں کے سپرد کردیا۔

افسوس تو اس بات کا ہوا کہ جمہوری وزیراعظم ایک بار پھر ناکام ہوا اور ایسا ناکام ہوا کہ اب اگلے کئی سال تک دوبارہ اس پر کمزور ہونے کی چھاپ برقرار رہے گی۔ مثلاً اس جمہوری ادارے میں جہاں بھات بھات کی بولیاں بولنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں‘ اقتدار میں آنے کے بعد کبھی عدالتوں کے ذریعے گھروں کو جاتی رہیں،تو کبھی فیصلہ کرنے والی قوتوں کے ذریعے تو کبھی عالمی سازشوں کے ذریعے انھیں اقتدار چھوڑکر جانا پڑتا رہا۔

جیسے 75سالوں میں 29وزیر اعظم آئے لیکن ایک بھی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسے سیاسی اداروں کے کمزور ہونے کا عندیہ کہیں یا سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے یہ جمہوریت آج بھی بری طرح پٹ رہی ہے۔ورنہ دنیا بھر میں سیاسی ادارے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ آنکھیں بند کرکے پورے کا پورا ملک اُن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں ایک وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے تو دس ادارے اور دس بڑے ممالک اُس پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں یہ اُن کے مفادات کے خلاف کام تو نہیں کر رہا۔ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔

خیر تحریک انصاف کی حکومت کیوں ختم ہوئی اس پر تو آیندہ بھی بحث ہوتی رہے گی مگر اُمید تو یہی ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لہٰذا نئی حکومت کے بننے کے بعد اصل کام شروع ہوگا۔ اس نئی حکومت میں یقینی طور پر 12وزارتیں ن لیگ کے حصہ میں آئیں گی، جب کہ 7وزارتیں پیپلزپارٹی کے حصہ میں آئیں گی۔ اور بقیہ چند ایک وزارتیں دیگر اتحادیوں کے حصہ میں آئیں گی۔

لیکن یہاں یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت کے اگلے 18ماہ اتنے آسان نہیں ہوںگے۔ کیوں کہ معیشت ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ پھر آگے فوری طور پر بجٹ آنے والا ہے، شہباز شریف ایک تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں، تین تین دفعہ حکومتیں کر چکے ہیں، اور جن جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی ہے، انھوں نے 35سال اس ملک پر حکومت کی ہے۔ پھر آپ کے پاس ایک تجربہ کار ٹیم ہے، شہباز شریف تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، آپ کے بڑے بھائی تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔پیپلزپارٹی بھی تین بار حکومت میں رہ چکی ہے۔

انھیں تو حکومت چلانے کا 1971سے تجربہ ہے۔ اُن کے پاس بھی ہر قسم کی ٹیم موجود ہے۔ اُن کے پاس تو گیلانی و پرویز اشرف کی صورت میں دو سابقہ وزرائے اعظم بھی موجود ہیں، پھر سندھ میں اُن کے پاس 15سال سے حکومت ہے۔ اس لیے انھیں اب کسی صورت یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پچھلی حکومت نے یہ کیا وہ کیا وغیرہ۔ یعنی اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نئی بننے والی حکومت ہر چیز کا ملبہ عمران خان پر ڈال کر معیشت کی مزید تباہی کا باعث بنے۔ جب کہ اس کے برعکس عمران خان کو تو پہلی بار حکومت ملی تھی، وہ تو خود کہتے تھے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی۔ اس لیے انھیں چھوڑ کر ہمیں آگے کی جانب دیکھنا ہوگا اور مسائل کے حل کی بات کرنا ہوگی۔

لہٰذا نئی نویلی حکومت کے بارے میں اگر بات کی جائے تو اسے سب سے بڑا چیلنج معاشی بدحالی کا ہوگا۔ اس وقت معاشی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے۔ ڈالر آسمان کی بلندی پر اور قرضوں کا بوجھ عوام پر۔ ملک پر سوا سو ارب ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جب کہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت کا مزید جنازہ نکلے گا۔

افسوسناک خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تجارت کے فروغ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے ان 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دباؤ ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، انگولا اور کولمبیا شامل ہیں۔

بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.9ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور 25مارچ 2022کو اسٹیٹ بینک کے ذخائر 14.9 ارب ڈالر سے گرکر 12ارب ڈالر کی نچلی سطح تک پہنچ گئے جب کہ اس دوران کمرشل بینکوںکے ڈپازٹس 6.5ارب ڈالر رہے ، اس طرح پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر5.19فیصد کمی کے ساتھ 18.5رب ڈالر رہ گئے جو فروری 2022میں 22.6ارب ڈالر تھے۔

قرضوں کی حالیہ ادائیگیوں میں 2.5ارب ڈالر چین کا قرضہ شامل ہے جس کو سابق وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ چین میں رول بیک کرنے کی درخواست کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ چین اس قرضے کو مزید ایک سال کے لیے رول بیک کردے گا۔ چین پہلے بھی 2 ارب ڈالر کا قرضہ رول بیک کرچکا ہے۔

اس طرح چین کے مجموعی 4.5ارب ڈالر کے قرضے مزید ایک سال کے لیے رول بیک ہوجائیں گے۔ یاد رہے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے وقت چین نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ 31 دسمبر 2021 تک کے لیے دیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے نان پیرس کلب ممالک سے 16ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں جن میں چین سے گزشتہ 3سال میں لیے گئے 14.8ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جب کہ پاکستان نے مختلف انٹرنیشنل کنسوریشمز اور بینکوں سے 10.8ارب ڈالر کے قرضے بھی لیے جس میں چین کے 2.5ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جس سے پاکستان کے مجموعی قرضے 127ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

پھر دوسری طرف سفارتی محاذ پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ چین سی پیک کی رفتار سست ہونے سے پریشان ہے۔ امریکا، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے جب کہ یورپی یونین کی بھی کم و بیش پاکستان کے بارے میں وہی رائے ہے، جو امریکا کی ہے۔اس کے علاوہ سب سے بڑا چیلنج میری نظر میں عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے عوام کا روٹی، کپڑا اور مکان تب بھی مسئلہ تھا اور اب بھی ہیں۔ خدارا کوئی ان کے بارے میں سوچیں، ورنہ اس نظام سے ان کا رہا سہا اعتبار بھی اٹھ گیا تو پھر کوئی بھی نظام اس ملک کو نہیں چلا پائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔