اچھے مستقبل سے مایوسی کا آغاز

محمد سعید آرائیں  جمعرات 19 مئ 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ اقتدار سے باہر آ کر میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔

پی ایم ہاؤس میں رہ کر میں عوام سے دور ہو گیا تھا اور میرا وزن بڑھ گیا تھا۔ حکومت سے برطرفی کے بعد پتا چلا کہ دوسروں کو سادگی کا درس دینے والے عمران خان بنی گالا سے پی ایم سیکریٹریٹ آنے کے لیے وہ ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے اور آٹھ دس کلومیٹر کے اس فاصلے پر حکومت کے 98 کروڑ روپے خرچ ہوئے جس کے لیے اس وقت کے وزیر فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے سفر پر صرف 55 روپے کلومیٹر خرچ آتا ہے تو یہ آنے جانے کا سفر 98 کروڑ میں کیسے پڑا؟ فواد چوہدری ہی اس کا جواب دیں تو بہتر ہوگا۔

عمران خان نے سابق ہوکر بھی پشاور سے وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر منگوایا اور سیاسی جلسے میں شرکت کے لیے ایبٹ آباد گئے اور واپس اسلام آباد آئے۔ عمران خان پر پہلے بھی سرکاری ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال کا الزام موجود ہے، اب کہیں کیس بھی نہ بن جائے۔

عمران خان اپنی اچھی شہرت جو ورلڈ کپ کی وجہ سے تھی اور اپنی سماجی سوچ، عوام کی خدمت، کرپشن کی مخالفت اور کبھی اقتدار میں نہ رہنے کے باعث عام لوگوں، نوجوانوں اور ریٹائرڈ سرکاری افسروں کی امیدوں کا مرکز تھے۔ وہ 1996 میں سیاست میں تو آئے مگر 15 سال تک کامیاب نہ ہو سکے تھے۔

اس وقت ان کی پارٹی میں اچھی شہرت کے حامل متعدد رہنما موجود تھے مگر اقتدار سے قبل ہی جاوید ہاشمی، حامد خان، اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ الدین عمران خان سے مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ ملک کے نوجوان عمران خان سے بہت متاثر تھے اور ملک کے ریٹائرڈ افسران بھی ملک میں تین تین باریاں لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے مایوس ہو چکے تھے اور عوام بھی اچھے مستقبل کی امید میں پرانی پارٹیوں کی جگہ عمران خان کو اقتدار میں لا کر ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواہش مند تھے جس کے وعدے عمران خان نے عوام سے کیے ہوئے تھے۔

عمران خان عوام کی بڑی تعداد کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے تھے کہ ماضی میں تین تین بار اقتدار میں رہنے والوں نے ملک کو لوٹا اور کرپشن کے مال سے ملک سے باہر جائیدادیں بنائی ہیں۔ عمران خان کے کرپشن کے الزامات میں صداقت بھی تھی سب جھوٹ بھی نہیں تھا۔ عوام میں یہ تاثر موجود تھا کہ سابق حکمرانوں نے لندن میں ایون فیلڈ اور سرے محل جیسی مہنگی جائیدادیں کیسے بنائیں؟ عوام سابق حکمرانوں سے مایوس ہوکر چاہتے تھے کہ ملک میں تبدیلی آئے۔

2018 کے انتخابات میں تبدیلی کے نمایاں اثرات بھی تھے ، پی ٹی آئی سب سے زیادہ نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ پھر وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو اتحادیوں کی مدد سے اقتدار بھی دلادیا گیا۔ عمران خان کے ساتھ جن لوگوں کو حکومت میں شامل کرایا گیا ، وہ ماضی کی حکومتوں میں بھی شامل رہے تھے، عوام اس پر حیران ہوئے۔ عمران خان سے مخلص اور کسی حکومت کا کبھی حصہ نہ رہنے والوں سے عوام کو توقعات تھیں مگر مراد سعید، اسد عمر، شفقت محمود جیسے رہنماؤں نے بھی مایوس کیا۔

اپنے مخالفین کو سزائیں دلانے میں ناکامی پر عمران خان اپوزیشن پر برہم ہوتے گئے جب کہ شہزاد اکبر، شیخ رشید احمد، فواد چوہدری جیسے وزیروں اور مشیروں نے عمران خان کی توجہ عوامی مسائل، مہنگائی و بے روزگاری سے ہٹا دی اور وہ صرف اپوزیشن کے ہی پیچھے پڑے رہے۔ عمران کی حکومت کو عوامی مسائل اور معاشی حالات میں پھنساکر ان کے ساتھی وزیر غلط بیانات دیتے رہے کہ اپوزیشن این آر او چاہتی ہے اور وزیر اعظم این آر او نہیں دوں گا کی تکرار میں مصروف رہے ۔

عمران خان کو اپوزیشن سے مکمل دور کرا دیا گیا جب کہ عمران خان پونے چار سالہ اقتدار میں اپوزیشن رہنماؤں کو سزائیں دلا سکے نہ اپنی حکومت کی بیڈ گورننس بہتر کرسکے۔۔عوام عمران خان حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوتے گئے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے مزید مایوس ہوئے کہ جنھیں عمران خان کرپشن میں سزا نہ دلا سکے وہی دوبارہ اقتدار میں آگئے۔ عمران خان نے اپنے مخالفین کو خود موقعہ دیا کہ وہ اپنے تمام اختلافات بھلا کر عمران خان کے خلاف متحد ہوگئے۔ عمران خان اپوزیشن سے لڑتے رہے اور اپنے اتحادیوں سے بھی دور ہوتے گئے۔

پی ٹی آئی حکومت میں عمران خان نے اپنے اتحادیوں ہی نہیں بلکہ خود اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بھی ناراض کیا اور نواز شریف کی طرح انھوں نے اپنے ارکان اور رہنماؤں کو بھی ملنے اور حقائق بتانے کا موقعہ نہیں دیا جس کا ثبوت پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے وہ منحرف ارکان ہیں جو عمران خان سے بہت دور جا چکے ہیں اور اب ان کے بلانے پر بھی واپس نہیں آ رہے۔

ملک کے عوام اور پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والے بھی مایوس ہو چکے ہیں۔ مایوسی کے جس سفر کا آغاز ہوا ہے وہ کسی طرح بھی بہتر نہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ جنھیں کرپٹ قرار دے کر عمران خان اقتدار میں آئے تھے وہ سب اقتدار میں ہیں اور عمران خان اپنے بیانیے بدل بدل کر قوم میں مایوسی مزید بڑھا رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے کس بیانیے کو درست سمجھیں حقیقت کس کی درست ہے کس کی غلط؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔