راجہ صاحب سے اچھا کوئی نہیں

سلیم خالق  جمعرات 30 جون 2022
بھائیوں وہ تو راجہ صاحب تھے جن کے کہنے پر انھوں نے دورہ کیا، ورنہ اب تو پاکستانی میدان ویران ہو چکے ہوتے۔ فوٹو : فائل

بھائیوں وہ تو راجہ صاحب تھے جن کے کہنے پر انھوں نے دورہ کیا، ورنہ اب تو پاکستانی میدان ویران ہو چکے ہوتے۔ فوٹو : فائل

’’مصروفیات کی وجہ سے کبھی میڈیا سے بات کرنا وقت کا ضیاع لگتا ہے‘‘ گذشتہ 6 دنوں میں 2 پریس کانفرنس، زوم کال پر چندصحافیوں سے گفتگو اور یوٹیوب چینل پر انٹرویو دینے والے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کی یہ بات سنی تو مجھے احساس ہوا کہ واقعی ہم صحافی انھیں کتنا پریشان کرتے ہیں، وہ اتنی مصروف شخصیت ہیں اور انھیں بار بار اپنے کارنامے گنوانے کیلیے میڈیا کے سامنے آنا پڑتا ہے۔

ان کو شکایت ہے کہ میڈیا منفی ہیڈ لائنز لگاتا ہے اور ان کے اچھے کاموں کو اہمیت نہیں دی جاتی، واقعی ایسا نہیں ہونا چاہیے، ٹی وی چینلز اور اخبارات کو پہلے کرکٹ کی کوئی خبر دینے سے قبل پی سی بی کو دکھانا چاہیے، وہاں سے ہیڈ لائن کا جو مشورہ ملے اسے اپنائیں، میڈیا کا کام بورڈ کے اچھے کاموں کی تشہیر ہے، منفی باتوں کو بھول جائیں، آپ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ رمیز راجہ کے دور میں ہی پاکستان نے پہلی بار ورلڈکپ میں بھارت کو ہرایا، بابر اعظم اور محمد رضوان کوکس بات کا کریڈٹ جاتا ہے۔

اگر چیئرمین انھیں مفید مشورے نہ دیتے تو کیا وہ بھارتی بولنگ کا حشر نشر کر سکتے تھے، وہ تو آسٹریلیا سے سیمی فائنل میں پاکستانی کرکٹرز نے مشورے بھلا دیے جس کی وجہ سے ناکامی ہوئی، رمیز نے کہا تھا کہ جارحانہ انداز لائوں گا اب آپ دیکھیں پاکستانی کرکٹرز کا بس چلے تو ہر میچ میں 400 رنز بنائیں، بابر اعظم کو چیئرمین نے ہی تو اعتماد دیا جس کی وجہ سے آج وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔

اگر آپ نے یہ کہا کہ 9 ماہ قبل بھی تو بابر سپراسٹار تھے اور ایسے ہی کارنامے انجام دے رہے تھے تو دیکھو آپ منفی سوچ کے حامل ہیں، یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ڈراپ ان پچز کے بارے میں یوٹرن لیا گیا، اب کیا قذافی اسٹیڈیم کا دروازہ توڑ کر اسے اندر لے کر جاتے، جہاز پر ایک ارب روپے کا خرچ آ رہا تھا، مجھے پتا ہے آپ میں سے بعض لوگ کہیں گے کہ کیا مریخ سے پچ آ رہی تھی جو اتنے اخراجات ہوتے، ایسے لوگوں کو میں یہی کہوں گا کہ تم نے کیا کبھی پاکستان کی کرکٹ میں نمائندگی کی، کمنٹری میں وقت لگایا نہیں ناں تو پھر چپ رہو تمہیں کیا پتا، راجہ صاحب نے اگر آئیڈیا ڈراپ کیا تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہو گی، ہوم ورک کیے بغیر بس کریڈٹ لینے کے لیے اعلان کا الزام نہ لگاؤ۔

اب آسٹریلیا سے مٹی آ رہی ہے، تم لوگ دیکھنا پاکستان میں بھی پرتھ، سڈنی اور میلبورن جیسی پچز بنیں گی، اب یہ نہ کہو کہ کروڑوں روپے مٹی میں ملائے جا رہے ہیں، پاکستان میں آسٹریلیا جیسا موسم کیسے لائیں گے؟ دراصل آپ لوگوں کو کرکٹ کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ میڈیا تو سب سے زیادہ نادان ہے، اگر چند روز میں چیئرمین کو بدل دیا گیا تو اس میں صحافیوں کا ہی قصور ہو گا، آئین میں تبدیلی کی سفارش کے پیچھے بھی شاید میڈیا والے ہیں، انھوں نے ہی یہ بات پھیلائی کہ رمیز راجہ کو سابق وزیر اعظم عمران خان ہی لائے تھے، انھوں نے کھل کر ان کی حمایت کی تھی، چند ٹوئٹس سے کیا ہوتا ہے،دیکھا نہیں کہ ان کا ابتدا میں انداز بھی خان صاحب جیسا تھا،انھوں نے تو پی ایس ایل کے آغاز پر زبردست ویڈیو بھی بنائی۔

اگر کسی نے یہ کہا کہ اولمپکس کے وقت ملکہ برطانیہ کی بھی ایسی ویڈیو سامنے آئی تھی تو اچھا نہیں ہوگا،اگر چیئرمین نے کہہ دیا کہ وہ نہیں جا رہے تو نہیں جائیں گے، چاہے حکومت جو بھی کر لے، ہیڈ لائنز ایسی بنانی چاہئیں کہ

’’رمیز راجہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا تاحیات چیئرمین بنا دیں‘‘

’’رمیز نے پاکستان کرکٹ کی کایا پلٹ دی‘‘

جو نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ چیئرمین نے عمران خان کے جاتے ہی 2 منٹ میں سیٹ چھوڑنے کی بات کی تھی، وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دراصل ان کا مطلب2 منٹ بعد سیٹ چھوڑ کر باہر ٹہلنے کے لیے جانے کا تھا، ایسا نہیں تھا کہ عہدہ ہی چھوڑ دیتے،اگر رمیز راجہ چیئرمین نہ ہوتے تو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ٹیمیں دوبارہ پاکستان آنے پر حامی نہیں بھرتیں، انھیں غلطی کا کوئی احساس نہیں ہوا نہ حکومتی سطح پر کوششیں ہوئیں، وہ تو چیئرمین نے کہا تھا کہ واپس نہ آئے تو دیکھ لوں گا، اس پر وہ فیصلے پر مجبور ہوئے، آسٹریلوی ٹیم کے بارے میں یہ نہ کہے گا کہ دورے کا پروگرام کافی پہلے طے ہو گیا تھا۔

بھائیوں وہ تو راجہ صاحب تھے جن کے کہنے پر انھوں نے دورہ کیا، ورنہ اب تو پاکستانی میدان ویران ہو چکے ہوتے،وہ تو اتنے احسان مند ہیں کہ ہوٹل سے چوہے بھگانے پر بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں، اس سے پہلے بھی جتنی ٹیمیں آئیں اس کے پیچھے رمیز ہی تھے، تب بطور کمنٹیٹر انھوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا تھا۔ پی ایس ایل بھی پاکستان میں انہی کی وجہ سے ہوئی،کوویڈ کیسز کم ہونا کوئی بات نہیں تھی، فرنچائزز کو مزا چکھانا بھی ضروری ہے، اور کرو بورڈ پر تنقید اب دم ہے تو کرا لو گورننگ کونسل کا اجلاس، اور ہاں بھائی 81 کروڑ فی فرنچائز فائدہ ہوا ہے مان لو یہ۔

چیئرمین صاحب اور کتنی بار یقین دلائیں گے، 40،50 کروڑکے اخراجات بھاڑ میں جائیں خبردار جو ان کا ذکر کیا، اب دیکھو جونیئرلیگ میں کیا ہوتا ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ہم عقلمند ہیں اسی لیے پہلے آئیڈیا دماغ میں آیا، آئی سی سی نے حماقت کی کہ کئی برس پہلے ورلڈکپ بھی اکتوبر میں کرانے کا فیصلہ کر لیا،اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں،آپ دیکھیے گا اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی، کاشف خان، احمد علی، مقدس یا جو بھی نوجوان کرکٹرز ہیں ان کو دیکھنے کیلیے بلیک میں ٹکٹیں فروخت ہوں گی۔

ٹی وی پر میچز دیکھنے کا ریکارڈٹوٹ جائے گا، جیسا کہ میرے بعض صحافی دوست کرتے ہیں کہ جو چیئرمین آئے اس کو سب سے اچھا قرار دیتے ہیں، میں بھی یہی کہتا ہوں کہ راجہ صاحب سے اچھا کوئی سربراہ پی سی بی کو نہیں ملا،ان کی وجہ سے پاکستان کرکٹ آسمان پر پہنچ گئی،9 ماہ پہلے بھی ٹیم کی کارکردگی بھی اچھی تھی تو اسے بھول جائیں مثبت باتیں کریں، اس کا آغاز مثبت ہیڈ لائن سے ہی ہونا چاہیے، راجہ صاحب سے اچھا کوئی نہیں، اگر نہ مانے تو دیکھ ٹویٹر پر ان کے چاہنے والے تم لوگوں کا کیا حال کرتے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔