شعور کی رو کا ’’جنگل ستان‘‘

وارث رضا  اتوار 12 جون 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

شعور و آگہی کے سات دروازوں کے تمام راز سے واقف ہم سب کا شاعر ادیب،پلے رائٹر اور نظریاتی تھیٹر کی کمال مہارت رکھنے والا وجیہہ وارثی کا قلم اور ذہن سوشلسٹ سماج کے قیام کی واضح سوچ کے ساتھ امریکی سرمایہ داری کے ترجمان قلمکار جارج آرویل کے مشہور زمانہ ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کے سوشلسٹ مخالف ناول کے سحر سے اس سماج کی نسل اور فرد کے ذہن کو نکالنے میں جتا ہوا ہے۔

وجیہہ نے حقیقی سماج کی چیرہ دستیوں سے دہائیوں بعد اپنی نئی ناول’’ جنگل ستان‘‘ میں خوبصورت پیرائے میں امریکی مصنف کو جواب دینے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے،وجیہہ نے ’’جنگل ستان‘‘ کے بیانیے میں جہاں سماج کے المیوں پر بحث کی ہے،وہیں وہ سماج کی بالادست سرمایہ دارانہ قوتوں کی چیرہ دستیوں اور سازشوں سے بھی قاری کو ’’جنگل ستان‘‘ ناول میں آگاہ کرتا چلا گیا ہے۔

وجیہہ کے اس ناول کا بنیادی بیانیہ بچپن اور بچپن میں لوٹ کر اپنے ماضی کی ان کمزوریوں کا جائزہ لینا ہے جو فرد زمانے کی رنگینیوں میں بھول جاتا ہے،جس کے بعد عمر کے آخری لمحوں میں فرد خود اور سماج سے سوال کرتا ہے اور سب سے پوچھتا رہتا ہے کہ بتاؤ کون ہے وہ جس کی زندگی میں اس کے بچپن کے عکس نظر نہ آتے ہوں،مگر پھر بھی فرد زندگی کے تجربوں کے زعم میں بچپن کو بے توقیر کرنے پر تلا رہتا ہے اور پھر آخر کار بچپن اس کے سینے پر چڑھ کر اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے گھومتا ہے اور پھر وہ انسان دوبارہ سے اپنے ادھورے خواب بچپن میں جا کر ازسر نو بننا اور تکمیل کرنا چاہتا ہے،اس لمحے اس میں خواہش جاگتی ہے کہ اسے اس کا بچپن دوبارہ لوٹا دیا جائے۔

کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان کے اندر کا بالک کبھی نہ مرنے دیا جانا چاہییے،جس انسان کے اندر کا بچپن ہی مر جائے یا مار دیا جائے تو اسی دم زندگی بے معنی اور پھیکی ہو جاتی ہے،وجیہہ کا دعوی کسی طور غلط نہیں کہ یہ ناول آٹھ سے اسی سال تک کے افراد کے لیے ہے،وجیہہ کا یہ کارنامہ کسی طور کم نہیں کہ اس نے حیات کی آفرینی کے لیے اپنے اندر کے بالک کو زندہ رکھا اور ’’جنگل ستان‘‘ کے ذریعے زندگی کے مفاہیم اہل جنوں کو دیے۔

وجیہہ نے اس ناول میں بچوں کی ترجمانی ڈوڈو اور لڈو کے حوالے کرکے بچوں کے معصومانہ سوال ان کی حیرانی،پریشانی استعجاب اور خوف کے ساتھ پھر شرارت کے لیے تیار ہو جانے اور پھر سہم جانے کی تمام طفلانہ جزئیات کو بہت تخلیقی انداز سے قاری کے احساس تک پہنچایا ہے،ڈوڈو اور لڈو کے اچانک سوالات اور کچھو کوما کے صبر کا خوبصورت امتزاج اس ناول کا بہت خوبصورت پہلو ہے،اسی طرح اس ناول میں عورت حقوق کو ایک اچھوتے زاویئے سے اجاگر کیا گیا ہے کہ جس میں شیر کی مادہ شیرنی کی دم گم ہونے پر جنگل کے تمام چرند پرند اور چوپائے پریشان ہیں اور شیرنی کی عزت کے بطور محافظ سب مل کر شیرنی کی گم شدہ دم کے لیے یکسو ہیں کہ ان سب کو مادہ کے حقوق اور اس کی اہمیت کا علم بھی ہے اور ادراک بھی…جب کہ انسانوں کے جنگل میں خود کو ترقی یافتہ کہلوانے والا انسان آج بھی عورت کے احساس اور اس کے وجود کی بے توقیری پر پدر شاہانہ سوچ لیے کرو فر کے ساتھ بغیر شرمندگی سماج میں معتبر بنا پھر رہا ہے۔

وجیہہ نے ’’جنگل ستان‘‘ میں اس ملک میں سات دہائیوں سے جاری ریاستی نا انصافی، معاشی اور سیاسی آزادیوں کو سلب کرنے کو جنگل کے سات دروں میں منقسم کیا ہے،مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس ناول میں ساتوں آسمانوں کی خبر بھی نہ جانے کہاں سے لے آیا اور اس ملک میں بکنے والے عقیدے کو کیونکر ’’لومڑ‘‘کی عیاریوں کے سپرد کر دیا،شاید کہ یہی کچھ سات دہائیوں سے طاقتور لومڑ خصلت کی ’’اشرافیہ‘‘ عوام سے کر رہی ہے،وجیہہ کے اس ناول کو پڑھتے وقت آپ ایک ایسے سحر میں مبتلا ہو جائیں گے جس میں آپ کی سیاسی،معاشی اور سماجی محرومیاں اچھل اچھل کر آپ سے ہمکلام ہونگی۔

میرے مطالعے کی روشنی میں کم گو اور ذہن و دل میں نظریاتی شعور کا جوالا لیے وجیہہ مجھے ایک ایسا سماجی انقلابی لگا جو قلم کی تیز تلوار سے استحصالی قوتوں کو ختم تو کرنا چاہتا ہے مگر ارد گرد لومڑ اور بندروں سے بچے رہنے سے بھی واقف ہے، جنگل ستان کے اس ناول میں جنگل کے جانوروں کی خصلتوں کو سماج کے انسانی برتاؤ کے عکس ذریعے دکھانا از خود ایک مشکل کام ہے جو صرف غور و فکر کرنے اور سماجی شعور کی رو میں بہنے والا لکھاری ہی کر سکتا ہے،جس میں مجھے وجیہہ ایک کامیاب لکھاری لگا جو اپنے دکھ درد بھول کر سات دہائیوں پر مشتمل عوامی سیاسی اور معاشی دکھوں کی نہ صرف بات کر رہا ہے بلکہ چاہتا ہے سماج کے اس جنگل میں بھی کچو کوما ایسا دانش ور کردار ہمیشہ اپنا شعوری کام کرتا رہے تاکہ انصاف سماج کا معتبر حوالہ بنے۔

وجیہہ وارثی کے ’’جنگل ستان‘‘ کا بنیادی خاکہ اس ملک کے پسے ہوئے طبقات کا نہ صرف استحصال موضوع ہے بلکہ اس ملک کے بالا دست طبقات کا ظلم و جبر سے بھرپور ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کا شکوہ بھی ہے جہاں سماج کے ہر شعبے کو اشرافیائی بندر اور لومڑ بآسانی دستیاب ہو جاتے ہیںجو کہ اپنے ایسے ہی پسے ہوئے طبقے کا استحصال اس اشرافیہ کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں جب کہ آخر میں یہ اشرافییے ان سدھائے ہوئے بندر اور لومڑ کو بھی چبا جاتے ہیں۔

جنگل ستان ناول کی پوری کہانی بھی سات جنگلی جانوروں کے درمیان گھومتی ہوئی سارے جنگل کے استحصالی نظام کی چیرہ دستیوں سے سب کو آگاہ کرتی چلی کرتی جاتی ہے،جنگل کا بادشاہ شیر،اس کا خصوصی معاون کچھو کوما،لڈو،ڈوڈو مینڈک،شیرنی کی عزت دار دم،بندر کی چالاکیاں اور لومڑ کی عیاریوں کے ذریعے وجیہہ نے سیاسی،جمہوری اور معاشی محرومیوں سے لبریز سماج کی لطیف پیرائیوں میں اتنی جاندار منظر کشی کی ہے کہ قاری ناول ختم کیے بغیر نہیں رہ پاتا،جنگل کی مانند اس سماج کی تصویر کشی میں بلاشبہ وجیہہ کا ناول’’جنگل ستان ‘‘ایک ایسا باشعور اضافہ ہے جو وقت گذرنے سے مزید اپنی حیثیت ضرور منوائے گا، ’’جنگل ستان‘‘ ناول کے مرکزی خیال انصاف پسند شیر کی اشرافیہ کے وفادار نشان لومڑ کے ہاتھوں وہ ریاستی تشدد ہے جو سات دروں سے گذرتا ہوا بھی خود کو قہر اور جبر سے آزاد نہ کرا پایا ہے،وجیہہ کے اس ناول کے باشعور پبلشر ’’اٹلانٹنس‘‘کے فاروق کی دیدہ دلیری ہے کہ وہ سماج کے اس جنگل میں شعور کے دیے جلانے میں جتے ہوئے ہیں اور آسیب زدہ رات کے مقابل شعور کی صبح سے پر امید ہیں کہ…

رات اب اپنے اختتام پہ ہے

احتراما دیے بجھا دیجیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔