شہر میں پانی کی تقسیم اور منصوبہ بندی کی تفصیل طلب

کورٹ رپورٹر  بدھ 18 مئ 2022
کے فور کا منصوبہ اگر 10 سال میں بھی مکمل نہیں ہوگا تومناسب انداز سے پانی فراہم نہیں کیا جائیگا، جسٹس حسن اظہر رضوی۔ فوٹو : فائل

کے فور کا منصوبہ اگر 10 سال میں بھی مکمل نہیں ہوگا تومناسب انداز سے پانی فراہم نہیں کیا جائیگا، جسٹس حسن اظہر رضوی۔ فوٹو : فائل

 کراچی: ہائی کورٹ نے ڈیفنس کلفٹن کے رہائشیوں کو پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست پر کراچی بھر میں تقسیم اور منصوبہ بندی کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو ڈیفنس کلفٹن کے رہائشیوں کو پانی کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے موقف دیا کہ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ رہائشیوں کو وہی پانی فراہم کر سکتا ہے جو اسے واٹر بورڈ سے ملتا ہے، ہم واٹر بورڈ سے فراہم کردہ پانی سے زیادہ پانی کیسے فراہم کر سکتے ہیں، ڈیفنس اور کلفٹن کو کراچی کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا، ڈیفنس اور کلفٹن میں پانی کی فراہمی سے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہمارے علاقے کے لیے 9 ایم جی ڈی پانی مختص ہے مگر ملتا 4یا5 ایم جی ڈی ہے، واٹر بورڈ سے جو پانی ملتا ہے اسکا آدھا حصہ لائن لائسز کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے، عدالت پہلے بھی قرار دے چکی ہے جن رہائشیوں کو پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے، ان سے چارجز بھی وصول نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کنٹونمنٹ بورڈ کے وکیل نے موقف دیا کہ اگر رہائشی ہمیں درخواست دے دیں ہم لائن کاٹ دیں گے چارجز وصول نہیں کریں گے، یہ مضحکہ خیز بات ہے پانی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، کنٹونمنٹ بورڈ میٹر لگا دے جہاں پانی یا استعمالنہ ہو وہاں سے چارجز وصول نہ کیے جائیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر قابل لوگ ہوں نیک نیتی ہو کرپشن ختم ہو تو یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم جب نجی کمپنی کے ٹینکر سے منگواتے ہیں 9 ہزار روپے چارجز وصول کیے جاتے ہیں، نجی ٹینکر مافیا سے متاثر ہوکر کنٹونمنٹ بورڈز واٹر باوزر کے ذریعے پانی فراہم کرتے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ڈی ایچ اے اور کلفٹن میں پانی فراہم کرنے کے لیے کتنے پمپنگ اسٹیشن ہیں، چیف انجینئر واٹر بورڈ نے بتایا کہ پورے شہر کو پانی فراہم کرنے کیلیے صرف پیپری پر پمپنگ اسٹیشن ہے، کے فور کے بعد کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے کوئی نیا منصوبہ تا حال شروع نہیں کیا گیا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کے فور کا منصوبہ اگر 10 سال میں بھی مکمل نہیں ہوگا تو مناسب انداز سے پانی فراہم نہیں کیا جائے گا پھر یہ کیسے ممکن ہے ڈی ایچ اے کے بعد والے علاقوں میں پانی ہوتا ہے یہاں نہیں، کیا کسی کی شکل دیکھا کر فیصلہ کریں گے کسی کو پانی فراہم کرنا ہے کسی کو نہیں۔

عدالت نے واٹر بورڈ حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں آپ کے پاس شہر کے کس علاقے کو پانی فراہم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کون کرتا ہے، عدالت نے کراچی بھر میں تقسیم اور منصوبہ بندی کی تفصیلات طلب کرلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔