عمران خان کے مخالفین ’’جذبہ جنوں‘‘ کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

سلمان احمد  اتوار 22 مئ 2022

گزشتہ پندرہ دنوں کے دوران، جمعہ 6 مئی سے میانوالی سے شروع ہو کر جمعہ 20 مئی کو ملتان میں اختتام پذیر ہونے والے جلسوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کے طول وعرض میں عوام کے ذہن اور دل کو اپنی گرفت میں لے لینے والا انقلاب برپا ہو چکا ہے۔

10 اپریل کو جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو اس کے خلاف عوامی ردعمل فوری، متفقہ اور انتہائی شدید تھا۔ وہ پاکستان ہو یا بیرون ملک آباد پاکستانی، لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے عوام کے اعتماد کو تہہ وبالا کر کے رکھ دینے والی اس سازش کے مقابل Absolutely Not کا نعرہ بلند کیا۔

پاکستانی عوام کے ایسے شدید ردعمل کے اظہار کیپس منظر میں بہت سی وجوہات ہیں:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ گزشتہ 25 برسوں سے عمران خان مسلسل ملکی خودمختاری، خودانحصاری اور بلاامتیاز احتساب کی ضرورت پر زور دیتا چلا آ رہا ہے۔ کئی دہائیوں سے اس کے اس غیرمتزلزل مؤقف کو لے کر ملک میں حالات کو جوں کا توں رکھنے کی حامی جماعتیں (مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی) ان کوششوں کی شدید مزاحمت کرتی رہی ہیں اور عمران خان کو ان کی جانب سے انتہائی جارحانہ رویے کا سامنا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ’اسٹیٹس کو‘ کی حامی یہ قوتیں خود کو ناقابل تسخیر بنا چکی ہیں۔

نتیجتاً پاکستانیوں کی کئی نسلوں کو ادارہ جاتی سطح پر منظم کرپشن اور بدعنوانی کو ایک طرز زندگی کے طور پر قبول کر لینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ حکمرانوں نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا تھا کہ وہ غیرملکی بھیک کے چند ٹکڑوں کے لیے قومی وقار اور خودمختاری کو قربان کر دینے کے لیے آمادہ رہتے۔ رفتہ رفتہ مگر پورے یقین کے ساتھ عمران خان نے عوام کے اندر پائی جانے والی اس غلام اور انسانی روح کو کچل کر رکھ دینے والی مہلک ذہنیت کو مکمل طو رپر بدل کر رکھ دیا اور اس کی جگہ دلوں کو استقامت، استقلال اور ثابت قدمی کے ذریعے کامیابی کے تیقن اور قرآنی آیت ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ (اے اللہ ہم تمہاری عبادت کرتے ہیں اور صرف تمہیں سے مدد مانگتے ہیں) کے نور سے بھر دیا۔

عوام میں تبدیلی آنے کی ایک اور وجہ کرکٹ، موسیقی اور سیاست کا انتہائی صاف ستھرا باہمی ملاپ ہے۔ 1996میں جب میں نے ترانہ ’’جذبہ جنوں‘‘ کے اشعار لکھ کر اس کی طرز بنائی تھی تو اتفاق سے یہ ترانہ نہ صرف عمران خان کی جانب سے پی ٹی آئی کو سیاست کے میدان میں اتارنے سے مطابقت کی وجہ سے ممتاز ہوا بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ کمپین کا بھی حصہ بن گیا۔’’جذبہ جنون‘‘ یقیناً ایک طرح سے پاکستانی عوام کے دل کی دھڑکن بن گیا۔

اس ترانے نے ایک ایسی قوم کو ’جو احساس کمتری کے زیرسایہ پروان چڑھی تھی، جو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، جو ناخواندگی میں ڈوبی ہوئی اور بھوک اور افلاس کی ناتوانی کا شکار تھی، یہ باور کرایا کہ وہ نظریاتی قوت، دیانت، وفاداری، میرٹ پر عمل اور تصوف کی روشنی کی بدولت اُٹھ کھڑی ہو۔ اس ترانے کے پیچھے ایک ایسے پاکستان کا خواب کارفرما ہے جس میں صرف اور صرف عوام ہی جموریت، آزادی، ترقی، امن اور انصاف کے حصول کی قوت محرکہ ہوں۔ گزرے دو ہفتوں کے دوان عمران خان نے ’’جذبہ جنوں‘‘ کی اصطلاح کو بارہا حقیقی آزادی کے حصول کے لیے اپنے عزم کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی اشرافیہ کی دھوکا دہی پر مبنی لیپا پوتی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا (جیسے مریم اور بلاول کی شکل میں موروثی حکمرانی کو میرجعفر اور میر صادق کی مثال میں واضح کیا)

ہماری یہ اشرافیہ جو ہر وقت ’’میں، مجھے اور میرا‘‘ کی گردان کرتی رہتی ہے، پچھلے 75 برس سے ملک کے تمام وسائل کو لوٹ کر لے گئی ہے اور اس نے 220 ملین پاکستانیوں کا مستقبل تاریک کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود بیرونی غلامی پر آمادہ رہتے ہیں۔ ان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ جعل ساز اور سیاسیبازی گر ہیں۔ ان میں کوئی ایسی خصوصیت ہی موجود نہیں کہ یہ ’’جذبہ جنوں‘‘ کا ادراک کر سکیں۔ بلاول اور مریم کے عوامی جلسے اسٹیج کے ماہرین کے مرہون منت ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی اور ان کے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے والے کارکن ذاتی فوائد کے لیے ان کے ساتھ ہیں اور میڈیا پر ان کا بیانیہ جھوٹ، غلط بیانی اور منافقت پر مبنی ہوتا ہے جس کے لیے پیسہ لگایا جاتا ہے۔

پی ڈی ایم کا پورا اتحاد باہمی طور پر بدترین مخالفت رکھنے والے لوگوں کا گروہ ہے۔ یہ سب پرانے پاکستان کے پروردہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ بیرون ملک بیٹھ کر نوآبادیاتی طرز کی مداخلت اور ذہنی غلامی کا سلسلہ چلتا ہے۔ دوسری طرف عمران خان کا پاکستان وقت اور ادوار کی قید سے آزاد جذبہ جنوں کی تال پر سر اٹھا رہا ہے۔ یہ لاروے سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے خوبصورت تتلی کی شکل اختیار کرنے جیسا سفر ہے، جو خطرات سے پر ہوتا ہے لیکن یہ مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو گرانے کا واقعہ حقیقت میں عمران خان کے لیے تکلیف میں پوشیدہ رحمت ثابت ہوا ہے۔ اس کی بدولت پاکستان کی روح خواب غفلت سے بیدار ہو گئی ہے۔

عمران خان نے ان تمام کرداروں کو بے نقاب کر دیا ہے جنھوں نے اس کی کمر میں چُھرا گھونپا اور عوام کو بے وقوف بنایا لیکن مریم، بلاول اور ان کے جعل ساز اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کا یہ ڈھانچہ تاش کے پتوں کے گھر کی طرح ہے جو مانگے کے وقت سے گزارا کر رہا ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے بارے میں جتنا بھی زہر اگل لیں، ان کے سیاسی مستقبل میں فرق نہیں پڑے گا۔ ان کی قسمت کا فیصلہ ان کے سیاسی ورثہ کے مطابق ہی ہو گا۔ یہ لوگ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑے ہیں۔ یہ نئے پاکستان کے جذبہ جنوں کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہیں گے۔

(صاحب مضمون معروف گائیک اورصوفی راک بینڈ ’’جنون‘‘سے تعلق رکھتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔