آج کے ڈاکوکل کے سوداگر

سعد اللہ جان برق  بدھ 8 جون 2022
barq@email.com

[email protected]

اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ دنیاکس کے ’’دم قدم‘‘ اوربرکت سے آباد ہے تو ہم ذرا سا بھی پانی پئے بغیرجواب دیں گے کہ احمقوں کے دم قدم سے۔پشتو کی ایک کہاوت میں تویہاں تک کہاگیاہے کہ اگر احمق نہ ہوتے توبچارے عقل مند بھوکوں مرجاتے بلکہ اب تک مرچکے ہوتے۔ویسے بے بدل دانشور خلیل جبران نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔

یہ احمق ہی ہیں جوکماتے اورعقل مندوں کو کھلاتے ہیں اورعقل مند صرف اتناکرتے ہیں کہ کوئی نعرہ،کوئی نظریہ، کوئی عقیدہ،کوئی ترانہ اورکوئی نغمہ ایجاد کرلیتے ہیں اورپھر نسلوں تک اس کادیاکھاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس سلسلے میں ان عامل، کامل، پروفیسروں اور ماہرین جنات وعملیات کوالزام دیتے ہیں جوسائل کو چالیس سال کی ’’امید‘‘ پکڑاتے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان عاملوں کی ’’مار‘‘ پھربھی محدود ہے، پناہ مانگئے ان سے جوکل کی امید بیج بیج کر قاورن ہوگئے ہیں اورخداماروں کی وہ کل نہ کبھی آئی تھی نہ آئے گی۔ہم سے اکثر لوگ شاکی رہتے ہیں کہ ہم ان شاعروں، صورت گروں اورافسانہ نویسوں کو ’’برا‘‘ کیوں کہتے ہیں جو ’’کل‘‘کوبیج کرعوام کو ’’آج‘‘لٹنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک تقریب میں ایک گائیک نے فیض احمد فیض کی وہ نظم سنائی،جس میں مجھے اور آپ کو بڑی خوبصورتی کسی دن کی بات کی ہے ۔ عوام بیچارے  سمجھے کہ وہ دن جس کا وعدہ ہے ابھی کل ہی آنے والا ہے جس میں اہل حکم کی ایسی کی تیسی کی جائے گی،تخت گرائے جائیں گے، تاج اچھالے جائیں گے اورراج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اورتم بھی ہو۔

ہم نے دیکھاکہ ہال میں بیٹھے ہوئے خلق خدا اچھلنے لگتے ہیں جیسے وہ ’’دن‘‘ تشریف لاچکا ہے اورہال کے دروازے پر ان کاانتظار کررہاہے۔آج لوٹ کران ’’کل‘‘ بیجنے والوں یا کل کی سہانی زندگی کا خواب  دکھاکر آج کا نان ونفقہ لوٹنے والوں کی زیادہ تفصیل میں ہم نہیں جائیں گے کیوں کہ کہیں کل کے لیے ہماری تمنا آج ہی پوری نہ کردی جائے۔ بس اتنا بتا دینا کافی ہے کہ جس طرح آسمان، سورج، چاند، ستارے اوردن رات کبھی نہیں بدلتے، اسی طرح ہمارا یہ خدامارا ’’آج ‘‘ بھی ’’کل‘‘ میں بدلنے والا نہیں کیوں کہ کل کبھی نہیں آتا بلکہ آج بن کرہی آتاہے اورآج توہے ہی آج کے سوداگروں کا۔

من کہ امروزم بہشت نقد حاصل می شود

وعدہ فردائے واعظ را چرایا در کم

اگرنعروں، ترانوں اوربڑھکوں سے کبھی فرصت ہوتو ذراسوچ کردیکھیے کہ ماہرین عملیات وتعویذات اوران سیاسی لیڈروں میں ’’فرق‘‘ کیاہے؟ وہ بھی کل بیج کر آج لوٹتے ہیں اوریہ بھی آج لوٹ کرکل بھیجتے ہیں۔

یونانی بڑے ہوشیارتھے، انھوں نے پنڈوراکے اسطورے میں امید کوبوڑھا اورلنگڑابتایاہے جونہ جانے کب پہنچے یانہ پہنچے،بہت سے لوگوںکوپنڈورااوراس کے باکس کی کہانی تفصیل سے معلوم نہیں ہے، اس لیے ذراتفصیل میں جانابہترہوگا،یونان میں جب سورج پرستوں کوغلبہ حاصل ہوا توانھوں نے پرانی اساطیرمیں تبدیلی کی۔ پرانی اساطیر میں سب کچھ مادرارض گیتی  اوراس کی پہلی اولادیں ٹیٹان تھے لیکن نئے دورمیں جب اولمپین اساطیر بنے، ان میں ساری طاقت زیوس (سورج) کوحاصل ہوگئی اوراس نے زمین گیتی اوراس کی اولاد ٹیٹانوں کو زیرزمین قیدکردیا۔

ان اولین دیوتاؤں یا ٹیٹان میں دوبھائی اپی متھیس اورپرومتھیس بھی تھے۔ یوں تواولمپئین دیوتاؤں یا زیوس وغیرہ نے ان ٹائٹینوں کے ساتھ اوربھی کئی پینترے کیے لیکن یہ پنڈورا کا پینترہ بڑامشہور ہے۔ اولمپئین دیوتاؤں نے ایک حسین وجمیل عورت تخلیق کی جسے پنڈورا کا نام دیا۔ پنڈوراکامطلب سب کا تحفہ،دی گفٹ آف آل،وہ اصل میں ٹائٹینوں کومبتلائے آزار کرنا چاہتے تھے،پرومتھیس ہوشیار اوردوراندیش تھا، اس لیے اس نے یہ تحفہ قبول کرنے سے انکارکیالیکن کم عقل اورکوتاہ بین اپی متھیس اس پرلٹوہوگیا۔

پنڈوراکودیوتاؤں نے ایک صندوق دیا،اس ہدایت کے ساتھ کہ اسے ہرگزنہ کھولنا،یہ بھی ان کاجہل تھا ’’ترغیب بذریعہ ممانعت‘‘چنانچہ پنڈورا نے وہ صندوق کھول لیا،اس میں دنیا کی ساری مصیبتیں اور بلائیں بند تھیں۔ رنج و غم، بیماریاں، غربت، معذوری اور موت وغیرہ،سب سے آخرمیں ایک بوڑھا یا بوڑھیا،  جولنگڑی بھی ہے۔

کمزور اور لاغر بھی ہے، وہ لاٹھی کا سہارا لیتی ہوئی گرتی پڑتی نکلی۔ یہ ’’امید‘‘تھی کہ انسان ساری مصیبتوں اورابتلاؤں میں پرامید ہوتاہے اوریہی امید ہے جسے ہوشیارلوگ احمقوں کوبیجتے تھے اور آج بھی بیچا جارہا ہے،فکرنہ کرو، دھیرج رکھو،آج نہیں توکل ،کل نہیں توپرسوں، تمہاری حالت بھی اچھی ہوجائے گی۔

ظالم کیفرکردارکوپہنچ جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔لیکن اب تک وہ کل اوروہ امید نہیں آئی اور نہ ہی کبھی آئے گی بلکہ کفن کش سے چھٹکاراملتا ہے تو اس کے بیٹے سے واسطہ پڑتاہے۔ یہ امید، امید اورکل کل کہنے والے اس کے سوداگرہیں، چاہے عامل کاملوں کی صورت میں ہوں، سیاسی و مذہبی لیڈروں کی صورت میں ہوں یاان کے بغل بچوں شاعروں، صورت گروں اورافسانہ نوسیوں کے روپ میں ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔