کتابوں کے درمیان

امجد اسلام امجد  اتوار 5 جون 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

آج قائداعظم لائبریری کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں جاتے ہوئے پھر ایک دم کتاب سے متعلق یادوںنے گھیر لیا اور میں تقریباً چھ دہائیوں کے فاصلے پر موجود ایک ایسے منظر کاحصہ بن گیا جو میرے اُس وقت کے گھر واقع فلیمنگ روڈ سے موچی دروازے سے بائیں ہاتھ کی پہلی گلی نما سڑک پر واقع الفاروق لابئریری تک پھیلا ہوا تھا۔

والد صاحب مرحوم مہم جوئی اور جاسوسی ناولوں کے شوقین تھے اور میری خوشگوار ڈیوٹی اُن کی پڑھی جاچکنے و الی کتاب کو واپس کرکے کوئی اور کتاب لانا تھی جن کے مصنف عام طور پر ابنِ صفی یااکرم الہٰ آبادی اور مترجم مظہر انصاری یا تیرِتھ رام فیروز پوری ہوا کرتے تھے۔ یہ ڈیوٹی خوشگوار اس لیے تھی کہ مجھے نہ صرف راستے میں ان کتابوں کا کچھ حصہ پڑھنے کا موقع مل جاتا تھا بلکہ ابنِ صفی کا تو پورا ناول (جو عام طور پر 112صفحے کا ہوتا تھا ) اسی چلنے پھرنے میں ختم ہوجاتا تھا۔

اس طرح کی آنہ لائبریریاں اُس زمانے میں شہر کے ہر علاقے میں پائی جاتی تھیں، آگے چل کر وطنِ عزیز کے اندر اور باہر لاکھوں کتابوں پر مشتمل درجنوں لائبریریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر ان آنہ لائبریریوں کا اپنا ہی مقام اور کلچر تھا اور رجسٹروں پر ہر کتاب کے آنے جانے کا وقت بہت باقاعدگی اور اہتمام سے لکھا جاتا تھا کہ ہر چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد کرائے میں ایک آنے کا مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔

دوسری لائبریری جو میری زندگی میں آئی وہ مسلم ماڈل ہائی اسکول کی لائبریری تھی جہاں مجھے نسیم حجازی کے اُس وقت تک کے مطبوعہ تمام ناول بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ تعلیمی اداروں میں یہ لابئریری کلچر ہائی اسکولز سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک درجہ درجہ پھیلا ہوا تھا۔

مطالعے کے اوقات میں کمی تو ٹیلی وژن کی مقبولیت کی وجہ سے ہوئی لیکن اس کے اصل برے دن انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی آمد کے ساتھ آئے کہ کولڈ پرنٹ میں شایع شدہ کتابوں کی جگہ ان کے الیکٹرانک ورژن نے لے لی اور ہر اسمارٹ فون کسی بھی طرح کی لابئریری کے لیے کھل جا سِم سِم کی شکل اختیار کر گیا ،کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت زیادہ تر پچاس برس سے اوپر کے لوگوں تک محدود ہوگئی، نوجوان نسل اپنی درسی کتابوں کے علاوہ ہر طرح کی کتابوں سے دُور ہوتی چلی گئی۔ ادب ، تاریخ ، فلسفہ اور معلومات عامہ سے متعلق کتابیں ان موضوعات سے تعلق رکھنے والوں تک محدود ہوگئیں اور اب یہ عالم ہے کہ بائیس کروڑ کے اس ملک میں اچھے اور نمایندہ ادیبوں کی کتابیں بھی ہزاروں کے بجائے سیکڑوں کی تعداد میں چھپتی ہیں اوران میں سے بہت کم کو دوسرے ایڈیشن کا ذائقہ چکھنے کو ملتا ہے ۔

قائد اعظم لابئریری لاہورکا شمار وطنِ عزیز کی چند باقی ماندہ نمایندہ اور معروف لابئریریوں میں ہوتا ہے۔ میٹنگ کے دوران ڈائریکٹر جنرل صاحب نے ایک تصویر دکھائی جس میں تیس چالیس نوجوان قطار بنا کر کھڑے لائبریری کھلنے کا انتظار کرتے دکھائی دے رہے تھے، ابھی ہم اس خوشگوار حیرت کے جادو میں ہی تھے کہ اُن کے اگلے جملے نے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ روزانہ یہ سب سول سروس کے امتحان کی تیاری کے لیے آتے ہیں کہ یہاں انھیں اپنے مطلب کی کتابیں آسانی سے مل جاتی ہیں اور ان میں سے بیشتر مطلوبہ کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مستقبل کے بیوروکریٹ روزانہ یہاں بیٹھنے اور ملازمت میں آنے کے بعد ’’کتاب‘‘ کے کس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں گے ۔

دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری اور تعلیمی اداروں کی ہزاروں لابئریریاں جن کو ہر سال لاکھوں کے فنڈ ملتے ہیں وہ تحقیقی ادب کی حامل عمدہ اورمنتخب کتابیں اول تو خریدتی ہی نہیں اور اگر اس کا دعویٰ بھی کریں تو تحقیق پر پتہ چلتا ہے کہ یہ نیک کام منتخب پبلشرز کے تعاون سے پورا کیا جاتا ہے اور زیادہ تر ایسی جعلی اور دو نمبر کتابیں منتخب کی جاتی ہیں جن کے بارے میں دونوں پارٹیوں میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے ۔

ڈائریکٹر جنرل صاحب نے بتایا کہ اُن کے کنٹرول میں صرف گیارہ لائبریریاں ہیں سو وہ اُن کے نقائص تو دُور کر سکتے ہیں مگر باقی ہزاروں چھوٹی بڑی لائبریریوں کا حساب اُن سے یا اُن کے سرپرست اداروں سے ہی لیا جاسکتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ ا گر کوئی باقاعدہ نظام مرتب کیا جاسکے تو عمدہ اور معیاری کتابوں کے پہلے ایڈیشن دس ہزار تک جا سکتے ہیں جب کہ اس وقت بیشتر کتابیں 500کی تعداد میں چھپ رہی ہیں جنھیں زیادہ تر مصنفین، جزوی یا کُلی طور پر اپنی جیب سے خرچ کرکے چھپواتے ہیں اور پھر انھیں دوستوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں کہ کاونٹر پر تو بیسٹ سیلر کتابیں بھی سال میں ایک ہزار سے زیادہ فروخت نہیں ہوتیں۔

قائداعظم لائبیرری  Lending  لائبریری نہیں یعنی آپ یہاں سے ایشو کراکے کتاب ساتھ نہیں لے جاسکتے، اسے وہیں بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت دلچسپ اور عجیب تھی کہ ا س کے باوجود وہاں سے سینکٹروں کی تعداد میں ہر سال کتابیں چوری ہوجاتی ہیں اور عمومی تحقیق کے مطابق یہ کام بھی زیادہ تر یہی سول سروس کے شوقین حضرات کرتے ہیں۔

ان تمام حقائق اور مسائل کے باوجود اس لائبریری کا دم بہت غنیمت ہے کہ نہ صرف یہ اپنی سہولیات کے اعتبار سے مثالی ہے بلکہ یہاں ہر موضوع پر نئی یا پرانی معیاری کتابیں پڑھنے والوںکو مہیا کی جاتی ہیں، اس کی عمارت بھی اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بہت اہم اور شہر کی نمایندہ عمارتوں میں سے ایک ہے ۔ یہاں لوگ اپنے اسٹاف کے ساتھ ساتھ لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کے لیے بھی بہتر سے بہتر سہولتوںکی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کی بے شمار الماریوں میں موجود بے مثال کتابوں کی خوشبو بھی آپ کو کچھ دیر کے لیے ایک خوابوں سے بھری دنیا میں لے جاتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔