سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہ ہوجائے…

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 مئ 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان اس وقت شدید ریاستی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ پورے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ کراچی جیسے سب سے بڑے صنعتی شہر میں سی این جی تین دن دستیاب نہیں ہوتی۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھورہا ہے۔

مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، مالیاتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے، دنیا کے بڑے اقتصادی ادارے بجلی، گیس اور پیٹرل پر سبسڈیز ختم کیے بغیر  قرضے دینے کوتیار نہیں ہے۔ سعودی عرب بھی آئی ایم ایف کے فیصلے کا انتظار کررہا ہے، اگر پیٹرل اور بجلی کے نرخ بڑھادیے گئے تو تمام اشیاء بشمول ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت میں بنیادی اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مختلف نوعیت کے تجربات کیے، وہ 2018میں جلسوں میں اعلان کرتے تھے کہ’’ اسد عمر‘‘ ان کی حکومت کے وزیر خزانہ ہوںگے اور پاکستان دنیا کے امیر ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔

اسد عمر وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز ہوئے مگر انھوں نے اپنے قائد کے نعروں کو عملی شکل دینے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے میں دیر کردی ،موصوف خیالی پلاؤ پکاتے رہے اور تسلی دیتے رہے کہ سب ٹھیک ہوجائے اور اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز  خرید لیں کیونکہ ہماری پالیسوں کی وجہ معیشت تیزی سے ترقی کرنے والی ہے لہٰذا شئیرز بہت اوپر جائیں گے، پھر وہ وقت آیا کہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن وہ جاتے جاتے ملک کو بحران میں پھنسا گئے ۔

حکومت کا نظام چلانے کے لیے چین اور سعودی عرب سے سود پر قرضے لیے گئے۔ روپے کی قیمت گر گئی اور تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ دونوں دوست ممالک نے اگلے سال قرضوں کی واپسی پر اتفاق کیا تھا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لیے پیپلز پارٹی دور کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ حفیظ شیخ امریکا گئے اور آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد سے سعودی عرب کا قرضہ واپس ہوا۔

عمران خان امریکا گئے، صدر ٹرمپ سے مذاکرات کیے۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے بھارت کی حکومت کو تیار کریں گے۔ عمران خان کے میڈیا مشیروںنے اپنے قائد کے دورہ امریکا کو 90ء کی دہائی میں ورلڈ کرکٹ کپ کی طرح کامیاب قرار دیا۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے بھارتی یونین کے آئین کی شق 307 میں ترمیم کی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئی۔ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔

عمران خان کو جوش آگیا۔ شیخ رشید جیسے مشیروں کی ڈاکٹرائن کو قبول کرلیا گیا۔ بھارت سے سفارتی تعلقات نچلی سطح پر لائے گئے، تجارت بند کردی گئی، ریل، بس اور ہوائی جہاز کے رابطے منقطع ہوئے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اسلام آباد میں مسلسل گرجنے لگے۔ وہ واشنگٹن، نیویارک، ریاض ، ابوظہبی وغیرہ کے دوروں پر گئے مگر اپنی ناقص پالیسی کی بناء پر کسی بھی بین الاقوامی فورم پر بھارت کی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوسکی۔

عمران خان کے دورحکومت میں پاکستان کے سب سے بڑے دوست ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ بھارتی فضائی کمپنی نے سری نگر سے دبئی فلائٹس چلانی شروع کیں۔

دنیا کورونا کے حملہ کا شکار ہوئی، دنیا بھر میں کساد بازاری کا دور آیا۔ پاکستان کساد بازاری سے براہِ راست متاثر ہوا۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں کورونا نے زیادہ تباہی مچائی۔ دونوں ممالک میں گارمنٹس کی صنعتوں میں پیداوار رک گئی، پاکستان اس بحران سے کم متاثر ہوا۔ پاکستان کی برآمدات بڑھ گئیں۔

یورپ، امریکا اور مشرق وسطی میں مقیم پاکستانیوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ سے ملک کی معیشت کو استحکام حاصل ہوا مگر پی ٹی آئی حکومت کی انتقامی پالیسی کی بنیاد پر ملک میں سرمایہ کاری رک گئی۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی حکومتوں کے حوالے سے شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ان حکومتوں نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ نیب کی کارروائیوں کی بناء پر ان کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری ممکن نہ ہوسکی۔ ملک کی معیشت جو 70 فیصد غیر رسمی معیشت کہلاتی ہے انحطاط کا شکار ہوئی۔

ایشیائی اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا۔ ایف اے ٹی ایف نے نئی پابندیاں عائد کیں جس سے بینکنگ کی صنعت براہ راست متاثر ہوئی۔ سابقہ حکومت کے پالیسی بنانے والے دانشو روں کو احساس ہوا کہ حفیظ شیخ کی پالیسیاں تو ناکام ہوگئی ہیں اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب سینیٹ کی اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشست پر وہ تحریک انصاف کے اراکین کے بھی ووٹ حاصل نہ کرسکے ،یوں ممتاز بینکر شوکت ترین کو وزیر خزانہ کی حیثیت سے لایا گیا۔

شوکت ترین کے اس عہدہ پر فائز ہونے سے چند ماہ قبل بیانات ذرایع ابلاغ پر خوب شایع اور نشر ہوئے تھے کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی چھ ماہ قبل یہ کہہ چکے تھے کہ یہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے لندن میں ایک بیان میں کہا کہ شوکت ترین پٹرول پر سبسڈی کے لیے فنڈز چھوڑ کر نہیں گئے۔ مفتاح اسماعیل نے شوکت ترین پر زور دیا کہ وہ سچ بولیں اور قوم کو بتائیں کہ وہ پٹرول پر سبسڈی دینے کے خلاف تھے اور عمران خان نے انھیں اس کام کے لیے مجبور کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے جب بھارت سے تجارت پر پابندی لگائی تو پاکستان میں ادویات کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔

بھارت دنیا میں ادویات کا خام مال تیار کرنے والے چند بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اب بھارت سے آنے والا خام مال دبئی کے راستہ ملک میں آنے لگا۔ اس پر آنے والی لاگت پر بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ انسانی جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہوگئی، یہ ادویات بھارت سے آتی تھیں۔ کتے کے کاٹنے پر استعمال ہونے والی اینٹی ریبیز ویکسین بھی بھارت سے آتی تھی ، وہ بھی بند ہوگئی۔

پاکستان بھارت کو مختلف پھل، کھجوریں، کیلا اور سبزیاں برآمد کرتا تھا۔ پاکستان میں جب بھی سبزیوں کی قیمت بڑھتی ہے تو بھارت سے درآمد ہونے والی سبزیوں کی قیمتوں میں استحکام پیدا ہوتا تھا۔ تیل کی دریافت کی صنعت، شوگر انڈسٹری سمیت کئی اور صنعتوں کے لیے سستے آلات بھارت سے آتے تھے، کینسر کی بعض ادویات روس سے درآمد کی جاتی تھیں مگر روس یوکرین جنگ کی بناء پر انسانی جان بچانے والی ادویات کی درآمد رک گئی۔

بھارت سے یہ ادویات سستے داموں مل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بڑے صنعت کار میاں منشاء تو گزشتہ سال یہ واضح کرچکے ہیں کہ بھارت سے تجارت پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کی سب سے بڑی تنظیم ایوانِ صنعت ہائے تجارت اور مختلف شہروں کے صنعت کاروں اور تاجروں کے ایوانِ تجارت و صنعت ایسی ہی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر عمران خان کی حکومت آخری وقت تک اس بارے میں فیصلہ نہ کرسکی۔

موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں ٹریڈ سیکریٹری کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے مگر ناکام خارجہ پالیسی کے موجد شاہ محمود قریشی کو یہ سب کچھ پسند نہیں آرہا۔

ماہرین اقتصادیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے بھارت سے تعلقات معمول پر لانا ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت کو جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بھارت سے تعلقات معمول پر لانے چاہئیں تاکہ ملک کی معیشت کو استحکام ملے اور ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ نہ ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔