قیدی نمبر 137683

تنویر قیصر شاہد  پير 27 جون 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سیاست و اقتدار کے کھیل بھی عجب ہیں ۔ اس میدان میں یا تو تخت ملتا ہے یا پھر تختہ مقدر بنتا ہے ۔ دُنیا کے ہر ملک میں سیاست کے میدان میں اُترنے والا ہر شخص ہر وقت اس کے لیے ذہنی طور پرتیار رہتا ہے ۔

مخالف قوتیں اور حریف طاقتیں ہر وقت آپ کے تعاقب میں رہتی ہیں ۔ اس لیے ہر سیاستدان کو ہر وقت اپنے عمل کا حساب کرتے رہنا چاہیے۔ جُونہی سیاستدان سے بھول چُوک ہوتی ہے ، حریف موقع غنیمت جان کر جھپٹ پڑتا ہے ۔ خاص طور پر کوئی بھی سیاستدان اگر کبھی کسی چھوٹے سے کیس میں بھی عدالت کو مطلوب ہوتا ہے تو اُسے اس سے کبھی غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ غفلت پر اس کا خمیازہ کسی نہ کسی روز سیاستدان کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اس کا ایک منظر ہم نے چند دن پہلے سابق وفاقی وزیر ، محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری، کی اچانک گرفتاری اور پھر اچانک ہی رہائی کی شکل میں دیکھا ہے۔ بھٹو صاحب کو بھی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہو کر ، بظاہر ایک معمولی سے کیس کی پاداش میں، پھانسی کے تختے پر جھولنا پڑا تھا۔ جناب عمران خان کے پونے چارسالہ اقتدار کے دوران نون لیگ کے کئی سینئر سیاستدان اِنہی ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ کیسز کی بنیاد پر کئی کئی مہینے جیلوں میں قید کیے گئے ۔

نواز شریف کو ایک نہایت معمولی کیس میں عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ آج وزیر داخلہ ، رانا ثناء اللہ ، مبینہ طور پر جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ عمران خان کو گرفتار کرنے کی اجازت ملی تو انھیں اُسی جگہ ( جیل میں ) رکھیں گے جہاں مجھے رکھا گیا تھا‘‘ تو ہم اُس درونِ باطن تلخیوں کا اندازہ کر سکتے ہیں جو کئی نون لیگی سیاستدانوں نے خان صاحب کے دَورِ اقتدار میں چکھیں ۔

دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت میں سیاستدانوں کو تقریباً یکساں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہر سیاستدان مخالف سیاستدان کے تعاقب میں ہے ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تمنا میں پاگل۔ اِس کی تازہ ترین مثال بھارتی پنجاب میں ، نوجوت سنگھ سدھو کی شکل میں، سامنے آئی ہے ۔نوجوت سنگھ سدھو صاحب ہمارے ہاں بھی ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ سدھو جی جب معروف بھارتی کرکٹر تھے تو بھی ہمارے ہاں جانے پہچانے جاتے تھے۔

کرکٹ ہی کی بنیاد پر نوجوت سنگھ سدھو اور جناب عمران خان کی باہمی دوستی خاصی معروف ہے۔ وہ کئی بار پاکستان آ چکے ہیں ۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا تو سدھو جی کو خصوصی طور پر تقریب میں مدعو کیا گیا ۔ اس تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کو ہماری ایک اہم ترین شخصیت سے معانقہ اور مصافحہ کرنے کا موقع ملا۔ اس ملاقات کی فوٹو نے بھارت بھر میں ہلچل مچائے رکھی اور سدھو جی کے سیاسی مخالفین نے اُن کے خلاف گرد اُڑانے کی بھی بھرپور کوشش کی ۔ اس سکھ جاٹ نے مگر اس مخالفت کا بھرپور سامنا اور مقابلہ بھی کیا ۔

کرتار پور راہداری ( ضلع نارووال ، تحصیل شکر گڑھ) کی تاریخی تکمیل کی تقریب کے موقعے پر بھی نوجوت سنگھ سدھو کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے خاص طور پر دعوت دی تھی ۔ اس موقعے پر سدھو جی نے ایک شاندار تقریر بھی کی تھی۔ یہ تقریر بھی اُن کے سیاسی مخالفین کے لیے اسلحہ ثابت ہُوئی۔ سدھو جی نے ایک مشہور بھارتی انٹر ٹینمنٹ شو میں کئی سال شرکت کرکے بھی بہت شہرت حاصل کی۔ کر کٹ اور شوبز کے بعد انھوں نے عملی سیاست میں بھی قدم رکھا ۔

کامیاب بھی ہُوئے اور مزید شہرت بھی حاصل کی ۔ وہ شاعرانہ طبیعت کے مالک ہیں ۔ خوشگوار اسلوب میں تقریر کرتے ہُوئے مجمع اور سامعین کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ اِس فن نے انھیں مشرقی پنجاب کی سیاست میں خاصا مقبول بنا رکھا ہے ۔

نوجوت سنگھ سدھو پہلے پہل ’’بی جے پی‘‘ سے وابستہ تھے۔ پھر وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔ بھارتی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے۔ کھیل اور ثقافت کے صوبائی وزیر بھی بنے۔ اُن کی مقبولیت اور شہرت کے کارن سونیا گاندھی نے انھیں بھارتی پنجاب کانگریس کا صدر بنا دیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ سابق کرکٹر اور ٹی وی سلیبرٹی ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب کانگریس کے صدر ہونے کی وجہ سے وہ پورے بھارت میں جانے پہچانے جاتے تھے۔

وہ جتنے مشہور ہیں، اتنے ہی اُن کے سیاسی دشمن بھی زیادہ ہیں ۔ اس دشمنی کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ ایک 34سالہ پرانے کیس میں عدالت نے انھیں ایک سال قید بامشقت کی سزا سنا دی ہے۔ حالیہ ایام میں سدھو جی کو یہ تیسرا بڑا دھچکا لگا ہے ۔ وہ بھارتی پنجاب کے انتخابات میں بُری طرح شکست کھا گئے ہیں۔ شکست کے بعد کانگریس پارٹی کی صدر، سونیا گاندھی، نے اُن سے استعفیٰ بھی لے لیا ۔ اور اب سال بھر کی قید بامشقت !

ابھی کچھ ہی عرصہ قبل نوجوت سنگھ سدھو بھارتی پنجاب میں وزیر اعلیٰ بننے کے اُمیدوار تھے۔ انھوں نے بھرپور سیاسی دوڑ دھوپ کرکے مشرقی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ، کیپٹن امریندر سنگھ، کو اقتدار سے فارغ کر دیا تھا۔

قوی اُمید کی جا رہی تھی کہ امریندر سنگھ کی جگہ نوجوت سنگھ سدھو ہی وزیر اعلیٰ منتخب کیے جائیں گے لیکن سونیا گاندھی نے ایک غیر معروف سیاستدان ، چرنجیت سنگھ چنّی، کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے سدھو جی کو وزیر اعلیٰ نہ بننے دیا کہ وہ پاکستان کے لیے دل میں واضح طور پر نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

اس سے بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا سینہ ٹھنڈا نہ ہُوا ۔ کوئی 34سال قبل وقوع پذیر ہونے والے ایک حادثے کی پاداش میں اب بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے ذریعے سدھو جی کو ایک سال با مشقت کی سزا دلوا دی ہے۔ کئی سال قبل ، جب نوجوت سنگھ سدھو اُبھرتے ہُوئے کرکٹر تھے ، راہ چلتے ہُوئے ایک 65سالہ شخص ، گرنام سنگھ ،سے اُن کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس جھگڑے میں سدھو جی اور اُن کے ایک دوست (روپندر سنگھ) پر الزام لگا کہ گرنام سنگھ ان کے تشدد سے اسپتال پہنچ کر فوت ہو گیا ہے ۔ شک کا فائدہ اُٹھا کر نوجوت سنگھ کو بری کر دیا گیا تھا مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر فوت شدہ شخص کے خاندان کی ایما پر دوبارہ کیس کھولا گیا۔ اور اب سدھو جی کو ایک سال کی سزا بول گئی ہے ۔

21مئی2022ء کی شام 58سالہ نوجوت سنگھ سدھو کو پٹیالہ کی سینٹرل جیل کی بیرک نمبر10 میں بند کر دیا گیا ۔ اُن کا قیدی نمبر 137683ہے ۔ سدھو جی کو پٹیالہ کی اس جیل میں ایک سال قید بامشقت گزارنی ہے۔

انھوں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا کہ وہ جیل جائیں گے۔ قسمت کے کھیل ہیں کہ سدھو جی وزیر اعلیٰ بنتے بنتے جیل جا پہنچے ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ ایک جری بھارتی پنجابی سکھ جاٹ سیاستدان کو عبرتناک سزا دینے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کو دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی سزا دی گئی ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کسی ملک کی ہو، ایک نہ ایک دن اپنے نظریاتی حریفوں اور مخالفین کو گھیر ہی لیتی ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، بھگونت سنگھ مان، سدھو جی کی سزا کی وجہ سے خاصے دباؤ میں ہیں۔وہ بھی مگر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔