ایوان صدر کے عدم تعاون سے اردو یونیورسٹی تاریخ کے بدترین دوراہے پر پہنچ گئی
صدرمملکت کے نمائندے اے کیو خلیل ڈاکٹر روبینہ کو عہدے سے ہٹاکر خود یونیورسٹی کے منتظم بن گئے تھے
وفاقی اردو یونیورسٹی(فوٹو فائل)
کراچی:
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی چانسلر شپ کے دورانیے میں وفاقی اردو یونیورسٹی انتظامی و تعلیمی سطح پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایوان صدر کے عدم تعاون نے وفاقی جامعہ اردو کو تاریخ کے بدترین دوراہے پر پہنچا دیا ہے، کیوں کہ عارف علوی کے صدر مملکت کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد سے اردو یونیورسٹی کو وائس چانسلر سے محروم ہے۔
ہزاروں طلبہ کی درسگاہ عارف علوی کے ساڑھے تین سالہ مدت صدارت میں مستقل وائس چانسلر سے محرومی، بے اختیار قائم مقام شیخ الجامعہ کی سربراہی، وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے متنازعہ سرچ کمیٹی، سینیٹ سمیت آئینی اداروں کی عدم فعالیت اور سلیکشن بورڈ کے باوجود اساتذہ کی بھرتیوں میں تعطل سمیت دیگر بدانتظامیوں سے پہچانی جاتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کو موصولہ اطلاعات کے مطابق ایوان صدر کی جانب سے یونیورسٹی کے سب سے بااختیار آئینی ادارے سینیٹ کا اجلاس نہ بلائے جانے کے سبب جامعہ اردو انتظامی طور پر مفلوج ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ تین کیمپسز کے ساتھ بیک وقت اسلام آباد اور کراچی میں قومی زبان کے نام پر قائم اس یونیورسٹی کا گزشتہ دو سال سے کوئی مستقل انتظامی سربراہ نہیں ہے قائم مقام وائس چانسلر ہفتے یا پھر دو ہفتے میں دو روز کے لیے کراچی آکر یونیورسٹی کے انتظامی معاملات دیکھتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئے مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے معاملے پر ڈیڈ لاک ہے اور اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کےلیے یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس نہیں بلایا جارہا۔
ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس وائس چانسلر کی سفارش پر جامعہ کا چانسلر(صدر مملکت) بلاتا ہے لیکن چانسلر کے نمائندہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اے کیو خلیل کے خلاف انکوائری رپورٹ پیش ہونی ہے جس سے بچنے کیلئے سینیٹ کا اجلاس بلانے میں ٹال مٹول کی جارہی ہے۔
موجودہ قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم نے پہلے 20 جنوری کو صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کواجلاس بلانے کے سلسلے میں براہ راست خط لکھا تھا۔
بعدازاں 4 مارچ کو جامعہ کی رجسٹرار ڈاکٹر روبینہ مشتاق نے وفاقی وزارت تعلیم کی سیکریٹری کو اس سلسلے میں خط تحریر کیا اور واضح کہا کہ موجودہ قائم مقام شیخ الجامعہ کو یونیورسٹی کی statutory bodies کے اجلاس بلانے کا اختیارنہیں ہے سینڈیکیٹ اور سینیٹ نہ ہونے کے سبب سلیکشن بورڈ اور بجٹ سمیت بہت سے معاملات التواء میں جاچکے ہیں سندھ ہائی کورٹ میں بھی مقدمات کے سبب سینیٹ کا اجلاس بلایا جانا ضروری ہے۔
اس حوالے سے بھی فروری میں چانسلر کو بذریعہ خط آگاہ کیا گیا ہے اس کا بھی جواب موصول نہیں ہوا ہے لہذا چانسلر سے اس اجلاس کی اجازت کے حصول کے سلسلے میں ہماری مدد کی جائے تاہم ان خطوط کے باوجود نا تو اجلاس بلایا گیا اور نہ ہی کسی قسم کا جواب ایوان صدر یا وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے یونیورسٹی کو وصول ہوا۔
ایوان صدر سے رابطہ
اس حوالے سے جب "ایکسپریس" نے ایوان صدر میں متعین ڈائریکٹر جنرل سہیل اختر سے رابطہ کیا اور ان معاملات پر مؤقف جاننا چاہا تو انھوں نے اجلاس بلانے کے سلسلے میں کوئی خط موصول ہونے سے انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نہ ہمیں کوئی خط ملا ہے اورنہ ہی کوئی سمری موصول ہوئی ہے اجلاس بلانا ہمارا کام نہیں ہے یہ کام تو وفاقی وزارت تعلیم کا ہے لہذا انہی سے پوچھا جائے تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ چانسلر سیکریٹریٹ تو ایوان صدر ہی ہے تو انہوں نے کہا کہ چانسلر سیکریٹریٹ کوئی بھی اقدام متعلقہ وزارت یا وزیراعظم ہاﺅس کی سفارش پر ہی کرتا ہے۔
سیکریٹری وزارت تعلیم سے رابطہ
دوسری جانب "ایکسپریس"نے اس سلسلے میں سیکریٹری وفاقی وزارت تعلیم ناہید درانی سے مسلسل رابطے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔
وفاقی جامعہ اردو مستقل وائس چانسلر سے کیسے محروم ہوئی؟
واضح رہے کہ دوسال قبل ایک عدالتی حکم پر یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف حسین کو ان کے عہدے سے سبکدوش کردیا گیا تھا۔
وائس چانسلر کی برطرفی کے بعد جامعہ سینیٹ نے نئے وائس چانسلر کی تلاش کےلیے کمیٹی بنائی جس میں چانسلر کے اختیارات کے ضمن میں اس سرچ کمیٹی کا چیئرمین ایک گریجویٹ شخص زہیر عشیر کو بنایا گیا۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز نے کہا کہ نئی کمیٹی نے سینیٹ کی جانب سے نئے وائس چانسلر کے انتخاب کیلئے بنائے گئے اصول اور اہلیت کے معیارات کے برخلاف تین ایسے افراد کا نام جامعہ کے وائس چانسلر کیلئے منتخب کیا جس میں سے دو افراد کے ایچ ای سی کے تصدیق شدہ جرنلز میں مقالے ہی موجود نہیں تھے، صرف نئے وائس چانسلر کے امیدوار ڈاکٹر اطہر عطا کے پرچے مطلوبہ تعداد میں موجود ہیں تاہم نوٹیفیکیشن کے اجراء اور 11 لاکھ سے زیادہ یعنی دہری تنخواہ کی ادائیگی کی یقین دہانی کے باوجود انھوں نے کینیڈا سے پاکستان آکر یونیورسٹی جوائن نہیں کی۔
واضح رہے کہ اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور جامعہ اردو کے وائس چانسلر کا اضافہ چارج سنبھالے ہوئے ہیں، اضافی ذمہ داری کے باعث وہ ہفتے دو ہفتے میں صرف ایک یا دو مرتبہ کراچی آکر جامعہ کے معاملات دیکھتے ہیں۔
صدرمملکت کے نمائندہ اور یونیورسٹی انتظامیہ میں اختلافات
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق موجودہ ڈاکٹر ضیاءالقیوم سے قبل ڈاکٹر روبینہ مشتاق جامعہ اردو کی قائم مقام وائس چانسلر تھیں جنہیں صدر مملکت کے نمائندہ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اے کیو خلیل نے عہدے سے ہٹاکر خود یونیورسٹی کے منتظم بن گئے تھے۔
بتایا جارہا ہے کہ اے کیو خلیل اور یونیورسٹی کی عارضی انتظامیہ کے مابین بدترین اختلافات ہیں جس کے باعث اے کیو خلیل نے نئے قائم مقام وائس چانسلر کی تقرری کے وقت یونیورسٹی کے تمام آئینی اداروں کو اجلاس بلانے سے روک دیا تھا۔
نمائندہ ایکسپریس نیوز نے بتایا کہ اے کیو خلیل نے انتظام سنبھالنے کے دوران کچھ ایسے امور انجام دیے گئے جن کی شکایات پر موجودہ قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹرضیاء قیوم نے انکوائری کی تاہم یہ انکوائری رپورٹ اب سینیٹ کے اجلاس میں پیش کی جانی ہے لہذا سینیٹ کااجلاس بلایا جارہا ہے اور نہ ہی نئے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا مسئلہ حل کیا جارہا ہے۔
اساتذہ کی بھرتیوں کا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں مستقل اساتذہ کی شدید قلت ہے اور اس قلت کو دور کرنے کےلیے سینیٹ نے ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ سال 2013 اور سال 2017 کے اشتہارات کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتیاں کریں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے 20 کے قریب شعبہ جات میں ان بھرتیوں کے لیے سلیکشن بورڈ کرائے گئے لیکن ٹیسٹ کا انعقاد متنازعہ ہونے کے سبب یہ بھرتیاں بھی مکمل نہیں ہوسکی اب موجودہ قائم مقام وائس چانسلر کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ان بھرتیو ں کے عمل کو مکمل کرسکیں۔
اس حوالے سے رپورٹ سینیٹ اجلاس میں پیش ہونی ہے مگر اجلاس کا انعقاد نہ ہونے کے سبب یہ رپورٹ بھی اب تک پیش نہیں ہوسکی اور یونیورسٹی کا تدریسی بوجھ بڑی تعداد میں جز وقتی اساتذہ اٹھا رہے ہیں جنھیں 25 سے 35 ہزار روپے تک تنخواہ دی جاتی ہے۔
قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کا مؤقف
ایکسپریس نیوز کی جانب سے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء القیوم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصے قبل ان کی صدر مملکت سے ملاقات ہوئی تھی جس میں صدر مملکت نے سینیٹ کا اجلاس بلانے پر اتفاق کیا
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اے کیو خلیل کے حوالے سے رپورٹ پر ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر روٹین کے معاملات ہیں جس کی انھوں نے منظوری دی تھی کچھ معاملات اور بھی ہیں جس میں مشکلات ضرور ہیں لیکن بالکل خلاف قانون نہیں ہیں جو سینیٹ میں پیش ہوجائیں گے۔
سلیکشن بورڈ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر قائم مقام وائس چانسلر نے بتایا کہ صدرمملکت بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ مسئلہ اب حل ہونا چاہیے میں نے بھی ان کیسز کا دقت سے مشاہدہ کیا ہے سوائے چند کے اکثریتی کیسز ٹھیک ہیں جو ٹھیک ان کی سینیٹ سے منظوری ہوجائے تو اساتذہ کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔