ہمارے معنی ہمارے اندر ہی ہوتے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 22 مئ 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

ہمارے معنی ہمارے اندر ہی ہوتے ہیں۔ فرنیکل کے ہی الفاظ ہیں ’’ آخرکار انسان کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کی زندگی کے معنی کیا ہیں بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ خود ہی تو یہ معنی ہیں۔‘‘

جارج برنارڈ شا کہتا ہے۔ ’’ زندگی کا حقیقی مزا اس بات میں ہے کہ ایسے مقصد کے لیے گزاری جائے جسے آپ اپنی نظر میں اعلیٰ سمجھتے ہوں۔ بجائے چھوٹی چھوٹی خود غرض تکلیفوں اور غموں کے بارے میں شکایت کرنے کے اور اس بات پر ناراض رہنے کے کہ دنیا نے مجھے خوش رکھنے کے لیے اپنے سارے کام کیوں نہیں چھوڑے۔‘‘

عظیم ادیب آرتھر گورڈن اپنی ذاتی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس کہانی کا عنوان “The Turn of the Tide” ہے۔ یہ کہانی اس کی زندگی کے اس وقت سے شروع ہوتی ہے جن دنوں اس نے محسوس کرنا شروع کیا کہ زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہوچکی ہے۔ زندگی میں اس کا جوش و جذبہ ماند پڑگیا ہے اور بحیثیت لکھاری کے اسے اپنی تخلیقات فضول نظر آنے لگیں اور یہ صورتحال دن بدن بد تر ہوتی جارہی تھی۔

بالآخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا سوچا جب ڈاکٹر کو طبعی طور پر کوئی نقص نظر نہ آیا تو اس نے آرتھر سے کہا کہ ’’وہ اس کا مشورہ صرف ایک دن کے لیے مانے گا‘‘ جب آرتھر نے رضا مندی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر بولا کہ ’’ کل کا دن تم ایسی جگہ پر گزارو کہ جہاں ایک بچے کی حیثیت سے تم سب زیادہ خوش ہوتے تھے‘‘ وہ اپنا کھانا ساتھ لے جاسکتا تھا لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے ، لکھنے یا ریڈیو وغیرہ سننے کی۔ پھر اس نے چار پرچیاں لکھیں اور اسے کہا کہ ’’ پہلی پرچی پہلے دن کے نو بجے کھولنا ، دوسری بارہ بجے ، تیسری تین بجے اور چوتھی چھ بجے شام۔‘‘

’’کیا تم سنجیدہ ہو‘‘ آرتھر نے پوچھا۔ ’’جب تمہیں میری فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیرسنجیدہ نہیں سمجھو گے‘‘ اس کا جواب تھا ، لہٰذا اگلے دن آرتھر ساحل سمندر پر چلا گیا ، جب اس نے پہلی پرچی کھولی تو اس پر لکھا تھا ’’غور سے سنو‘‘ اس نے سوچا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہوگیا ہے وہ تین گھنٹے کیسے صرف سن سکتا ہے لیکن اس نے ڈاکٹرکا مشورہ ماننے کا وعدہ کر لیا ہوا تھا لہٰذا وہ سننے لگا اس نے سمندر اور پرندوں کی عام آوازیں سننا شروع کردیں۔ کچھ دیرکے بعد اسے کچھ اور آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جوکہ اسے پہلے نہیں آرہی تھیں وہ جیسے جیسے سنتا گیا ، اسے تمام باتیں یاد آنے لگیں جو بحیثیت ایک بچے کے اس نے سمندر سے سیکھی تھیں۔

صبر ، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصارکی اہمیت۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ دوپہر بارہ بجے اس نے دوسری پرچی کھولی اور اسے پڑھا لکھا تھا ’’ماضی میں جانے کی کوشش کرو‘‘ اس نے حیران ہوکر سوچا شاید بچپن کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو ۔‘‘ اس نے اپنے ماضی کے بارے میں سوچا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سوچا اور اس نے کوشش کی کہ انھیں تمام تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح یاد کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔

تین بجے اس نے تیسری پرچی کھولی۔ اب تک نسخے پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہا تھا ، لیکن یہ تیسری پر چی ذرا مختلف تھی لکھا تھا ’’اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو‘‘ شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیار کیا اس نے سوچا کہ وہ کیا چاہتا تھا۔ کامیابی ، مانے جانا ، تحفظ اور اس نے ان سب کو پا لیا ، لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں تو خاص نہیں ہیں اور شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورتحال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا اس نے اپنی پرانی خوشیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور آخر اس کو جواب مل گیا۔

’’ایک لمحے میں‘‘ اس نے لکھا ’’ اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہوتو پھر کچھ بھی صحیح نہیں ہوسکتا ‘‘ اس بات سے قطعاً کوئی فرق نہیں پڑا کہ آپ ایک ڈاکیے ہیں یا نائی ہیں یا انشورنس ایجنٹ ہیں یا ایک فل ٹائم بیوی ہیں جو بھی ہیں جب تک آپ کو یہ خیال ہے کہ آپ دوسروں کی خدمت کررہے ہیں، آپ اپنا کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں، لیکن جب آپ کا مطمع نظر صرف اپنا مطلب ہی ہو تو پھر آپ کام اتنے اچھے طریقے سے نہیں کرتے۔ یہ کشش ثقل کی طرح کا قانون ہے ، جب چھ بجے فائنل پرچی کو کھولا گیا تو اس پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

’’اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو‘‘ اس پہ لکھا تھا وہ ریت پر جھکا اور اس نے ایک ٹوٹی ہوئی سیپی کی مدد سے ریت پر کئی الفاظ لکھے پھر وہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی موج سب اپنے ساتھ بہا لے جائے گی۔

مذہبی رہنما ڈیوڈ اومیکے کے مطابق زندگی کی عظیم ترین جنگیں روزانہ روح کے خاموش نہاں خانوں میں لڑی جاتی ہیں، اگر آپ یہ جنگیں جیت لیں اور اندرونی اختلافات کو طے کرسکیں تو پھر آپ کو اصل سکون حاصل ہوگا اور اپنے بارے میں اصل خود آگہی پیدا ہوگی اور پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ عوامی فتوحات قدرتی طور پر آپ کے قدم چومیں گی۔ عوامی فتوحات کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ تعاون کے انداز میں سوچتے ہیں دوسرے لوگوں کی فلاح اور بھلائی چاہتے ہیں اور ان کی کامیابی پر صحیح معنوں میں خوش ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ آپ صرف وہ ہی کچھ ہیں جو آپ سوچتے ہیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔

آپ اگر کسی انسان کو جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ صرف اس کی سو چ کو پڑھ لیجیے۔ انسان کی عظیم ترین دریافت اس کی سوچ ہے۔ آپ اگر اپنے آپ کو بدلنا چاہتے ہو تو پھر آپ اپنی سوچ کو بدل لیجیے ، جیسے ہی آپ اپنی سو چ بدلیں گے ، اسی لمحے آپ بھی یکسر بدل چکے ہونگے۔ ہم میں سے ہر ایک شعوری طور پر یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ آج ہی معمولی اور بے معنی قسم کی زندگی کو جینا ترک کرکے ایک بامقصد اور بامعنی زندگی جینا شروع کردے۔ یہ زندگی ہر جگہ ہوگی گھر میں دفتر میں محلے میں کام کی جگہ میں اور کمیونٹی میں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے حالات کیسے ہیں عظمت کا مظاہرہ کسی بھی طرح سے کیا جاسکتا ہے۔

جب کسی نے آئن اسٹائن سے پوچھا ’’ اگر اسے خدا سے کوئی ایک سوال پوچھنے کا موقع ملے تو وہ کیا کہے گا‘‘ آئن اسٹائن نے جواب دیا ’’ میں پوچھوں گا ، کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ کیونکہ اس کے بعد ہر چیز محض حساب ہے‘‘ لیکن پھر ایک لمحہ سوچنے کے بعد اس نے اپنا ذہن بدل لیا اور کہا ’’ نہیں میں پوچھوں گا ، کائنات کیوں تخلیق کی گئی کیونکہ اس کے بعد ہی مجھے اپنی زندگی کے معنی سمجھ میں آئیں گے۔‘‘

سب سے اہم بصیرت اپنی ذات کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے اپنی قسمت کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے اپنے منفرد مشن اور زندگی میں کردار کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے مقصد اور معنویت کا ایک فہم پیدا کرنا ہے ‘‘ ہم سب بغیر مقصد کے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے نجانے کتنے لوگوں کو ساری زندگی اس مقصد کا پتہ ہی نہیں چل پاتا ہے وہ آتے ہیں اور ایک عام سی بے مقصد اور بے معنی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں ۔ اس لیے آئیں! سوچیں آج ہی سوچیں کہ ہم نے نجانے کتنے سال بے مقصد اور بے معنیٰ گذار دیے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔