فلم انڈسٹری

راؤ منظر حیات  پير 4 جولائی 2022
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ہمسایہ ملک میں اسرائیلی وزیراعظم کا سرکاری دورہ تھا۔ کچھ ایسے جنگی ہتھیار ‘ فضائی لڑاکا طیارے اور ڈرون ٹیکنالوجی پر معاہدے ہونے تھے جن پر امریکی حکومت نے بیچنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ یعنی اسرائیل چاہتا بھی تو ہندوستان کو فروخت نہیں کر سکتا تھا، مگر اس معاہدے میں ایک ایسی شق تھی، جس میں نیتن یاہو ‘ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر کے ذاتی ذمے داری پر یہ سب کچھ کسی بھی ملک کو دے سکتا تھا۔

اسرائیلی وزیراعظم اور ہندوستانی وزیراعظم کے درمیان مذاکرات میں کوئی بھی کامیابی نہ ہو پائی۔ اسرائیلی وزیراعظم خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کترا رہا تھا۔ 2018 کا وقت تھا۔ جب تمام معاملہ تقریباً ناکام ہو گیا۔ تو ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک زیرک شخص نے تجویز پیش کی کہ اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا جائے کہ پورے ہندوستان میں کس شخصیت سے ملنا چاہتا ہے۔

پوری وزارت خارجہ نے اس تجویز سے اختلاف کیا کہ سرکاری طور پر نیتن یاہو‘ کیوں کسی ہندوستانی شخصیت سے ملنے کا خواہاںہو گا،مگر کافی بحث کے بعد اس کو منظور کر لیا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ ہمارے ملک میں کسی سے اپنی مرضی سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ جواب حد درجہ دلچسپ تھا۔ ’’امیتابچن کے ساتھ سیلفی بنوانا چاہتا ہوں۔‘‘یہ سن کر سب حیران رہ گئے۔

کہاں بمبئی کے فلم اسٹار اور کہاں دنیا کے طاقت ور ترین ملک کا وزیراعظم جو ہندی زبان کی الف بے تک نہیں جانتا۔ بہر حال سرکاری سطح پر امیتابچن‘ ایشوریا رائے‘ ابھشیک‘ کرن جوہر کو بلایا گیا۔ نیتن یاہو اور اس کی اہلیہ نے بمبئی کے فلمی ستاروں کے ساتھ سیلفی بنوائی۔ جو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی۔فلمی ستاروں کے ساتھ ایک شام بھی رکھی گئی۔

کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کر کے ہندوستانی حکومت کے ساتھ جنگی سازو سامان کے کبھی نہ ہونے والے معاہدوں کو بھی منظور کر ڈالا۔ وہ کام‘ جو پوری وزارت خارجہ‘ نریندر مودی اور ہندوستان کی پوری حکومت نہ کر پائی ۔ وہ بالی وڈ کے ستاروں کی ایک تفریحی تقریب نے کروا ڈالا۔ نیتن یاہو نے پریس کو بتایا کہ اس کی زندگی کی حسرت تھی کہ وہ امیتابھ کے ساتھ سیلفی بنوائے۔ یہ فلمی دنیا کا ایک نایاب واقعہ ہے۔ جس سے اس کے بیرونی اثر کو جانچا جا سکتا ہے۔

کسی بھی عمر کے مرد یا خاتون سے بات کیجیے۔ ان کا تعلق کسی بھی سماجی‘ سیاسی یا سرکاری سطح کا ہو۔ اسے کہیں نہ کہیں ‘ تفریح کی ضرورت رہتی ہے۔ تفریح کے جائز ذرایع میں سینما اور فلمیں سب سے موثر اور طاقت ور ذریعہ ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک اس قوت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی بھی کوئی تفریق نہیں۔ کسی ماہر نفسیات سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہر انسان کے لیے کسی بھی قسم کی انٹرٹینمنٹ اتنی ہی ضروری ہے‘ جتنا سانس لینا یا کھانا کھانے کی حاجت ۔ اس سے کوئی انسان مفر حاصل نہیں کر سکتا۔

مگر پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس میں سینیما اور فلموںسمیت تمام جائز تفریح کے ذریعوں پر ہر طرح کی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ کہیں سرکاری اور کہیں غیر سرکاری۔ ہمارے ہاں خوش ہونے کو گناہ سا بنا دیا گیا ہے۔ ذہنی خوف کا اندازہ لگایئے کہ معاشرے میں اگر کوئی کھل کر قہقہے لگا رہا ہے تو اسے بھی ٹوکا جاتا ہے کہ بند کرو یہ ٹھٹھا‘ کہیں اس کے بعد کوئی مصیبت نہ نازل ہو جائے۔ یہ سماجی رویہ ہر ایک کے علم میں ہے۔

عرض کرنا چاہونگا کہ ہم نے تفریح کے اکثر ذرایع کو ’’فحاشی‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ کیونکہ بغیر مثال دیے میری بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ آج سے چار پانچ برس پہلے ٹی وی پر ایک اشتہار چلا کرتا تھا۔ جس میں ایک کم عمر لڑکی ذرا تیز چل رہی تھی یا شاید ہلکی سے دوڑ رہی تھی۔ اس نے پورے کپڑے بھی پہن رکھے تھے۔ مگر ہمارے چند دائیں بازو کے دانشوروں اور علماء نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ اشتہار فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔

اس کی جو توجیہہ دی گئی۔ میں اس کا ذکر کرنا بھی غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ بلکہ اس توجیہہ کوسمجھنے کی استطاعت ہی سے محروم ہوں۔ اتنی چیخ و پکار مچائی گئی کہ ٹی وی پر وہ اشتہار بند کرنا پڑا۔ کسی بھی صاحب فکر آدمی نے یہ نہیں کہا کہ جناب ‘ اعلیٰ حضرت‘ قبلہ اعتراض سے پہلے ذرا فحاشی کی تعریف ہی بیان فرما دیں۔ چلیے شاید اس سے مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ مگر آج تک یہ نہیں ہو پایا۔ اعتراض کرنے والے آج بھی ہر طرح سے سماج کو سدھارنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہیے کہ ان محیر العقول پابندیوں نے پاکستان کو بنا کیا ڈالا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں اسی لاکھ افراد ہیں جو باقاعدہ منشیات کے مکمل عادی ہیں۔ ان میں اٹھتر فیصد مرد اور بائیس فیصد خواتین ہیں۔ یہ رپورٹ کے اعداد میری نظر میں مکمل علت کی نشاندہی نہیں کرتے۔ پاکستان میں تحقیق کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی تعداد ایک کروڑ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہیروئن ‘ شراب‘ آئس ‘ کوکین اور دیگر منشیات ہر جگہ آزادی سے استعمال ہو رہی اور فروخت ہو رہی ہیں۔ ہر پنج ستارہ ہوٹل کے اندر اور باہر‘ شراب کی خرید و فروخت کامیابی سے جاری ہے۔زیر زمین انڈسٹری کا بھرپور وجود ہے جو منشیات کو بڑے آرام سے استعمال کروا رہی ہے۔

اس میں جعلی پن اور دو نمبری بھی حد سے زیادہ موجود ہے۔ انسانی صحت الگ برباد ہو رہی ہے۔ ان تمام کی بنیاد پر جائیں تو ایک مسئلہ آپ کو ضرور نظر آئے گا۔ تفریح کے جائز ذرایع کا نہ ہونا۔ جس طرح کی بحث فرمانا چاہیں۔ شوق سے کیجیے ۔ مگرآپ انسانی فطرت کو وعظ اور نصیحت سے تبدیل نہیں کر سکتے۔ اور ہوا کیا ہے۔ پورے سماج کو منافقت کے عذاب میں دھکیل دیا گیا ہے۔

سب کو علم ہے۔ مگر سب پر خوف طاری ہے کہ کہیں سماج کو راہ راست پر رکھنے والے ناراض نہ ہو جائیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ سماجی ٹھیکیدار صرف پاکستان میں کیوں کامیاب ہیں۔ دبئی‘ الجیریا‘ ہندوستان‘ قطر اور دیگر ممالک میں ان کا اثر کیوں نہیں ہے۔ دراصل ان خود پرست لوگوں نے ہمارے پورے نظام پر قبضہ کر لیا ہے۔ گناہ اور ثواب قرار دینے کا حق اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کو برباد کر چکے ہیں۔

بہر حال بات فلم انڈسٹری کی ہو رہی تھی۔ ہالی ووڈ کو سامنے رکھیے۔ فلم سازی کا شعبہ امریکی جی ڈی پی کو پانچ سو بلین ڈالر کا خطیر حصہ دیتا ہے۔ کووڈ سے پہلے یعنی 2020میں‘ اس انڈسٹری کی اقتصادی حیثیت اکانوے بلین ڈالر تھی۔ صرف فلم انڈسٹری سے حاصل ہونے والا ریونیو پچیس بلین ڈالر کے برابر تھا۔ کیا یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر نہیں بتا رہے کہ جناب امریکی فلم انڈسٹری‘ اپنی معیشت کو بھرپور سہارا دیے ہوئے ہیں۔ کون سا ایسا ملک ہے جہاں ہالی ووڈ کی بنی ہوئی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری تو ہمارے سامنے ترقی کرتی نظر آئی ہے۔

بمبئی میں تقریباً ایک ہزار فلمیں سالانہ بنتی ہیں۔ جن پر دو سو بلین ہندوستانی روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ بمبئی دنیا میں فلمیں بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ہالی ووڈ کی طرح ‘ دنیا کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں ہندوستانی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں۔ ہمارا ملک چھوڑ دیجیے۔ سعودی عرب اور ایران میں بھی یہ فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ افریقہ‘ شمالی امریکا‘ کینیڈا‘ یعنی پورے کرہ ارض پر ہندوستانی فلموں کی چھاپ موجود ہے۔ اب چین بھی اس میدان میں امریکا اور انڈیا کا مقابلہ کر رہاہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے ۔ کیا ایک موثر فلم انڈسٹری سے ہندوستان اور امریکا کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ خود تعین فرما لیجیے۔ جواب مل جائے گا۔

اب میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کا ذکر کروں گا۔ 2022میں اس کی پوری اقتصادی حیثیت صرف ایک ارب روپیہ ہے۔ یعنی ہندوستانی صرف پچاس کروڑ۔ اسے امریکی ڈالروں میں تبدیل کرنے کی ہمت کم از کم میرے اندر نہیں ہے، کیونکہ اعداد و شمار سے صرف شرمندگی ہو گی۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی ہرگز ہرگز کمی نہیں۔ مگر سینیما گھروں کو تقریباً ختم کیا جا چکا ہے۔ہاں‘ بڑے شہروں میں چند جدید سینما گھر ضرور بنے ہیں جو بہر حال ایک مثبت رجحان ہے۔

ہماری حکومتیں اس شعبے کا ذکر کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتی ہیں۔ سرکاری سرپرستی تو دور کی بات‘ اس پورے شعبے کو ہی متنازعہ بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ فلم انڈسٹری ہمارے ملک میں مکمل بے سہارا ہے۔ ہم اس شعبے کو اپنی اقتصادی ترقی کے لیے کامیابی سے استعمال کر سکتے تھے۔امریکا اور ہندوستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

فلمی ستارے‘ ان ممالک کے سب سے موثر سفیر ہیں ۔ مگر ہم لوگ تو دنیا کو ٹھیک کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ ہم دنیا کے ناپسندیدہ ترین ممالک کی فہرست میں آچکے ہیں۔ مگر جنھوں نے فکر کرنی ہے ان کی آل اولاد اور مال و دولت تو مغرب میں ہے۔ جہاں ہمارے ملکی سماجی ٹھیکیدار چوں کرنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔