بیرون ملک کرکٹ کا جنون

سلیم خالق  اتوار 5 جون 2022
اگر انگلینڈ یا آسٹریلیا جیسی سہولتوں کا 10فیصد حصہ بھی ہمیں مل جائے تو آپ سوچیں کہ ہم کرکٹ میں کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

اگر انگلینڈ یا آسٹریلیا جیسی سہولتوں کا 10فیصد حصہ بھی ہمیں مل جائے تو آپ سوچیں کہ ہم کرکٹ میں کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ فوٹو:فائل

‘‘اتنی گرمی میں بھی یہ لوگ کرکٹ کھیل رہے ہیں یار بڑی ہمت ہے ان کی’’

جدہ سے مکہ جاتے ہوئے جب میں نے کار میں ساتھ موجود اپنے عزیز سے یہ بات کہی تو انھوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ پاکستان میں ہم لوگ بھی تو موسم کی پروا کیے بغیر کھیلتے تھے،اب بھی ایسا ہوتا ہے،سردی،گرمی،بارش کسی کی بھی پروا کیے بغیر کرکٹ کے متوالے اپنا شوق پورا کرتے ہیں،یہاں بھی پاکستانی،بھارتی اور سری لنکنز بڑی تعداد میں مقیم ہیں،کام سے فراغت کے بعد وہ اسی طرح وقت گذارتے ہیں۔

عمرے کی ادائیگی کے بعد میں واپس جدہ آیا اور اگلے روز حرمین ہائی اسپیڈ ٹرین کے ذریعے مدینہ چلا گیا،بذریعہ کار راستہ ساڑھے چار گھنٹے اور بس میں اس سے بھی زیادہ وقت لگتا ہے لیکن اس برق رفتار ٹرین کے ذریعے ایک گھنٹے 45منٹ میں آپ جدہ سے مدینہ پہنچ جاتے ہیں،سعودی عرب کی کرکٹ ٹیم موجود ہے،گزشتہ برس اس نے آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ ایشیا اے کوالیفائر میں بھی حصہ لیا تھا مگر اس میں بیشتر کھلاڑی تارکین وطن پاکستانی ہی ہیں۔

سعودی نوجوان فٹبال کو پسند کرتے ہیں،سابق کرکٹر اقبال سکندر نے سعودی عرب میں کافی عرصے کرکٹ کے فروغ کا کام کیا ہے، اب بھی وہاں کھیل کا شوق بڑھانے کیلیے پاکستان کو حصہ ڈالنا چاہیے،میں سعودی عرب سے برطانیہ آ گیا،40ڈگری سے زائد درجہ حرارت سے جب لندن پہنچا تو وہاں کا ٹیمپریچر 9 تھا،لارڈز میں انگلینڈ کا نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ جاری ہے، یہاں ہمیشہ ٹیسٹ میچز میں بھی بھرپورکرائوڈ آتا اور لائنیں لگتی ہیں ،ای سی بی نے ٹکٹ کے نرخ بڑھا دیے پھر بھی شائقین کی بڑی تعداد پہنچی۔

انگلینڈ میں آپ جہاں بھی چلے جائیں سر سبز میدان نظر آئیں گے،آج کل کے دور میں جب بچے موبائل فون پر ہی زیادہ وقت صرف کرتے ہیں یہاں اب بھی جسمانی سرگرمیوں کو اہمیت دی جاتی ہے،کلب کرکٹ باقاعدگی سے ہوتی ہے،بیشتر میچز کلبز اپنے یوٹیوب چینلز پر براہ راست نشر کرتے ہیں،اب جس علاقے میں بھی چلے جائیں وہاں کوئی نہ کوئی میدان ضرور ملے گا جہاں بچے اور نوجوان کرکٹ،فٹبال یا کوئی اور دوسرا کھیل کھیلتے نظر آئیں گے۔

پاکستان سے باہر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہاں کچھ عرصے قبل تک دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں،میں یہ تہیہ کر کے آیا ہوں کہ سیاست پر کسی سے بات نہیں کروں گا اسی لیے فورا موضوع تبدیل کر دیتا ہوں،بیشتر پاکستانیوں کو ملکی حالات پر بڑی تشویش ہے،البتہ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ کافی عرصے بعد ہمارے کرکٹرز بھی اب اپنی کارکردگی کے سبب عالمی اسٹارز بن گئے ہیں، خصوصا بابر اعظم،محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی کے گورے بھی بڑے مداح ہیں۔

انگلینڈ میں کئی سابق پاکستانی کرکٹرز بھی مقیم ہیں،مجھے ایک دوست نے بتایا کہ سرفراز نواز کی صحت کافی خراب ہو چکی اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی مشکل ہوتی ہے،عطا الرحمان کے بارے میں پتا چلا کہ وہ اب ٹیکسی چلاتے ہیں،کئی سابق کرکٹرز کے بچے اب کھیل رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انھیں انگلینڈ کی نمائندگی کا موقع ملے،اس بار تو کئی پاکستانی کرکٹرز کائونٹی کرکٹ کھیلنے آئے ہوئے تھے لیکن ویسٹ انڈیز سے سیریز کی تیاریوں کے لیے بیشتر واپس چلے گئے۔

ان دنوں ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کے میچز جاری ہیں میری کوشش ہے کہ کسی اسٹیڈیم جا کر کوئی میچ دیکھوں تاکہ اندازہ ہو کہ ہماری پی ایس ایل اور انگلش لیگ میں کتنا فرق ہے،لندن سے بذریعہ جہاز میں گلاسگو پہنچا جہاں سے برطانیہ کے سب سے بلند پہاڑ بین نیوس کا راستہ تقریباً ڈھائی سے تین گھنٹے کا ہے،اس دوران دلکش قدرتی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، تقریباً 27پائونڈ کا ٹکٹ لے کر اب چیئر لفٹ سے پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں، ٹیسٹ کرکٹر محمد رمضان کے ساتھ وہاں جاتے ہوئے نائنٹیز کے دور کی خوب باتیں ہوئیں۔

1997یا شاید اس کے بھی بعد ڈومیسٹک ٹیمیں جب کراچی آتیں تو بیشتر کا قیام شاہراہ فیصل کی ایمبیسی ہوٹل میں ہوتا،میں ان دنوں منیر حسین صاحب کے کرکٹ میگزین اخبار وطن کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا،میں نے اس ہوٹل میں کئی کرکٹرز کے انٹرویوز کیے،اس وقت پی سی بی نے کھلاڑیوں کو پابندی کی زنجیروں میں نہیں باندھا ہوا تھا اور صرف ٹیم منیجر کو بتا کر وہ میڈیا سے بات کر لیا کرتے تھے،اب تو بیچارہ ایک فرسٹ کلاس میچ کھیلا ہوا بچہ بھی رابطے پر صحافی سے کہتا ہے کہ میڈیا ڈپارٹمنٹ سے پوچھ لیں،نئے نئے بچے بورڈ میں آ کر خود کو طرم خان سمجھنے لگے ہیں۔

خیر بات اسکاٹ لینڈ کی ہو رہی تھی،ان کی قومی ٹیم میں بھی پاکستانی نژاد کرکٹرز موجود ہیں، رمضان کا بیٹا امان بھی اچھی کرکٹ کھیلتا ہے،یہاں بھی کھیلوں کا بہترین انفرا اسٹرکچر موجود ہے،بچے صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں،میں یہ دیکھ کر سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی میدان کم تھے،جو تھے ان میں سے بھی کئی پر اب اکیڈمیز وغیرہ کے نام پر قبضہ ہو چکا،نارتھ ناظم آباد کے جن میدانوں پر میں نے بچپن میں کرکٹ کھیلی ان میں سے ایک پر ہاکی اکیڈمی بنا دی گئی اور دوسرے پر بھی نجانے کیا کام ہو رہا ہے۔

اب یقین مانیے سہولتوں کی عدم موجودگی کے باوجود بھی اگر ہمارے ملک سے اتنا ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے،اگر انگلینڈ یا آسٹریلیا جیسی سہولتوں کا 10فیصد حصہ بھی ہمیں مل جائے تو آپ سوچیں کہ ہم کرکٹ میں کہاں پہنچ سکتے ہیں،حکومت ابھی اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے، جب کبھی حالات بہتر ہوں کھیلوں کے حوالے سے کوئی پالیسی بنانی چاہیے اس سے ملک کا ہی بھلا ہوگا،خیر اب میرا اسٹیشن آنے والا ہے، قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے گلاسگو سے لندن واپسی کے لیے میں نے ٹرین کے سفر کا انتخاب کیا، اس میں ساڑھے چار گھنٹے سے زائد لگے،اب اگر ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کا میچ دیکھنے گیا تو آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرئوں گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔