سری لنکا کی مثال سامنے رکھی جائے

زاہدہ حنا  اتوار 15 مئ 2022
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ایک جزیرے پر واقع سری لنکا، جنوبی ایشیا کا ایک خوبصورت ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ سری لنکا کی کل داخلی پیداوار 84 ارب ڈالر اور ر قبہ 65 ہزارمربع کلومیٹر ہے۔

ملک میں نیم صدارتی وحدانی نظام قائم ہے۔ صدر کو لامحدود اختیارات اور مکمل طور پر قانونی استثنیٰ حاصل ہے جو موجودہ بحران کا ایک سبب بھی ہے۔ شرح خواندگی کے اعتبار سے یہ خطے کا سرفہرست ملک ہے۔ یہاں کے لوگ تحمل، بردباری اور نفاست کی اعلیٰ مثال ہیں۔ قانون پر عمل کرنے کے حوالے سے بھی اس ملک کے شہری خطے کے دیگر ملکوں کے شہریوں سے کہیں آگے ہیں۔

بدقسمتی سے ان دنوں مہذب اور پرامن لوگوں کا یہ حسین ملک بدامنی اور افراتفری کی لپیٹ میں ہے ، ہر طرف مظاہرے ہورہے ہیں، املاک جلائی جارہی ہیں، حکمرانوں کے گھر نذر آتش کیے جارہے ہیں۔ کرفیو کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ لوگ شدید غصے کے عالم میں ہیں اور حکومت کی کوئی بات سننے یا تسلیم کرنے پر کسی طور پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ فوج اور پولیس کی فائرنگ سے کئی لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

وزیر اعظم مستعفی ہوچکے ہیں لیکن صدر اب تک اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک میں غذائی قلت ہے، کھانے پینے کی اشیاء موجود نہیں ہیں۔ پٹرول، ڈیزل اور گیس کی شدید قلت ہے۔ لوگوں کے جیبوں میں پیسہ ہے لیکن بازار اشیاء سے خالی پڑے ہیں۔ پورا ملک مفلوج ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ اس عذاب ناک صورتحال سے کس طرح نجات حاصل کی جائے۔

پاکستان اور سری لنکا دو بالکل مختلف ملک ہیں لیکن معاشی بحران کے حوالے سے ان دونوں کے درمیان کئی عوامل اور مسائل مشترک ہیں لہٰذا سری لنکا کے معاشی اور سیاسی بحران کا جائزہ لینا ہمارے لیے انتہائی اہم ہوگیا ہے۔

سری لنکا کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہوچکے ہیں، وہ بین الاقوامی سطح پر نادہندہ ہوگیا ہے۔ مسئلہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ زرمبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیاء درآمد کرنے کے بھی سکت نہیں رکھتا۔ اب عالم یہ ہے کہ توانائی کے بدترین بحران کی وجہ سے بجلی گھر بند پڑے ہیں، پٹرول پمپس پر ٹرکوں، گاڑیوں اور موٹرسا ئیکلوں کے لیے پٹرول دستیاب نہیں ہے۔

سری لنکا میں زیادہ تر اشیاء خورو نوش درآمد کی جاتی ہیں۔ زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ان کی درآمد ممکن نہیں رہی۔لوگ تین کے بجائے دو وقت کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ حالات کی الم ناکی تو دیکھیں کہ لوگ رقم ادا کرکے چیزیں خریدنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی بنیادی ضرورت کی اشیا تک دوکانوں میں نہیں ہیں اور اگرہیں توان کی مقداربہت زیادہ محدود ہے۔اس لیے غذائی افراط زر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ حالات پر جلد قابو نہ پایا گیا تو ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

اب غور طلب امر یہ ہے کہ سری لنکا کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم کیوں ہوئے اور اس کی معیشت اتنے بڑے بحران سے کیوں کر دوچار ہوئی؟ اس کی وجہ بالکل صاف اور سادہ ہے جب کوئی حکومت یا ریاست اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ بڑھادیتی ہے تو اسے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی ملک مجبوری میں قرض لیتا ہے تو قرض دینے والے ادارے یا ملک اس کی مجبوری سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور کافی اونچی شرح سود اور کڑی شرائط پر قرض فراہم کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔

بھاری شرح سود اور سخت شرائط کے تحت قرض لینے کے بعد اس کی ادائیگی کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ اب اس طرح کے ملک کے سامنے 3 راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ کمائے اور قرض کی ادائیگی کرے ، دوسرا یہ کہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض حاصل کرے یا پھر وہ اپنے غیر پیداوری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لاکر اپنی آمدنی میں اضافہ کرے۔

سری لنکا یہ تینوں کام کرنے سے قاصر رہا اس لیے آج وہ قرضوں کے جال میں پھنس کر پھڑ پھڑا رہا ہے۔ دنیا کے ملک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس کی مدد کریں گے لیکن اس کے قرض کوئی دوسرا ملک نہ ادا کرے گا اور نہ ہی معاف کرے گا۔ چین نے سری لنکا میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض بھی فراہم کیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ چین اپنا قرض معاف کردے اور اسے واپس نہ لے۔ چین یا کوئی دوسرا ملک اگر ایسا کرنا بھی چاہے تویہ خود اس کی معیشت کے لیے خطرناک ہوگا۔

سری لنکا کی حکومتوں نے معاشی ترقی میں تنوع کی پالیسی اختیار نہیں کی۔ انھوں نے آمدنی کے لیے سیاحت اور محدود قسم کی برآمدات پر زور دیا یا پھر بیرون ملک کام کرنے والے شہریوں کی ترسیلات زر پر انحصار کیا۔ کووڈ۔ 19 کی وجہ سے پوری دنیا میں بحران آگیا، عالمی تجارت ٹھپ اور سیاحت ختم ہوگئی۔ سری لنکا اس دبائو کو برداشت نہیں کرسکا۔ اسے مجبور ہوکر قرض لینا اور ملک کے اندر نوٹ چھاپنے پڑے جس سے افراط زر اور مہنگائی تمام حدود پار کرگئی۔

بحران کے موقع پر یہ دیکھا جاتاہے کہ حکومت کتنی دانش مندی سے فیصلے کرتی ہے۔ سری لنکا کی حکومت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ برآمدات میں کمی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر ہرحالت میں کم ہونگے۔ اس وقت سری لنکا کے پاس صرف 50 ملین ڈالر باقی رہ گئے ہیں جب کہ اسے اس سال کے دوران 7 ارب ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں۔ اگلے 3 سال میں اسے 25 ارب ڈالر کا قرض اتارنا ہوگا۔ اس کی معیشت بہت چھوٹی ہے لیکن اس پر 51 ارب ڈالر کے قرض کا غیر معمولی بوجھ ہے جسے اتارنا اس کے بس میں نہیں۔

حکومت کو اچھی طرح علم تھا کہ جب غذائی اجناس اور دوائیں درآمد کرنے کے لیے رقم نہیں ہوگی تو عوام میں فطری طور پر بے چینی پھیلے گی اور وہ سڑکوں پر آجائینگے۔ ان حقائق کو جاننے کے باوجود محض ایسے عارضی اقدامات کے ذریعے بحران کو ٹالنے کی ناکام کوششیں کی گئیں جن کی کامیابی عملاً ناممکن تھی۔سکے کی قدر میں کمی اور مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے تیل اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا جس سے مہنگائی بے پناہ بڑھ گئی۔

سری لنکا کی حکومت کے پاس اب یہی راستہ ہے کہ وہ قرض فراہم کرنے والے ملکوں اور اداروں سے درخواست کرے کہ وہ ادائیگی کی معیاد میں توسیع کردیں۔ اس کے علاوہ اسے دوست ملکوں سے بھی اپیل کرنی چاہیے کہ وہ اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آسان قرض اور مدد فراہم کریں تاکہ وہ تیل، گیس اور غذائی اشیا درآمد کرسکے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے ضروری اشیاء کی درآمد کے لیے ایک ارب ڈالر کا قرض فراہم کیا ہے اور پانچ سو ملین ڈالر ڈیزل کی خریداری کے لیے دیے ہیں۔ اسی طرح چین بھی سری لنکا کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ قرض دے رہا ہے تاکہ اس ملک کے عوام کی مشکلات کم ہوسکیں۔

پاکستان بھی تیزی سے معاشی عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوچکے ہیں اور قرضوں کی ادائیگی ایک بڑا مسئلہ بننے والی ہے۔ مزید برآں، افراط زر اور مہنگائی پر قابو پانا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران کو مزید گہرا کررہا ہے جس کے ہم بالکل متحمل نہیں ہوسکتے، لہٰذا سری لنکا کی مثال سامنے رکھ کر فوری اقدامات اب ناگزیر ہوچکے ہیں۔ پاکستان کوہرگز سری لنکا نہیں بننا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔