لیاری سے چین تک

شبیر احمد ارمان  اتوار 12 جون 2022
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یہ آٹھ ستمبر 1984کی بات ہے جب روٹری کلب کراچی میں جمہوریہ چین کی 35ویں سالگرہ کی تقریب منعقد کی گئی جس میں چین کے قونصل جنرل وانگ ویرسان نے 35کبوتر فضا میں چھوڑے۔

ان کبوتروں میں سے ایک کبوتر کے پیر میں ایک ٹوکن باندھا گیا تھا جس میں یہ تحریر موجود تھی کہ 35گھنٹوں میں جو بھی اس لکی کبوتر کو پکڑکر لائے گا اس کے کراچی تا بیجنگ فضائی سفر کے ٹکٹس اورچین میں قیام کے تمام اخراجات سرکاری طور پر برداشت کیے جائیں گے ۔یہ لکی کبوتر وہاں سے اڑتا ہوا لیاری کے محلے سیفی لین کے رہائشی لال محمد بلوچ کے چھت پر آکربیٹھ گیا۔

لال محمد بلوچ کبوتر پالنے کا شوقین تھا اس نے اپنے گھر کے چھت پر بہت سارے کبوتر پال رکھے تھے ۔اس روز وہ معمول کے مطابق اپنے کبوتر وں کو دانہ پانی دینے کے لیے چھت پر گئے تو اس نے ایک سفید رنگ کا اجنبی کبوتر بیٹھا دیکھا اس سے پہلے کہ وہ اس کبوتر کے پاس پہنچتا وہ لکی کبوتر اڑگیا اس دوران لال محمد بلوچ نے اپنے پالتوں کبوتروں کی مدد سے اس سفید لکی کبوتر کو نیچے اتارا اور پکڑ کر پنجرے میں بند کردیا۔

اس دورانیے میں ڈھائی گھنٹے صرف ہوئے جس وجہ سے وہ بروقت ناشتہ نہ کر سکے اور نہ ہی اپنے بچوں کو اسکول لے جاسکے جس پر اس کی بیوی حنیفہ خفا ہوگئی تھی چھت سے نیچے اتر کر لال محمد بلوچ نے اپنی بیوی سے تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ’’ انھوں نے ایک کبوتر پکڑا ہے ،اس کے ہاتھوں میں ایک ٹوکن تھا جس میں سفید اور سرخ کپڑا تھا اور اس پر ، پاک چین دوستی زندہ باد ،روٹری کلب ،لکھا تھا ۔‘‘اس کی بیوی حنیفہ نے یہ سطور پڑھ کر کہا کہ ’’یہ کسی کلب کا کبوتر ہے اور انھوں نے اس لیے باندھا ہوگا تاکہ کوئی کبوتر باز اس کو نہ پکڑے،لیکن تم نے اس کو پکڑ لیا ہے ۔‘‘یہ کہہ کر اس کی بیوی حنیفہ نے یہ ٹوکن زمین پر پھینک دیا ۔

لال محمد بلوچ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں مکینک تھے اس روز کبوتر کوبند کرکے وہ ملازمت پر چلے گئے ۔لال محمد بلوچ اس روز بھی معمول کے مطابق دوپہر تین بجے کے قریب کھانا کھانے گھر لوٹ رہے تھے تو راستے میں ان کے ایک دوست نے اسے بتایا کہ چین کے سفیر نے ایک کبوتر فضا میں چھوڑا ہے ،جس میں انعامی ٹوکن ہے ۔لال محمد بلوچ نے اس کو بتایا کہ اس نے ایک کبوتر پکڑا ہے جس میں سے بھی پرچی نکلی تھی تاہم اس ٹوکن میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی وہ تو زمین پر پھینک دیا تھا ۔جلد ہی انعامی ٹوکن کی خبر لال محمد بلوچ کے رشتے داروں اور محلے کے لوگوں کو بھی مل گئی اور سب لوگ لال محمد بلوچ کے گھر جمع ہوگئے اور ٹوکن کی تلاش شروع کردی۔

اس موقع پر لال محمد بلوچ کی اہلیہ حنیفہ نے انھیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ’’ میرے گھر کی کوئی چیز ادھر ادھر نہیں کرنا ،جو جہاں ہے وہاں رکھنا ،جہنم میں جائے ٹوکن ۔‘‘سب ٹوکن ڈھونڈتے رہے ،حنیفہ نے الماری کے اوپر ہاتھ لگایا تو اخبار کے نیچے سے وہ ٹوکن نکل آیا ۔بعد میں معلوم چلا کہ ان کی بیٹی نے زمین سے اٹھا کر الماری کے اوپر رکھ دیا تھا ۔ لال محمد بلوچ نے رمضان نامی شخص کے ہمراہ صدر کے علاقے میں روٹری کلب کو تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے تو ایک بزرگ ملے جنھوں نے کہا کہ’’ 36گھنٹے گزرنے والے ہیں ،وقت ختم ہونے کو ہے لہٰذا اب اخبار کے دفتر چلے جائیں ۔‘‘

دونوں افراد کبوتر سمیت اخبار کے دفتر پہنچے اورانھیں بتایا کہ انعامی کبوتر انھیں ملا ہے ۔وہاں ان کی تصاویر بنائی گئی جو گزشتہ روز اردو ،انگریزی اور سندھی زبان کے اخبارات میں شایع ہوگئی اس طرح چینی سفارت خانے والوں کو بھی معلوم ہوگیا ۔دوسرے روز درجنوں پولیس اہلکار لال محمد بلوچ کے گھر کے آس پاس پہنچ گئے اور ساتھ ہی چینی سفارت خانے کے لوگ بھی ان کے گھر آئے جس کے بعد ان کو ملاقات کے لیے سفارت خانے مدعو کیا گیا ۔دوروز کے بعد وہ چین کے سفارت خانے پہنچے جہاں قونصل جنرل وانگ نے لال محمد بلوچ سے ملاقات کی۔ دوسرے روز اس ملاقات کی خبر شایع ہوئی ،چینی سفیر نے لال محمد بلوچ کو ہدایت کی کہ وہ چین کے سفیر کے لیے سفارت خانے سے رابطہ کریں ،سمجھ لو کہ تم چین پہنچ گئے ۔

کراچی میونسپل کارپوریشن کے اس وقت کے میونسپل کونسلر باری جیلانی نے لال محمد بلوچ کی مدد کا اعلان کیا نہ صرف زادراہ اور ایک عدد پاکستان کا مکمل قومی لباس انھیں پیش کیا ۔روٹری کلب نے مقامی ہوٹل میں لال محمد بلوچ کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا جس میں انھیں چیک دیا گیا اور یوں ان کا پاسپورٹ بنا اور اس پر چین کے ویزے کا سرخ پرنٹ لگ گیا ۔لال محمد بلوچ ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے وہاں وہ ماؤ زے تنگ کی یادگار ،دیوار چین ،سرکاری ریڈیو اور میوزیم گئے اور مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کیں ،اس دوران انھیں چینی مترجم بھی فراہم کیا گیا تھا ،اس طرح وہ کئی یادیں لیے پاکستان واپس آگئے ۔اس دورے کی تصاویر چینی سفارت خانے میں محفوظ رکھی گئی ہیں ۔

لال محمد بلوچ ان دنوں فالج کے شکار ہیں جس وجہ سے ان کی یادداشت کمزور ہوچکی ہے ، لیاری کے محلہ سیفی لین میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کے نو بچے ہیں ،ریٹائرمنٹ سے ملنے والی رقم سے انھوں نے اپنا مکان تعمیر کرایا ،آج ان کا خاندان کسی اور لکی کبوتر کا منتظر ہے جو شاید ان کی زندگی آسودہ حال کردے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔