پُراعتماد رمیز اورآئینی ترمیم

سلیم خالق  ہفتہ 25 جون 2022
رمیز راجہ تجربہ کار کرکٹر رہ چکے اور ان کا بڑا نام ہے،مگر سب جانتے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے کتنے قریب ہیں- فوٹو:فائل

رمیز راجہ تجربہ کار کرکٹر رہ چکے اور ان کا بڑا نام ہے،مگر سب جانتے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے کتنے قریب ہیں- فوٹو:فائل

آپ نے اکثر ٹیسٹ میچزمیں دیکھا ہوگا کہ کوئی بیٹر اچھا کھیل رہا ہو مگر اچانک کپتان اننگز ہی ڈیکلئیرڈ کر دیتا ہے، کئی کھلاڑی اس وجہ سے کبھی سنچری تو کبھی ڈبل سنچری سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، یہ بات بھی آپ کے مشاہدے میں آئی ہو گی کہ بعض کھلاڑیوں پر کپتان کو بہت اعتماد ہوتا ہے ، وہ انھیں بھرپور سپورٹ کرتا ہے مگر جب قائد خود ہی تبدیل ہو جائے تو ایسے کھلاڑی مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ نیا کپتان سمجھتا ہے کہ یہ پرانے والے کا خاص بندہ ہے۔

ایسے ہی حالات کا ان دنوں رمیز راجہ شکار ہیں، اپنے کرکٹنگ دنوں کی طرح وہ سمجھ رہے ہیں کہ کریز پر اچھی طرح سیٹ ہو چکے اور اب بڑی اننگز کھیلنے کیلیے تیار ہیں، مگر نیا کپتان چاہتا ہے کہ بیٹنگ کیلیے سازگار پچ پر اپنے کسی من پسند کو بھی کھیلنے کا موقع دے، پی سی بی کی یہ تاریخ رہی کہ جب بھی حکومت تبدیل ہوئی چیئرمین کو جانا پڑا، سب نے کوئی نہ کوئی اچھا کام کیا تھا مگر کارکردگی نہیں وابستگی دیکھی گئی۔

بدقسمتی سے یہ سیاسی پوسٹ ہے، اس پر اپنے کسی خاص بندے کا ہی تقرر کیا جاتا ہے، گوکہ رمیز راجہ تجربہ کار کرکٹر رہ چکے اور ان کا بڑا نام ہے،مگر سب جانتے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان کے کتنے قریب ہیں، تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں کھل کر انھیں سپورٹ بھی کرتے رہے، اب وہ توقع کر رہے ہیں کہ نئے وزیراعظم شہباز شریف بھی انھیں لفٹ کرائیں گے تو بظاہر یہ ان کی بھول لگتی ہے، چیئرمین کی خوش قسمتی اور نئی حکومت کی بدقسمتی کہ ملکی معاشی حالات ان دنوں بدترین ہیں۔

اگر کوئی ترجیحی فہرست بنے تو اس میں دور دورتک کرکٹ کا نام بھی شامل نہ ہو گا،اسی وجہ سے رمیز راجہ نے ڈھائی ماہ گذار لیے، اپنے منہ میاں مٹھو کیا بنوں مگر میں جانتا ہوں کہ کس نے ان کی سفارش کی،البتہ اب نجم سیٹھی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے لگا ہے، نواز شریف کیساتھ کشتی کی سواری کر کے انھوں نے سب کو یہی پیغام دیا کہ ’’میں موجودہ حکومت کا خاص الخاص ہوں اور جلد واپس آ جاؤں گا‘‘۔

ویسے بھی پی سی بی کے آئین میں ترمیم کا ڈرافٹ تیار ہے جو جلد ہی وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا، اس کے نتیجے میں وزیر اعظم کو نامزدگیاں واپس لینے کا اختیار مل جائے گا اور رمیز کو گھر جانا پڑ سکتا ہے،وہ میڈیا سے بات نہیں کرتے،بڑے بڑے فیصلے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آتے ہیں مگر اب میڈیا کانفرنس کی تو ظاہر ہے اس کا مقصد صرف گورننگ بورڈ کے فیصلوں سے آگاہ کرنا ہی تو نہیں تھا، بیشتر کا میڈیا کو پہلے ہی علم تھا باقی پی سی بی نے پریس ریلیز سے بتا دیے تھے،چیئرمین دراصل اپنے کارنامے گنوانا چاہتے تھے جس کے ذریعے کرسی بچانے کی کوشش ہو سکے۔

یہ درست ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی، البتہ اس کا بڑا کریڈٹ کپتان بابر اعظم اور کھلاڑیوں کو جاتا ہے، ان دنوں ٹیم کی جو فارم ہے اگر محمد وسیم بھی چیئرمین پی سی بی ہوتے تو وہ جیت رہی ہوتی،ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کافی پہلے ہو چکی مگر اب یہ ٹرینڈ بن چکا کہ جو بھی چیئرمین آئے وہ کریڈٹ لیتا ہے،البتہ بلاشبہ رمیز راجہ نے اس حوالے سے اچھا کام بھی کیا۔

پی ایس ایل کے بلاتعطل انعقاد میں بھی ان کی کاوش شامل ہے،البتہ وہ بہت تیز چل رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اپنے کریڈٹ پر کوئی ایسا کام لے آئیں جسے یاد رکھا جائے، اس وجہ سے غلطیاں بھی ہونے لگیں، جیسے انھوں نے ڈراپ ان پچز کا شوشہ چھوڑا پھر آئیڈیا ہی ڈراپ ہو گیا، اب آسٹریلیا سے مٹی منگوائی جا رہی ہے،اس کا بھی کوئی فائدہ ہوتے دکھائی نہیں دیتا، نجانے کیوں وہ نوشتہ دیوار نہیں پڑھ رہے،ویسے انھیں اندازہ تو ہوگا کہ کیا ہونے والا ہے، میڈیا کانفرنس میں انھوں نے حکومت کو ڈھکے چھپے الفاظ میں خبردار بھی کیا کہ چیف پیٹرن کی صوابدید اپنی جگہ ہے مگر پرستار ساتھ اور کارکردگی اچھی ہو تو فیصلے مشکل ہو جاتے ہیں۔

یہاں وہ یہ بھول گئے کہ اپنے کپتان عمران خان سے زیادہ تو مقبول نہیں ہیں ناں جب انھیں ہٹایا جا سکتا ہے تو چیئرمین کرکٹ بورڈ کی کیا حیثیت ہو گی، رمیز راجہ ان دنوں جونیئر لیگ کی بڑی باتیں کر رہے ہیں، اگر وہ برقرار نہ رہے تو یہ پروجیکٹ بھی ختم ہو جائے گا، آپ یہ سوچیں کہ بچوں کے میچز کون دیکھے گا، خود آپ نے انڈر19 ورلڈکپ کے کتنے میچز دیکھے ہوں گے۔

اس کے 5 اسٹار کھلاڑیوں کے نام ہی بتا دیں، شاید کمپنیز کو مستقبل میں پی ایس ایل فرنچائز بھی دینے کے سبز باغ دکھا کر ایونٹ میں لے آئیں مگر مجھے نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ لیگ ہوئی تو پی سی بی کو بڑا بھاری مالی نقصان ہوگا، ساتھ کھلاڑیوں کی تکنیک الگ خراب ہوگی، کیا ہی اچھا ہوتا اگر چیئرمین اپنی توجہ پی ایس ایل کو مزید بڑا برانڈ بنانے پر لگاتے،بھارت48 ہزار کروڑ روپے میں میڈیا رائٹس فروخت کر رہا ہے اور یہاں فرنچائز آفیشلز کو منہ کھولنے سے کیسے روکیں اس پر غور جاری ہے۔

جیسے مستحق کھلاڑیوں کیلیے فاؤنڈیشن کے قیام، کرکٹرز کے معاوضوں میں اضافہ کیا ایسے ہی اچھے کام کریں تو کوئی فائدہ بھی ہوگا، ورنہ خالی کرسیوں کے ساتھ گورننگ بورڈ کا اجلاس کرا لیں اوراپنے اسٹاف و چند دیگر من پسند افراد سے فیصلوں پر اسٹیمپ لگوا لیں، حکومت کو بھی بے یقینی کا خاتمہ کرنا چاہیے، جب وزیر اعظم تین سابق چیئرمینز پی سی بی سے ملاقاتوں کیلیے وقت نکال سکتے ہیں تو موجودہ کو بھی بلا لیں، رمیز خود کہہ چکے کہ درخواست بھیج دی ہے، اگر ملاقات نہ ہوئی تو پھر یہ تاثر درست قرار پائے کہ چیئرمین کو جلد گھر جانا پڑے گا، ابھی تو بظاہر ان کے چہرے پر اطمینان ہے لیکن آئینی ترمیم ایک کشتی پر سوار کسی شخص کو قذافی اسٹیڈیم کا راجہ بنا سکتی ہے، شاید کشتی انگلینڈ سے لاہور کی نہر پر ہی جا کر رکے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔