بلدیاتی قوانین پر عدم اتفاق

محمد سعید آرائیں  پير 27 جون 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سندھ کی سیاسی جماعتوں کے بلدیاتی قوانین پر متفق نہ ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات مقررہ مدت میں ہوئے تو بلدیاتی قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔ عدالت عالیہ حکم دے تو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سندھ میں بلدیاتی قوانین کے حوالے سے ایک سلیکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے اجلاس تو ہو رہے ہیں مگر ہر سیاسی جماعت کی سوچ مختلف ہے۔ سندھ حکومت کی سوچ اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سے مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہمیں بلدیاتی نظام کی بنیادی تشکیل پر اتفاق کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں میں بلدیاتی قوانین میں ضروری ترامیم پر بحث جاری رکھنے پر ضرور اتفاق ہوا ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی 14 سال سے حکومت میں ہے جس نے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی طرح جنرل پرویز مشرف کا بااختیار ضلع نظام ختم کرکے جنرل ضیا الحق کا 1979 کا محدود اختیارات اور بیورو کریسی کے ماتحت چلنے والا بلدیاتی نظام بحال کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں کمشنری نظام ختم کرکے بیورو کریٹس کو منتخب ناظمین کے ماتحت کیا گیا تھا جب کہ جنرل ضیا کے نظام میں منتخب چیئرمین بیورو کریسی کے ماتحت تھے۔

جنرل پرویز مشرف کے بااختیار کیے جانے والے بلدیاتی نظام میں انتظامی اور مالی اختیارات ناظمین کے ہاتھ میں تھے اور 1979 کے بلدیاتی نظام میں کمشنری نظام چیئرمینوں پر کنٹرولنگ اتھارٹی تھا اور محکمہ بلدیات بااختیار تھا جو کمشنروں، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز کے ذریعے چیئرمینوں کو کنٹرول کرتا تھا اور منتخب چیئرمین ان کے حکم سے انکار کرسکتے تھے نہ اپنے ارکان اسمبلی کو ناراض اور چیئرمینوں کو بیورو کریٹس اور ارکان اسمبلی کی ہر بات مان کر انھیں خوش رکھنا پڑتا تھا۔ بیورو کریٹس اور ارکان اسمبلی اسی لیے بااختیار ضلع حکومتوں کے نظام کے خلاف تھے۔

تحریک انصاف خیبرپختون خوا حکومت نے 2013 میں جو بلدیاتی نظام دیا تھا وہ 1979 کے نظام سے مختلف اور کچھ بااختیار تھا جس میں اب کے پی میں حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کو متوقع کامیابی نہیں ملی تو وہاں اب منتخب میئروں کے اختیارات کم کردیے گئے ہیں اور وہ صوبائی حکومت کے محتاج بنا دیے گئے ہیں۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے 2018 میں اقتدار میں آ کر مسلم لیگ (ن) دور کا بلدیاتی نظام ختم کرکے بلدیاتی عہدیداروں کو ہٹا دیا تھا اور نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کے بجائے سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیے تھے۔ پنجاب میں (ن) لیگی حکومت دوبارہ آنے کے بعد اس نے پی ٹی آئی حکومت کا کے پی جیسا 2021 کا بلدیاتی نظام ختم کرکے کمشنر، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کو دوبارہ بلدیاتی اداروں پر مسلط کردیا ہے جہاں بلدیاتی انتخابات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

صوبوں میں جب صوبائی حکومتیں بدلتی ہیں تو وہاں بلدیاتی نظام بھی بدل جاتا ہے جس کی وجہ سے چاروں صوبوں میں مختلف بلدیاتی نظام ہیں اور کسی بھی صوبے میں آئین کے تحت بلدیاتی عہدیداروں کو اختیارات حاصل نہیں اور صوبے آئین کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کی آئینی پابندی پر عمل نہیں کر رہے اور چاروں صوبوں نے آئین کے برعکس بلدیاتی قوانین بنا رکھے ہیں۔

صوبے بلدیاتی اداروں کو آئین کی شق A-140 کے تحت بااختیار بنانے کے بجائے انھیں اپنا محتاج اور بے اختیار بنا کر ان کے اختیارات خود استعمال کرنے کی من مانی پالیسی پر کاربند ہیں اور اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جیسی قومی جماعتیں سب ایک ہیں اور جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم بااختیار بلدیاتی اداروں کی حامی ہیں جن کو کبھی صوبائی حکومت نہیں ملی اور دونوں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بلدیاتی حکمران رہی ہیں اور انھوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وقت پر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور بعض جگہ وہاں کی سٹی پولیس بھی منتخب میئر کے ماتحت ہوتی ہے مگر پاکستان کی کوئی صوبائی حکومت نہیں چاہتی کہ پولیس اور بلدیاتی ادارے اس کے کنٹرول میں نہ ہوں، ہر صوبائی حکومت وفاق سے ملنے والے فنڈز اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے اور قومی خزانے سے بلدیاتی اداروں کے نام پر لیے گئے فنڈ صوبے اپنے پاس رکھتے ہیں اور رلا رلا کر بلدیاتی اداروں کو فنڈ دیتے ہیں۔

ضلع حکومتوں میں صوبوں میں محکمہ بلدیات کے وزرائے بلدیات تو تھے مگر وہ ناظمین کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے تھے اور ناظمین قانون کے تحت ان کی ہر بات یا حکم ماننے کے پابند نہیں تھے جب کہ موجودہ نظام میں کراچی کا منتخب میئر وزیر بلدیات تو کیا کمشنر کراچی کا بھی ماتحت ہے اور میئر جب چاہے کمشنر تک سے نہیں مل سکتا۔

سندھ میں بلدیاتی نظام کا یہ حال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا بلدیاتی سربراہ اور ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں لارڈ میئر کہلاتا ہے۔سندھ میں بلدیاتی قوانین پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق اس لیے نہیں ہو رہا کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پی ایس پی اپنی اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام چاہتی ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کبھی اپنا میئر نہیں لاسکی۔ کراچی میں پی ٹی آئی کی بلدیاتی اہمیت نہیں ہے، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے کراچی میں اپنے میئر اور سٹی ناظم رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اپنی وفاقی حکومت ہونے تک کراچی میں اپنا میئر لانے کے دعوے کرتی تھی۔ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال خود کراچی کے بااختیار سٹی ناظم رہے ہیں۔ سندھ میں پی پی کئی بار اقتدار میں رہی مگر ان کا میئر منتخب نہ ہو سکا۔

کراچی میں 14 سال میں پی پی کئی بار اپنا ایڈمنسٹریٹر لائی مگر اس بار سندھ حکومت نے کراچی میں اپنا میئر منتخب کرانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ پی پی ووٹ بینک کی یوسیز کی آبادی کم اور شہری یوسیز کی آبادی بہت زیادہ ہے۔

پی پی کے علاقوں میں یوسیز کی تعداد زیادہ اور شہری علاقوں میں کم رکھے جانے کے باعث اس بار پی پی اپنا میئر کراچی منتخب کرانے کی پوزیشن میں ہے مگر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور پی ایس پی اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی لیے بلدیاتی قوانین پر اتفاق نہیں ہو رہا جب کہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور کئی جماعتیں بے اختیار بلدیاتی نظام اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر چکی ہیں۔ پولیس تو خوامخوا بدنام ہے بلدیاتی اداروں میں کرپشن زیادہ ہے۔ یہاں سرکاری عہدے لاکھوں کروڑوں روپے کی رشوت پر ملتے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ میں اب ترقیاتی ادارے، ایس بی سی اے، واٹربورڈ و دیگر شامل نہیں جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں۔ میئر کراچی کو کچرا اٹھوانے کا بھی اختیار نہیں۔ کمشنری نظام زیادہ بااختیار اور سندھ حکومت کو جواب دہ ہے۔

سندھ کا محکمہ بلدیات اپنے بڑے بڑے اختیارات اور کروڑوں روپے کی ماہانہ کمائی کبھی نہیں چھوڑنا چاہے گا۔ بلدیاتی اداروں کا وفاق سے ملنے والا اربوں روپے کا فنڈ استعمال کرنا وزیر اعلیٰ کے ہاتھ میں ہے تو وہ سندھ کو بااختیار مقامی حکومتیں کیوں دینا چاہیں گے۔ بڑے اختیارات اور مال پر سب کی نظریں ہیں ۔کراچی وفاقی اور صوبائی حکومتوں دونوں کی سب سے زیادہ کمائی کا شہر ہے اور کوئی اپنی یہ بڑی کمائی کھونا نہیں چاہتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔