- مشی گن یونیورسٹی میں تقسیم اسناد کی تقریب اسرائیل کیخلاف مظاہرہ بن گئی
- اوآئی سی ممالک غزہ میں جنگ بندی کیلئے مل کرکام کریں، وزیرخارجہ
- اوور بلنگ پر بجلی کمپنیوں کے افسران کو 3 سال کی سزا کا بل منظور
- نابالغ لڑکی سے جنسی زیادتی کی کوشش؛ 2 نوجوان مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل
- ٹی20 ورلڈکپ جیتنے پر ہر کھلاڑی کو کتنا انعام ملے گا؟ محسن نقوی نے اعلان کردیا
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی گاڑی کھائی میں گرگئی؛ ہلاکتیں
- ویمنز ٹی20 ورلڈکپ؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- ایمل ولی خان اے این پی کے مرکزی صدر منتخب
- جس وزیراعلی کو اسلام آباد چڑھائی کا شوق ہے، اپنے لیڈر کا حشر دیکھے، شرجیل میمن
- پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے چیف ٹیکنیکل آفیسر عالمی اعزاز کیلئے منتخب
- گورنر پنجاب کی تقریب حلف برداری ملتوی
- نائلہ کیانی نے ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- اسپتال کے واش روم میں کیمرہ نصب کرنے والا ملزم گرفتار
- خود کش بمبار کو نشے کے انجکشن لگائے گئے، اہل خانہ
- بڑے کھلاڑیوں کو کیسے پی ایس ایل کھلایا جائے! پی سی بی نے منصوبہ بنالیا
- جنگ بندی معاہدہ؛ امریکا رفح پر اسرائیلی حملہ نہ ہونے کی ضمانت دے، حماس
- کینیڈا میں قانون کی بالادستی ہے، ٹروڈو کا بھارتیوں کی گرفتاری پر ردعمل
- ہولڈنگ کمپنی کیلیے پی آئی اے کے 100 فیصد شیئر ہولڈنگ اسکیم کی منظوری
- چند دنوں میں پاک چین اعلیٰ سطح کے رابطے متوقع
- گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات، سابق نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر طلب
پی ایس ایل اور انگلش ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ
کئی برس پہلے کی بات ہے جب میرا پہلی بار لندن جانا ہوا تومیں کرکٹ کے گھر لارڈز پہنچ گیا،وہاں یہ سوچ کر ہی عجیب سی کیفیت ہو گئی کہ یہ وہ تاریخی گراؤنڈ ہے جہاں کئی سو برس سے کرکٹ کھیلی جا رہی ہے،میں نے گارڈ سے اندر جانے کی اجازت طلب کی،اس نے انٹرکام پر کسی خاتون سے بات کرائی، میں نے ان کو بتایا کہ پاکستان سے آیا ہوا اسپورٹس صحافی ہوں اور لارڈز دیکھنا چاہتا ہوں،انھوں نے انتظار کرنے کا کہا،چند منٹ بعد وہ خود باہر آئیں اور مجھے لارڈز کا دورہ کرایا،گراؤنڈ میں میری تصاویر بھی بنائیں۔
اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارے ملک میں کوئی آ کر کہے کہ میں فلاں ملک سے آیا ہوں اور قذافی اسٹیڈیم دیکھنا چاہتا ہوں تو شاید ہی ہم اس کی خواہش پوری کریں،زیادہ چانس یہی ہے کہ اسے ٹرخا دیں گے،یہ پرانا واقعہ مجھے اس وجہ سے یاد آیا کہ اس بار بھی ایسی ہی صورتحال پیش آ گئی،پاکستان کے کئی کرکٹرز انگلینڈ میں کاؤنٹی میچز کھیلنے گئے تھے،بیشتر ہوم سیریز کی وجہ سے واپس آ چکے،میں نے شاندار کارکردگی کے باوجود نظرانداز شدہ شان مسعود کی ٹیم کا میچ دیکھنے کا ارادہ کیا،ویب سائٹ سے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ٹام سے رابطہ ہوا،چند منٹ میں جواب آ گیا،انھوں نے مجھے ایک لنک بھیجا جس پر تفصیلات درج کردیں،اسی روز مجھے ای میل پر میچ کا اور پارکنگ پاس بھی مل گیا۔
میں ان کی اسپیڈ دیکھ کر حیران رہ گیا،ساتھ یہ بھی سوچا کہ کاش ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہوتا،لندن سے ٹرین پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں آپ ڈربی پہنچ جاتے ہیں،راستے بھر دلکش مناظر اور ہر طرف ہریالی دیکھنے کو ملتی ہے،انگلینڈ میں کوویڈ کے تھوڑے بہت کیسز تو اب بھی سامنے آتے ہیں مگر لوگ پابندیوں سے اکتاہٹ کا شکار ہو گئے تھے،اب وہ زیادہ نہیں ڈرتے،ماسک لگانا بھی لازمی نہیں رہا اور شازونادر ہی کوئی چہرہ ڈھانپے دکھائی دیتا ہے۔
میں جب ڈربی پہنچا تو میچ شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا،میری کپتان شان مسعود سے بات ہوئی،وہ ہمیشہ کی طرح بہت پراعتماد دکھائی دیے،جب گراؤنڈ گیا تو وہاں شائقین کی لمبی قطاریں نظر آئیں،البتہ بڑے آرگنائزڈ انداز میں ٹکٹ اسکین کر کے انھیں اندر بھیجا جاتا رہا،انگلش ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کا آغاز 2003میں ہوا تھا،یہ مختصر طرز میں دنیا کی پہلی پروفیشنل لیگ ہے،اس میں انگلینڈ اینڈ ویلز کی 18فرسٹ کلاس کاؤنٹیز شریک ہوتی ہیں، دنیا کے معروف کھلاڑی لیگ کا حصہ بنتے ہیں۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا،ڈربی کاؤنٹی کا گراؤنڈ بھی شہر کی طرح چھوٹا سا ہے،اس میں 10ہزار شائقین آ سکتے ہیں، اس روز اسٹیڈیم مکمل بھرا ہوا تھا،میں نے میڈیا سینٹر کے بجائے شائقین کے درمیان بیٹھ کر میچ دیکھنے کا سوچا،ویسے پی سی بی کے دوستوں کی مہربانی سے اب ملک میں بھی میچز مختلف باکسز میں بیٹھ کر ہی دیکھتا ہوں،اس کا الگ ہی مزا ہے،یہ ڈر بھی نہیں ہوتا کہ کچھ لکھنے یا بولنے سے کوئی ناراض ہو گیا تو کارڈ نہیں بنے گا،خیر ڈربی میں دور دور تک کوئی کرسی خالی دکھائی نہیں دی،میں نے چانس لیا اور اوپر کی جانب گیا وہاں جگہ مل ہی گئی،گورے کرکٹ سے مکمل لطف اندوز ہو رہے تھے،وہ اپنے انداز میں شور بھی مچاتے،میں واپس نیچے آیا تو وہاں مشروب سے لطف اندوز ہوتے کئی افراد باؤنڈری کے پاس دکھائی آئے۔
ان پر نظر رکھنے کے لیے ایک سیکیورٹی اہلکار بھی مستعد کھڑا تھا،ایک انکلوڑر میں لارڈز کی طرح ٹائی پہنے بزرگ انگریز بھی موجود تھے،میں نے پی ایس ایل سے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کا موازنہ کیا تو اپنے ایونٹ کو ہزار گنا بہتر پایا،ہماری لیگ میں کرکٹ کا معیار بہت آگے ہے،گراؤنڈ میں ماحول اور بھی زبردست ہوتا ہے،انگلینڈ میں بھی ڈومیسٹک لیگ کے لحاظ سے معیار بہتر ہے،البتہ سنا ہے ’’دی ہنڈرڈ‘‘ میں بھی زیادہ اچھی کرکٹ ہوتی ہے،بہرحال شائقین انگلینڈ میں بھی ہر اچھے شاٹ یا گیند پر کھلاڑیوں کو خوب داد دیتے ہیں،یہاں پاکستانی کرکٹرز کی بہت فین فولووئنگ ہے،شان مسعود کی بیٹنگ کے دوران بھی لوگ ان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
بہرحال میچ دلچسپ تھا،اچھا وقت گذرا، میں وہاں سے لندن واپس آگیا، اگلے روز میری جدہ کی فلائٹ تھی،سعودی عرب نے اب سیاحوں کو بہت سہولتیں فراہم کر دی ہیں،مجھے بھی آتے ہوئے تقریباً 24ہزار روپے میں ایک سال کا ملٹی پل ویزا مل گیا تھا جس میں انشورنس بھی شامل ہے،واپسی پر بھی میں نے ایک دن سعودی عرب میں قیام کیا،جدہ کو دبئی کی طرز پر جدید شہر بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، جگہ جگہ پرانی بلڈنگ مسمار نظر آئیں،وہاں کچھ اور بنے گا۔
چند برس میں شہر کی شکل ہی تبدیل ہو جائے گی، ایئرپورٹ بھی نیا بنا ہے جہاں کے اسٹاف میں با پردہ خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے،ماضی کے مقابلے میں اب بہت تیزی سے امیگریشن کے مراحل طے ہوتے ہیں،البتہ پاکستان سے آنے والوں کو پولیو ڈراپ پینا لازمی ہے،یہاں پر اب حجاج کی آمد شروع ہو چکی ہے،غالبا 8جون سے سیاح جدہ سمیت چار شہروں میں نہیں جا سکیں گے،عمرے کے لیے آنے والوں کو ایک مخصوص ایپ پر وقت لینا پڑتا ہے،کوویڈ کی پابندیاں کافی کم ہو گئیں لیکن شاپنگ مالز وغیرہ پر ماسک پہنا پڑتا ہے،بعض مقامات پر ویکسین شدہ ہونے کی ثبوت والی ایپ کا گرین اسٹیٹس بھی دیکھا جاتا ہے۔
پاکستان کی ویسٹ انڈیز سے سیریز شروع ہونے والی ہے،میں نے اپنی چھٹیوں کا پلان ایسے تیار کیا تھا کہ میچز سے پہلے ہی وطن واپس آ جاؤں،ویسے صحافی کبھی چھٹی پر نہیں ہوتا،میں نے بھی سعودی عرب اور برطانیہ میں جو دیکھا وہ آپ تک پہنچانے کی کوشش کی،اب واپسی کے بعد ویسٹ انڈیز سے مقابلوں کے حوالے سے بات ہوگی،ہماری ٹیم کئی ماہ سے فارغ تھی،اب میچز کا وقت آنے والا ہے تو مزید انتظار نہیں ہوتا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔