جامعہ کراچی میں انشورنس، رجسٹریشن نہ ہونے سے 8 نئی بسیں بیک یارڈ کی زینت بن گئی

صفدر رضوی  بدھ 13 اپريل 2022
کیمپس کے اندر ایک شٹل سروس بند ہوگئی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

کیمپس کے اندر ایک شٹل سروس بند ہوگئی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

 کراچی: جامعہ کراچی کے شعبہ فنانس کی غفلت و لاپرواہی اور فنانشل منیجمنٹ سے عدم آگہی اپنے عروج پر جا پہنچی ہے، ’’ایکسپریس‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ایچ ای سی کی خصوصی گرانٹ سے خریدی گئی 8 نئی بسیں رجسٹریشن اور انشورنس نہ ہونے کے سبب یونیورسٹی کے شعبے ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کئی ماہ سے کھڑی ہیں۔

تقریباً 10 کروڑ روپے سے خریدی گئی ان نئی 8 بسوں کی انشورنس اور رجسٹریشن کی مد میں تقریباً 80 لاکھ روپے کی رقم درکار ہے اور 14 کروڑ روپے سے لیوو انکیشمنٹ جاری کرنے والا شعبہ فنانس طلبہ کے لیے خریدی گئی ان بسوں کے لیے 80 لاکھ روپے جاری کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے باعث یہ نئی بسیں شہر کے مختلف علاقوں کو چلنے والی جامعہ کراچی کی شٹل سروس کے ’’فلیٹ‘‘ میں شامل نہیں ہو پا رہی۔

ادھر دوسری جانب کیمپس کے اندر چلنے والی شٹل سروس میں سے ایک سافیر نامی کمپنی نے اپنی خدمات ختم کر دی ہیں جبکہ این ٹی ایس ٹیکنالوجیز کے نام سے دوسری کمپنی الیکٹرک آپریٹریڈ صرف 4 شٹل کارٹ چلا رہی ہے اور یوں جامعہ کراچی کے 42 ہزار طلبہ کے لیے کیمپس کے اندر 4 شٹل کارٹ اور کیمپس سے باہر صرف 22 بسیں دستیاب ہیں۔

آٹھ نئی بسوں کی خریداری کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ سے جامعہ کراچی کے معتبر ترین ذرائع نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ سابق وائس چانسلر مرحوم ڈاکٹر اجمل خان کے دور میں سال 2017 میں ایچ ای سی نے 10 نئی بسوں کی خریداری کے لیے 8 کروڑ روپے جاری کیے تھے اور اس وقت ایک بس کی قیمت 85 لاکھ روپے تھی تاہم یونیورسٹی کے شعبہ فنانس کی جانب سے بسوں کی فوری خریداری کے بجائے اس رقم کو متعلقہ مد میں استعمال ہی نہیں کیا گیا اور بسوں کی قیمت ڈالر کی اڑان کے سبب مسلسل بڑھتی رہی۔

اس دوران یونیورسٹی کے محکمہ ٹرانسپورٹ میں تبدیلی آئی اور نئے سیکریٹری ٹرانسپورٹ قدیر محمد علی نے جب بسوں کی خریداری کے سلسلے میں شعبہ فنانس سے استفسار کیا تو ایک بس کی قیمت 85 لاکھ سے 1 کروڑ 20 لاکھ جاچکی تھی جس کے سبب دستیاب فنڈز سے 10 کے بجائے صرف 8 بسیں ہی خریدی جاسکیں اور یونیورسٹی خطیر رقم کی دو بسوں سے محروم ہوگئی جبکہ جو 8 بسیں خریدی گئی ہیں وہ بھی ایچ ای جے کے بیک یارڈ میں کھڑی ہیں۔

جامعہ کراچی کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے سیکریٹری ڈاکٹر قدیر محمد علی نے ’’ایکسپریس‘‘ کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’’ان نئی بسوں کو بغیر رجسٹریشن سڑک پر نہیں لاسکتے، ہم نے اس سلسلے میں ڈائریکٹر فنانس سے بات کی ہے اور امید کہ اب جلدی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوگی‘‘۔

جامعہ کراچی سے شہر کے مختلف علاقوں کو جانے والی 22 بسوں اور ان کے ڈیزل کے اخراجات کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر سیکریٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت شعبے کے پاس 6 بسیں مکمل ناکارہ ہیں، 8 بسیں باڈی اور انجن کی ریپیئرنگ کے مراحل میں ہیں جبکہ 22 بسیں روز صبح کے وقت طلبہ کو یونیورسٹی لیاری اور دوپہر کو واپس چھوڑتی ہیں، اس ٹرانسپوٹیشن کی مد میں ماہانہ 26 لاکھ روپے کا ڈیزل خرچ ہو رہا ہے جبکہ کرائے کی مد میں طلبہ سے ماہانہ تقریبا 3 لاکھ 60 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی حیرت انگیز انکشاف کہا کہ 143 روپے فی لیٹر ڈیزل کے ساتھ ماہانہ 26 لاکھ روپے کا ڈیزل خرچ ہو رہا ہے جبکہ ماضی میں جب ڈیزل 96 روپے فی لیٹر تھا تو اتنی ہی بسوں کے ساتھ اس کی ماہانہ بلنگ 56 لاکھ تک جارہی تھی اس معاملے کو اب تحقیقات کے بعد اینٹی کرپشن کے حوالے کیا جارہا ہے‘‘۔

علاوہ ازیں جامعہ کراچی کے کیمپس میں اکیڈمک اوقات کے دوران چلنے والی شٹل سروس کے حوالے سے موصول معلومات کے مطابق اب صرف چار شٹل کارٹ چلائی جا رہی ہیں جس کا کرایہ 25 روپے فی سواری ہے بتایا جا رہا ہے کہ جس کمپنی کی الیکٹرک شٹل چل رہی ہے اس نے یونیورسٹی سے 8 گاڑیوں کا وعدہ کیا تھا تاہم اب تک صرف چار گاڑیاں دی گئی ہیں جبکہ سافیر نامی کمپنی اپنی سروس کچھ ماہ چلانے کے بعد ہی بند کرچکی ہے۔

اب ایس ڈبلیو وی ایل نامی ٹرانسپورٹ کے ادارے سے معاہدہ کیا گیا ہے جس کے مطابق یہ ادارہ کیمپس سے شہر کے مختلف علاقوں کے لیے اپنی سروس شروع کرنے جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ سیکریٹری کے مطابق ہر رائیڈ پر طلبہ کو کرائے کی مد میں 25 فیصد تک رعایت ہوگی جبکہ کیمپس کے اندر بھی یہ ادارہ 4 گاڑیاں چلائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔