ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

شکیل فاروقی  جمعـء 27 مئ 2022
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

روز بروز بڑھتی ہوئی گرمی نے حواس باختہ کر رکھا ہے۔ دن کا آغاز ہی گرمی سے ہوتا ہے اور جوں جوں دن چڑھتا جاتا ہے، درجہ حرارت بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ عورت مرد چھوٹے بڑے سبھی گرمی کی شدت سے پریشان ہیں۔

گرمی کے ہاتھوں عوام پریشان ہیں تو دوسری جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی گرانی نے برا حال کر رکھا ہے۔ جس چیز کو دیکھیں اسے آگ لگی ہوئی ہے۔ پہلے قیمتیں سالانہ بجٹ کے حساب سے بڑھا کرتی تھیں اور اسی کے مطابق تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا کرتا تھا۔

لیکن اب تو یہ حال ہے کہ صبح کچھ دام تو شام کو کچھ اور بھاؤ۔ بیچارہ تنخواہ دار طبقہ بری طرح پریشان ہے کہ کس طرح محدود آمدنی میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکے۔ سب سے زیادہ دگرگوں حالت متوسط طبقہ کی ہے جو اپنی بپتا کسی کو سنا بھی نہیں سکتا۔

ایسے حالات میں کہ جب جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنا بھی محال ہے بیچارہ عام آدمی اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کیسے سکتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں جو اس تمام صورتحال سے قطعی بے نیاز ہوکر صرف اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔ کسی کو اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر ہے تو کوئی برسراقتدار آنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ بڑا عجب تماشہ ہے کہ ڈور کو سلجھانے کی جتنی کوششیں کی جارہی ہیں اتنی الجھتی جارہی ہے۔

ملک اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے لیکن ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی ملکی مفاد کا دعویدار تو ہے لیکن ہر ایک کو بس اپنا ہی مفاد عزیز ہے۔

الزام تراشیوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک دوسرے کے خلاف مکروہ اور گھناؤنا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں ہر کوئی اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسے دیکھیے لنگوٹ کس کر سیاسی اکھاڑے میں کود رہا ہے اور نئے نئے داؤ پیچ آزما رہا ہے۔ ہر کھیل کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں اور اسپورٹس مین سپورٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے لیکن سیاست اور خصوصاً وطن عزیز کی سیاست وہ کھیل ہے جس میں کوئی فاؤل پلے منع نہیں ہے۔ تمام اخلاقی حدود پامال ہو چکی ہیں۔

لہٰذا بقول غالب:

جس کو ہو دین و دل عزیز

اس کی گلی میں جائے کیوں

ایسا نہیں کہ سیاست کا یہ چلن ہمیشہ سے اسی طرح رہا ہے، اگر یہ بات درست ہوتی تو پھر اس میدان میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جیسے لوگ بھلا کیونکر آتے جن کی شرافت نجابت اور سیادت کی مثال نہیں ملتی۔ آج کے سیاسی منظرنامے میں ان کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ صداقت، دیانت، تحمل اور برداشت جو کبھی انسان کا بنیادی جوہر ہوا کرتے تھے اب سیاستدانوں میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ بات بات پر تو تو میں میں کرنا اور الزام تراشی و دشنام طرازی ہمارے آج کے سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہے۔

گستاخی معاف جو جتنا بڑا جھوٹا اور زبان دراز ہے وہ اتنا ہی بڑا سیاستدان سمجھا جاتا ہے اور تو اور اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جن کا تعلق شرفا کے گھرانوں سے ہے۔ زباں بگڑی دہن بگڑا۔ بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑی بھی سیاست کے میدان میں آکر اسپورٹس مین اسپرٹ کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔

سیاست اس قدر پستی کا شکار ہوجائے گی۔ یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کہنے کو تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت عوامی خدمت کی دعویدار بلکہ ٹھیکیدار ہے لیکن ہر ایک کی قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

یہ ہاتھی کے دانتوں والا معاملہ ہے یعنی کھانے کے اور دکھانے کے اور! ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے حسن کی تعریف کرتی ہوئی دکھائی دے گی لیکن عالم یہ ہے کہ خود اس کے خمیر میں جمہوریت کے بجائے آمریت شامل ہے۔ جماعت اسلامی شاید وہ واحد جماعت ہے جس کا طرز عمل جمہوری ہے۔ اس کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے آج تک کبھی شائستگی کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑا۔ مخالفین کی طرف سے بدترین اشتعال انگیزی اور بد زبانی کے باوجود کیا مجال کہ اس کے کسی رہنما نے بھول کر بھی غیر شائستگی کا مظاہرہ کیا ہو۔

یہ بات ہم پوری ذمے داری، دیانتداری اور مکمل غیر جانبداری کی بنا پر کہہ رہے ہیں کیونکہ ذاتی طور پر نہ ہماری کسی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔ ہماری توجہ اور دلچسپی تو صرف وطن عزیز پاکستان کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی تک محدود ہے۔ دیگر کسی اور سے نہ ہمارا کوئی تعلق اور نہ واسطہ۔

ہم تو صرف اس بات کے قائل ہیں کہ بقول بھگت کبیرؔ:

کبیرا کھڑا بجار میں مانگے سب کی خیر

نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ آزاد ہوئے تھے بلکہ وطن عزیز ایک روز پہلے آزاد ہوا تھا لیکن آج دونوں ممالک کا موازنہ کیا جائے تو فرق صاف ظاہر ہے۔ بھارت کی یہ خوش نصیبی رہی کہ آزادی کے بعد اسے آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کی صورت میں ایک ایسا قائد میسر آگیا جس نے اپنے وطن کی کایا پلٹ دی جب کہ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد وفات پاگئے اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان شہید کرکے راستہ سے ہٹا دیے گئے جس کے بعد محب وطن اور اہل قیادت کا خلاء آج تک پر نہیں ہوسکا۔

بدقسمتی سے ہمارا ملک اقتدار کے بھوکوں کے ہتھے چڑھ گیا اور آج تک مطلوبہ قیادت میسر نہیں آسکی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ملک دو لخت ہوگیا اور باقی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور قوم کو کسی مسیحا کی تلاش ہے جو اس کے تن مردہ میں جان ڈال دے۔

وطن عزیز کا زیادہ عرصہ فوجی حکمرانوں کے زیر اقتدار گزرا ہے اور جمہوری دور مختصر ہی رہا لیکن افسوس یہ کہ یہ دور بھی برائے نام جمہوری رہا ہے اور بیچارے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ وطن عزیز کو جو حالات آج درپیش ہیں وہ اسی غلط روی کا نتیجہ ہیں جس کی تمام تر ذمے داری کرپٹ اور نااہل حکمرانوں پر ہوتی ہے جنھوں نے محض لوٹ مار کا بازار گرم رکھنے کے سوائے اور کچھ کام کرکے نہیں دیا۔

ہماری اس سے بڑی بدبختی بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں۔ خدا جانے ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔