زباں فہمی؛ کچھ چیونٹی کے بارے میں

سہیل احمد صدیقی  اتوار 26 جون 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

زباں فہمی145

پرندے، چیونٹیاں اور لوگ ہجرت کرتے جاتے ہیں

ہمارے شہر میں کیا حشر برپا  ہونے والا  ہے؟

(قیس بن طاہر)

رب ذوالجلا ل نے ایسی بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں جو اپنی قامت، شکل اور خصوصیات کے سبب، دوسروں سے ممتاز ہیں۔ قرآن مجید میں، انسان کو دعوت ِفکر پہلے دی گئی، پھر عمل کا کہا گیا۔ بہت سی چھوٹی مخلوقات کی طرح، چیونٹی کی اپنی شناخت ہے۔

اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ کلام الہٰی میں ایک سورت کا نام اس سے منسوب کرتے ہوئے ’النمل‘ (اَن+نمل) رکھا گیا۔ عربی میں النّمل اور النَمُل (یعنی دوسرا تلفظ: نون پر زبر، میم پر پیش) کہا جاتا ہے تو اس سے مراد محض چیونٹی مخلوق ہوتی ہے، جبکہ اس کا واحد ’’ نَملہ‘‘ اور ’’نَمُلہ‘‘ہے اور اس میں مذکر ومؤنث دونوں شامل ہیں، (اس کی جمع نِمال ہے اور ایک اور معنی بھی ہیں: پہلو کی پھُنسیاں)۔ بہت زیادہ چیونٹیوں والی جگہ کو عربی میں اَلنَمِل کہا جاتا ہے، جبکہ یہی لفظ چُغل خور کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس کے باب میں یہ بھی درج ہے کہ مضطرب، سرکش گھوڑے اور ہر کام میں پھُرتیلے مرد کی صفت بھی اسی سے بیان کی جاتی ہے۔

(مصباح اللغات عربی۔اردو)۔چیونٹی کی صفات میں بہترین نظم ونسق پر مبنی بستیاں تعمیر کرنا، باہمی امورمیں اتفاق و اتحاد، ہر کام کے لیے مخصوص افراد کو مامور کرنا، مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہنا اور مستقبل کی فکر کرتے ہوئے پیشگی بندوبست کرنا، انسان کے لیے عملی درس ہے۔ ایک بات اور، چیونٹی کی قوت ِ شامّہ (سونگھنے کی صلاحیت) بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ سیاہ، بھُوری اور لال رنگ میں پائی جاتی ہے۔

قرآن کریم کی سورہ ’النمل‘ کی اٹھارویں اور انیسویں آیت میں بیان کردہ ، واقعے میں ایک چیونٹی کا اپنے قبیلے کو خبردار کرنا مذکور ہے کہ کس طرح اُس نے بادشاہ ِ وقت، نبی عصر، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عظیم لشکر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کہا:

(18) یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے نالے پر آئے ایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو! اپنے گھروں میں چلی جاؤ تمہیں کچل نہ ڈالیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں۔

اور اگلی آیت میں حضرت سلیمان نے رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا ہے :

(19) تو اس کی بات پر مسکرا کر ہنسا اور عرض کی اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کروں جو تجھے پسند آئے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے قربِ خاص کے سزاوار ہیں۔ (ترجمہ: کنز الایمان از اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)۔ تفسیر اِبن کثیر میں منقول روایت کے مطابق، یہ چیونٹی لنگڑی تھی اور اس کا نام حرس تھا۔ قصص القرآن کے مؤلف مولوی حفظ الرحمن صدیقی سیوہاروی صاحب نے لکھا کہ وہ چیونٹیوں کا بادشاہ تھا۔

درحقیقت ملکہ کہنا چاہیے، کیونکہ ان میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا اور تولید کی ذمے داری بھی ملکہ ہی کی ہوتی ہے، جس کی وفات کے بعد، چیونٹیوں اپنی ہی کسی دوسری بستی میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ سیوہاروی صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ وادی نملہ کے مقام کے تعین میں اختلافات سے قطع نظر، غالب امکان یہ ہے کہ وہ جگہ عسقلان (Ashkelon) میں کہیں تھی جو مقبوضہ فلسطین (اسرائیل ) کا حصہ ہے۔

یہ ساحلی شہر کبھی مُلک شام کی دلھن (’’عروس الشام‘‘) کہلاتا تھا۔ زمانہ ماقبل تاریخ سے آباد تھا اور اس سرزمین کو صحابہ کرامؓؓ وتابعین عظامؒؒ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔ یہ شہر صلیبی معرکوں میں صفحہ ہستی سے اُجڑ گیا۔

آگے چلنے سے پہلے ذکر کرتا چلوں کہ اردو میں چیونٹی اور اس کا مذکر چیونٹا ایسے الفاظ میں شامل ہے جن کا تلفظ مختلف شہروں اور مقامات پر مختلف کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے شمالی علاقوں بشمول یو۔پی میں یہ ’چیَنٹی‘ (چیں ٹی)، چِیں ٹی اور مذکر ’چیَنٹا‘ (چیں ٹا)بولا جاتا رہا ہے، علی گڑھ، اِٹاوا اور ایٹہ میں بھی یہی تلفظ ہے اور سابق ڈویژن میرٹھ میں بھی۔ اختلافِ تلفظ کے اس اہم مرحلے میں خاکسار کو اپنے ذی علم بزرگ معاصر محترم شہاب الدین شہابؔ کی رہنمائی نصیب ہوئی۔

(میرٹھ سے آبائی تعلق کی حامل، میری عظیم زباں فہم والدہ مرحومہ بھی چیں ٹی اور چیں ٹا ہی بولتی تھیں)، رام پور، مرادآباد اور لکھنؤ میں (شاید بریلی میں بھی) یہ چونٹی بولا اور لکھا گیا، مگر خاص دِلّی میں یہ چیم (چے کھینچ کر، ے کی آواز دباکر) ٹی بولا جاتا رہا۔ جبکہ دکن یعنی جنوب میں زمانہ قدیم کا تلفظ ’’چِمٹی‘‘ تھا (سب رس از مُلا وَجہی)۔

ہمارے ایک مشہورمعاصرحافظ صفوان چوہان نے ایک مرتبہ بزرگ معاصر پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیرکشفی (مرحوم) سے پوچھا کہ ’’چیونٹی کا کونسا تلفظ درست ہے: چیوں ٹی/ چے انٹی/ چے ینٹی/ چیں ٹی‘‘۔ اُنھوں نے پوچھا کہ ’’آپ کی نانی کہاں کی رہنے والی ہیں؟ آپ کی دادی کہاں رہتی ہیں؟ آپ نے یہ لفظ اِن دونوں سے کیسے سنا؟ ‘‘حافظ صاحب نے جواباً عرض کیا کہ ’’دادی کو تو میَں نے دیکھا نہیں، لیکن وہ دوراہا منڈی، پٹیالہ کی تھیں، البتہ نانی جالندھر کی تھیں اور وہ ”چیوں ٹی” بولتی تھیں‘‘۔

اس پر کشفی صاحب نے فرمایا کہ ’’کئی ہزار کلومیٹر پر پھیلے اِس جغرافیے میں ایک لفظ چار نسلوں سے جس تلفظ کے ساتھ بولا جا رہا ہے تو اِس کا تلفظ لغت سے دیکھ کر درست کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا پون صدی کے عرصے سے اِتنے بڑے علاقے میں بولا جانے والا تلفظ بجائے خود سند نہیں بن جاتا؟ اپنی زبان پر فخر کیجئے اور کوئی لفظ جیسا آپ کے ماحول میں بولا جاتا ہے اُس تلفظ اور اُس املا کا خون نہ کیجئے۔ لسانی ثقافت کا مطلب لسانی رنگا رنگی ہے۔ زبان کے چمن کو اختلاف ہی سے زینت ملتی ہے‘‘۔ (’’اردو کی اصلاح کا بیڑا‘‘)

بہت ساری چیونٹیوں کے قافلے کے لیے اہل زبان، چیونٹیوں کی قطار اور چیونٹیو ں کی فوج کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، واٹس ایپ بزم زباں فہمی کی رکن، شعبہ تدریس سے منسلک محترمہ ثمینہ چغتائی کے انکشاف کے مطابق، ہانسی (ہندوستان) کے مہاجرین خصوصاً خواتین کی زبان میں، اسے ڈار بھی کہا جاتا ہے یا کہا جاتا تھا، جبکہ یہ لفظ کُونج اور اس قسم کے پرندوں کے ساتھ مختص ہے۔ (یہ لفظ میم اور تے پر زبر کے ساتھ ہے، جبکہ ٹی وی چینلز مسلسل، مُخ تَس کہہ رہے ہیں)۔ بزم کے دیگر اراکین، خصوصاً اسی علاقے کے مہاجرین کی اولاد میں شامل حضرات نے مادام کے قول کی تائید نہیں کی۔

لغات میں مذکور، چیونٹی سے متعلق کہاوتیں اور محاورے:

چیونٹی کی آواز عرش تک (کہاوت): غریب و مظلوم کی آہ، خدا تک پہنچتی ہے ، غریب کی پہنچ دُور تک ہے، غریب کو بے وسیلہ نہ سمجھو

چیونٹے کو پَرلگنا/چیونٹے کے پَر نکلنا۔ فعل لازم: شامت کے دن یا موت کا وقت قریب آنا، اجل رَسِیدہ ہونا، کیونکہ جہاں چیونٹے کے پَر نکلے، وہ اُڑ ا اور چڑیا نے چَٹ کیا۔ قطعہ:

زِبَس ہے ریختی ایجادِ رنگیںؔ +اسی خاطر کہا کرتا ہے اکثر

مُوااِنشاؔ بھی اَب کہنے لگا ہے ؔ +چہ خوش اس چیونٹے کو بھی لگے پَر

(یعنی سعادت یارخان رنگین ؔ نے کھُل کر چوٹ کرتے ہوئے انشاء اللہ خان انشاء ؔ جیسے عالم فاضل سخنور کو ریختی کے فن میں نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنے مقابل کو خالص زنانہ بولی میں ’’مُوا‘‘ کہہ دیا۔س ا ص)

شاہ نصیرؔ کا شعر ملاحظہ ہو:

کمر نازک ہے تیری کیوں اُٹھاتا بارِخنجر ہے

میاں چیونٹے کے حق میں کب نکلنا پَر کا بہتر ہے

محاورات ِنسواں از محترمہ وزیر بیگم ضیاء میں ’’چیونٹی کے پر نکلنا‘‘ درج ہے جو عوام الناس کی زبان پر بھی ہے۔

چیونٹے کی گرہ پیٹ میں ہونا۔ فعل لازم۔ نہایت کم خوراک ہونا، پھول سونگھ کر رہنا۔ کہتے ہیں کہ چیونٹا کھاتا نہیں صرف سونگھ کر رہتا ہے۔

چیونٹیوں بھرا کباب: جھگڑے بھری چیز (یعنی معاملہ۔س ا ص)]فرہنگ اردو محاورات از پروفیسر محمد حسن[۔آل اولاد والا مرد، مصیبت کا گھر۔ جب کسی عورت کی شادی بال بچے دار مرد سے ٹھہرتی ہے تو اُس کی خیرخواہ عورتیں اس مرد کو چیونٹیوں بھرا کباب کہہ کر تعبیر کرتی ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ و لغات النساء از محترمہ وحیدہ نسیم)۔ محض چیونٹی بھرا کباب بھی کہتے ہیں۔ نیز مراد عیوب سے بھرپور شخص سے۔ (مختصر اردو لغت۔ ارد ولغت بورڈ)۔

چیونٹی کی چال چلنا یعنی نہایت آہستہ اور خاموشی سے چلنا

چیونٹیاں سی پھِرنا/رینگنا یعنی بدن میں سنسناہٹ پیدا ہونا، سُن ہونے یا کسی وجہ سے سوزش ہوجانا۔ (مختصر اردو لغت۔ ارد ولغت بورڈ)۔

ہرچند کہ چیونٹی کے مقابل ہاتھی سے منسوب محاوروں کی تعداد شاید زیادہ ہوگی، مگر یہ حقیقت ناقابل فراموش ہے کہ ایک ہاتھی بے شمار چیونٹیوں کو کچل سکتا ہے، مگر ایک چیونٹی اُس کی سونڈ میں گھُس جائے تو کام تمام کرسکتی ہے۔ یہ بھی خدا کی قدرت کا عجیب نظام ہے کہ بظاہر حقیر نظر آنے والی مخلوق بھی مُہلک ثابت ہوسکتی ہے۔

مختلف جانور وں کی خوراک میں چیونٹیاں شامل ہیں۔1980ء کی دہائی میں ’’جھُڈّو (سندھ) کی بلا‘‘ نے خوب دہشت پھیلائی۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ مُور خور یعنی چیونٹی کھانے والا بے ضرر جانور ] [Pengolin/Scaly Anteater ہے۔ دیہاتی عوام اس کی تھوتھنی دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے تھے۔ شُنید تھی کہ یہ جانور کسی زمانے میں حب ندی کے آس پاس بھی پایا جاتا تھا۔ یہاں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ Formic acid کا چیونٹی اور شہد کی مکھی سے گہرا تعلق ہے۔ چیونٹی کے ڈنک میں پوشیدہ مواد ہی اس کا قدرتی ماخذ ہے۔

ہماری امی مرحومہ کسی میٹھی چیز کے جلدی ختم ہوجانے پر مصنوعی خفگی سے گویا ہوتی تھیں:’’یہاں تو چیونٹے ہیں، چیونٹے‘‘۔

انڈین بادام [Indian almond] کے سرخ رسیلے پھلو ں کے ساتھ ساتھ اس پیڑ کے، بڑے بڑے’’خون خوار‘‘ چیونٹے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کے پاؤں کے نیچے چپک یا چمٹ جائیں تو مرکے ہی نکلیں گے، خواہ آپ ہمت کرکے ، کچل دیں، ماردیں، یونہی جھٹکنے پر، انسانی جسم سے الگ نہیں ہوتے۔ یہاں ایک اور دل چسپ کہانی کا ذکر کرتا چلوں، ’’لال چیونٹے‘‘ جس کی مصنفہ تھیں عصمت چغتائی۔ کہانی کا مرکزی کردار، خاتون مصنفہ، کسی باغ میں کچے آم یا کیریاں ڈھونڈ رہی تھی کہ اچانک اسے اپنی جلد میں ڈنک پیوست ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کیا دیکھتی ہے کہ لال چیونٹے اس کے بدن پر رینگ رہے ہیں۔

وہ بھاگ کر سڑک کی طرف جاتی ہے اور پھر ایک تھیٹر میں داخل ہوتی ہے، جہاں چلنے والے ایک ڈرامے کے کردار سماجی مسائل کا ذکر کر رہے ہیں۔ اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک طرح کے لال چیونٹے ہیں جو تماشائی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد وہ ایک ناچ دیکھنے جاتی ہیں، جہاں ہونے والے رقص میں کوئی سیاسی پیغام پوشیدہ ہے، مگر اُسے رقاص بھی لال چیونٹے دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی کے انجام میں عصمت کہتی ہیں کہ لال چیونٹے آپ کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں اور زندگی کا مزہ نہیں لینے دیتے۔

لال چیونٹے کی طرح لال چیونٹی کا ذکر بھی اہم ہے۔ چھوٹی سرخ چیونٹی، پِپِلِیک اور پِپِلِیکا [Pipilika/Pipilik] کہلاتی ہے۔ (ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ)، غالباً یہ وہی لال چیونٹی ہے جس کا کاٹا بہت تڑپتا ہے۔

چیونٹی کو بلوچی میں مُور کہتے ہیں، جبکہ اس کی ہم رشتہ زبان فارسی میں چیونٹے کو مُور اور چیونٹی کو مُورچہ (یعنی چھوٹا چیونٹا) کہا جاتا ہے، دیگر زبانوں میں نام ملتے جلتے یا مختلف ہیں، مگر ایسے نہیں کہ ایک زبان میں رائج لفظ سن کر دھیان دوسری کی طرف جائے۔

(نوزبانی لغت)، لغات کشوری میں مُورچہ کے لیے لکھا گیا:’’ایک قسم کی چونٹی (چیونٹی) جو بہت چھوٹی ہوتی ہے، نیز، زَنگ جو لوہے کے اندر گھُس جاتا ہے۔ اسے مُورچانہ بھی کہتے ہیں۔ اسی لغت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جدید اردو لفظ ’مورچہ‘ اسی فارسی لفظ کی ایک شکل ہے۔

اسے پہلے مُورچال اور مُورچَل کہتے تھے۔ کوئی قَلعہ فتح کرنے کے لیے اس کے گرد کھودے جانے والے گڑھوں کو یہ نام دیا گیا تھا تو راقم کے خیال میں، غالباً کہنے والوں کے ذہن میں چیونٹی کے وہ بِل ہوں گے جو وہ بڑی محنت سے مٹی میں سوراخ کرکرکے بناتی ہے۔

فرہنگ فارسی از ڈاکٹر عبداللطیف میں چیونٹی کے لیے مُور کے ساتھ ساتھ مُوری (یعنی مُورے) بھی درج ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فارسی میں عموماً تذکیر وتانیث کا صیغہ استعمال نہیں ہوتا، لہٰذا تہران، ایران سے شایع ہونے والی مستند فرہنگ انگلیسی۔ فارسی (آریان پور)[English-Persian Dictionary] میں لفظ Antکے لیے محض مُور، مُورچہ درج کیا گیا، بلا کسی وضاحت کے۔

یہاں ایک اور عجیب سی بات معلوم ہوئی۔ ہمارے یہاں عموماً دِیمک [Termite] کو چیونٹی کی قسم سمجھا جاتا ہے، حتیٰ کہ انگریزی میں بھی اسے سفید چیونٹی [White ant] کہا جاتا ہے، مگر سائنسی لحاظ سے یہ دونوں مختلف ہیں۔ قدیم فارسی میں دیمک کو ’’دیوچہ‘‘ (چھوٹا دیو) کہتے تھے (فرہنگ عصریہ )، مگر جدید فارسی میں اسے ’’ مُوریانہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ( فرہنگ انگلیسی۔ فارسی ازآریان پور)۔ چیونٹی کی ایک قسم ’’بَڑھئی چیونٹی‘‘ [Carpenter ants] بھی دیمک کی طرح لکڑی کھاتی ہے، مگر دونوں کے طریق کار میں فرق ہے۔

یہاں ایک اہم تاریخی انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مشہور ایرانی فلسفی وصوفی بزرگ، شیخ شہاب الدین یحییٰ سہروردی کی ایک منفرد کتاب ’لغت ِ مُوراں‘ میں تصوف کے کچھ اسباق ملتے ہیں جس کا اردو ترجمہ، محترمہ بصیرہ امبرین نے ’’چیونٹیوں کی زبان‘‘ کے عنوان سے کیا جو اور ینٹل کالج، لاہور کے ادبی مجلے‘‘ سویرا ’’کے شمارہ نمبر91 میں شائع ہوا۔ (بحوالہ ’’ادب میں جانوروں کا تذکرہ‘‘ از ڈاکٹر ناظر محمود۔ آن لائن دستیاب)۔ تلاشِ بِسیار کے باوجود، یہ فارسی کتاب کسی آسان شکل میں برائے مطالعہ، انٹرنیٹ پر دستیاب نہ ہوسکی، البتہ برائے فروخت ایک مشہور ویب سائٹ پر موجود تھی اور اس کی بابت تبصرے بھی دیکھنے کو ملے۔

آئیے لُغتِ مُوراں کے ایک اقتباس (مترجمہ ) سے لطف اٹھائیں:’’صبح ہوتے ہی چند چیونٹیاں زمین کے اندھیرے سے نکل کر، خوراک لینے کو روشنی میں داخل ہوئیں۔ اچانک انھیں ایک پودے کے پتے نظر آئے جن پر صبح کی اوس کے قطرے موجود تھے۔

ایک بولی،’یہ شبنم کا قطرہ یا ژالہ کیا ہے اور کہاں کا ہے؟‘ تو دوسری نے جواب دیا، سمندر سے، تیسری بولی، خشکی سے۔ مختصر یہ کہ بحث بڑھ گئی، بات انتہا کو پہنچی تو ایک عقلمند چیونٹی نے کہا،’ہر چیز میں شروع سے ایک جذبہ ہوتا ہے اور وہ اس تک پہنچنے کے لیے بے تاب ہوتی ہے۔ انتظار کرو کہ منزل کہاں ہے؟ یہ اوس ہے، جس طرف بھی پلٹے گی، اس کی اصل وہیں ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ گرمی اور دھوپ کے ساتھ ہی، اوس کی بوندیں بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔ اس طرح چیونٹیوں کو فطرت اور شبنم کے قطرے کی اصلیت معلوم ہوئی‘‘۔

اردو کے نامور شاعر حفیظ جالندھری نے بھی ’’چیونٹی نامہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا ہے جو بقول ایک ادیب کے، سہروردی کی کتاب سے مختلف ہے، مگر چونکہ ہماری دسترس میں نہیں، لہٰذا اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ادب ِ اطفال میں بھی چیونٹیوں کے متعلق کچھ تحریریں مل جاتی ہیں۔ چیونٹیوں کے طرزِحیات کو آسان الفاظ میں سمجھنا ہو تو مکالمہ ڈاٹ کام پر موجود، محترمہ ربیعہ سلیم مرزا کی کہانی ’’وادی نمل‘‘ بھی بہت دل چسپ معلوم ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔